تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     14-04-2018

پشتون نوجوان کا اضطراب

ریاست اگر ماں ہے تو شہری اس کے بچے۔ مائیں بچوں میں تمیز کرتی ہیں اور نہ شکایت پر انہیں غیر ملکی ایجنٹ کہتی ہیں۔ مملکت ِپاکستان ماں ہے۔ پشتون نو جوان اس کے بچے ہیں۔ اربابِ ریاست کوآگے بڑھ کر ان بچوں کو گلے لگانا اور ان کی شکایات کا ازالہ کرنا ہے۔ 
منظور پشتین کی عمر چوبیس سال ہے۔ گویا 1994ء اس کی پیدائش کا سال ہے۔ اس کا علاقہ 1979ء سے آگ اور بارود کی لپیٹ میں ہے۔ اس خطے میں دو ایسی نسلیں پروان چڑھ چکیں جنہوں نے صرف فساد دیکھا ہے۔ آسمان سے برستی آگ یا زمین سے اٹھتے شعلے۔ کبھی طالبان کا خوف ان کو اپنی گرفت میں لے لیتا اور کبھی امریکی ڈرون کا ڈر جو نہ جانے کب کسی گھر کو ہدف بنا ڈالے۔ پھر سکیورٹی فورسز کے اسلحہ بردار جوان اور گاڑیاں۔ یہ وہ نسلیں ہیں جنہوں نے صرف اسلحہ دیکھا۔ وہ یہ تمیز نہیں کر سکتیں کہ کون سی بندوق دوستی کی گولی اگلتی ہے اور کون سی دشمنی کی۔ وہ تو بس یہ جانتے ہیں کہ گولی گولی ہوتی ہے جو وجود ِانسانی کو چیر ڈالتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے ماہر ِ نفسیات ہو نا ضروری نہیں کہ جو بچہ اس فضا میں پلابڑھا ہو،اس کی نفسیاتی ساخت عام بچے جیسی نہیں ہو سکتی۔ یہ بچے اب جوان ہو چکے۔ 
جنہوں نے یہ کھیل کھیلا،اب پیوند ِ خاک ہو چکے۔ اربابِ ریاست اور ان کے حامیوں نے جس طرح اس خطے کے لوگوں کا مذہبی استحصال کیا اور انہیں 'انصار‘ کا لقب دیا، آج ان میں سے شاید ہی کوئی دنیا میں موجود ہو۔ وہ مقامی لوگ بھی اب کم ہی باقی ہوں گے جنہوں نے خود کو انصار سمجھا اور ان مجاہدین کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے ،جن کی کھوکھ سے ان طالبان نے جنم لیا،جنہوں نے اس خطے کو فساد کاگھر بنا دیا۔ نئی نسل نہ تو انصار ہے اور نہ اربابِ ریاست کی اتحادی۔ وہ تو ریاستی اور مقامی بڑوں کی 'بصیرت‘ کے نتائج سمیٹ رہی ہے۔ یہ نتیجہ بد امنی ہے اور خوف ہے۔ 
منظور پشتین کی نسل کا خیال تھا کہ ضربِ عضب کے بعد ان کے مسائل حل ہو جا ئیں گے۔ اب وہ اپنے علاقوں میں آزادانہ آ جا سکیں گے۔ ان کو طالبان کا خوف ہو گا نہ امریکی ڈرون کا۔ ان کی یہ تو قع پوری نہیں ہوئی۔ انہیں ہر دن اپنے گھر جانے کے لیے،آج بھی بہت سی چیک پوسٹوں سے گزر نا پڑتا ہے۔ ان کی شکایت ہے کہ اس دوران میں،ان کی عزتِ نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ انہیں بے چین کرتا تھا۔ یہ بے چینی اور اضطراب آج ایک سماجی تحریک میں ڈھل گئے ہیں۔ 
منظورپشتین کا مطالبہ یہ ہے کہ اِس خطے کو امن دیا جا ئے۔ اس کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جائے۔ وہ اپنے ہی علاقے میں اجنبی نہ بنے۔ لاپتا افراد کو قانون کے سامنے پیش کیا جائے۔ مجرموں کو سزادی جائے اور بے گناہوں کو رہا کیا جائے۔ اس کے مسائل کو سنا جائے اور انہیں آئینِ پاکستان کی روشنی میں حل کیا جائے۔ ان میں سے کوئی مطالبہ ایسا نہیں جو قانون، اخلاق اور قومی سلامتی کے خلاف ہو۔ یہی نہیں ،یہ جدو جہد سو فی صد پرامن اور جمہوری ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے جلسوں میں بعض قابلِ اعتراض باتیں بھی ہوئیں مگر منظور سے کوئی ایسی بات منسوب نہیںجو ریاست کے خلاف ہو۔ اس تحریک میںایک آدمی ایسابھی ہے جس کے گھرانے کے سترہ افراد،طالبان کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ اگر غصے میں کوئی قابلِ اعتراض بات کہتا ہے تو اس کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ اس کے سیاق وسباق میں کرنا چاہیے۔ 
سوال یہ ہے کہ نوبت یہاں تک کیسے پہنچی؟میرا احساس ہے کہ حکومت،ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں،سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ حکومت نے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔ اس کی سفارشات سامنے آئیں۔ حکومت انہیں عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی جیسے منجھے ہوئے سیاست دان تاریخی عمل کی حرکیات کو سمجھنے میں ناکام رہے اور گروہی مفادات سے بلند نہ ہو سکے۔ اور اب ریاستی ادارے،حسب ِ روایت،اسے غداری کا مقدمہ بنا نے پر تل گئے ہیں۔ 
ایک ریاست کا جواز اسی وقت ہے جب وہ اپنے شہریوں کی جان ،مال اور عزتِ نفس کا تحفظ کرے۔ ریاست کا وظیفہ یہ نہیں ہے کہ وہ شکایت پر شہریوں کے خلاف غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتی پھرے۔ ریاست تو ان کو بھی ساتھ ملاتی ہے جو اس سے الگ ہو نا چاہتے ہیں۔ وہ شکایات کا ازالہ کرتی اور شہریوں کی دل جوئی کر تی ہے۔ پشتون نو جوان ریاست کی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ وہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ریاست اگر معذرت نہیں کر سکتی تو آگے بڑھ کر انہیں سینے سے تو لگاسکتی ہے۔ 
سیاسی جماعتوں کو بھی ان کا پورا ساتھ دینا چاہیے۔ ان کے حق میں پنجاب اور دوسرے علاقوں سے آواز اٹھنی چاہیے۔ اگر کسی معاشرے میں مختلف طبقات اپنے اپنے مطالبات لے کر سڑکوں پر نکل آئیں تو یہ سیاسی جماعتوں کی نا کامی کی دلیل ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ایک ملک میں مو جود مختلف طبقات کی نمائندگی کریں۔ ا ن کے مسائل کو اپنے منشور اور سیاسی پروگرام کا حصہ بنا ئیں۔ آج ضرورت ہے کہ فاٹا کے لوگوں کے جائز مطالبات کی تائید قومی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہو۔ 
تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ صرف قومی سیاسی جماعتیں ہی ایک ملک کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ فوجیں ملکوں کو متحد نہیں رکھ سکتیں۔ 1970ء میں اگرپاکستان میں کوئی قومی سیاسی جماعت مو جود ہوتی تو ملک دولخت نہ ہوتا۔ اُس وقت علاقائی جماعتیں تھیں۔ جدید ریاست میں لوگ اپنی مرضی سے ریاست کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں۔ اسے آئین یا عمرانی معاہدہ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ حقوق و فرائض ریاست کے ہیں اور کچھ شہریوں کے۔ ان کی پاس داری ہی سے ریاست قائم رہ سکتی ہے۔ 
ریاست نے تمام شہریوں کو یہ اطمینان دلاناہے کہ وہ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہے اور اس باب میں شہریوں کے مابین امتیاز نہیں کرتی۔ شہریوں کو بھی دیکھنا ہے کہ ملک کن حالات سے گزر رہا ہے اور ریاست کوکون سے مسائل درپیش ہیں۔ پشتون نوجوانوں کو آج ریاست کی مجبوریوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔ چیک پوسٹیں صرف فاٹا میں نہیںہیں،یہ سارے ملک میں ہیں۔ اسلام آباد میں داخل ہو نے کے لیے چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ فوج دانستہ شہریوں میں فرق نہیں کرتی۔ 
ہمارے پشتون نو جوانوں کو اس باب میں بھی متنبہ رہنا ہے کہ ایسی تحریکوں میں ملک دشمن بھی آ گھستے ہیں جوانہیں اپنی مرضی کا رخ دینا چاہتے ہیں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ تحریکِ طالبان ابتدا میں غیر ملکی مداخلت سے پاک تھی۔ لیکن جب پاکستان دشمن قوتوں کو یہ اندازہ ہو کہ اس تحریک کو پاکستان میں فساد برپا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے توانہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ منظور پشتین جیسے نوجوانوں کو نظر رکھنا ہوگی کہ ان کی تحریک میں ایسے عناصر جگہ نہ بنا پائیں۔ 
سب سے بڑی ذمہ داری مگر ریاست ہی کی ہے۔ یہ نو جوان ہمارا اثاثہ ہیں۔ ریاست کو انہیں ناراض نہیں کرنا، ان کے لیے ایسے مواقع پیدا کرنے ہیں جو ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشیں اوریہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ انہیں عملاً یہ محسوس ہو کہ ریاست ان کے لیے ماں کی طرح ہے۔ کوئی ان کی جان و ما ل یا عزت وآبروپر حملہ آور ہو تو ریاست ان کی ڈھال ہے۔ ریاست ان کے لیے تحفظ کی چادر بنے،خوف کی علامت نہیں۔ 
اربابِ ریاست کو فرصت ملے تو وہ قوموں کی عروج و زوال کی داستانیں اورسیاسیات کی بنیادی کتابیں ضرور پڑھیں۔ ریاست عوام کے دل میں محبت پیدا کر کے قائم رہ سکتی ہے،ان کے سروں پرسنگینوں کا سایہ کر نے سے نہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved