تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-04-2018

سُرخیاں‘ متن اور شعر و شاعری

میرے اردگرد کھڑے لوگ سونے کے
برابر تولنے کے لائق ہیں : نوازشریف 
نااہل اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''میرے اردگرد کھڑے لوگ سونے کے برابر تولنے کے لائق ہیں‘‘ تاہم سارا سونا تو امیر مقام صاحب پر ہی ختم ہو جائے گا جبکہ باقی حضرات کو تولنے کے لیے سونادرآمد کرنا پڑے گا کیونکہ کم از کم اتنا ہی سونا خاکسار پر بھی خرچ ہو جائے گا جبکہ اس نیک مقصد کے لیے ملکی یا غیر ملکی بینکوں سے قرضہ بھی لیا جا سکتا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''عدالت سے انصاف کی اُمید نہیں ہے‘‘ وہ بھی کیا دن تھے جب عدالت سے ایک فون کال پر بھی اپنی مرضی کا فیصلہ لے لیا جاتا تھا‘ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ جسٹس (ر) قیوم کو ایک بار پھر جج بنا دیا جائے؟ انہوں نے کہا کہ ''پارٹی چھوڑنے والے مفاد پرست ہیں‘‘ جبکہ سیاست کاری تو ہوتی ہی بے لوث ہے جیسا کہ ہم کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ ''قوم کے مقدر کا فیصلہ کون کر رہا ہے‘‘ حالانکہ ہم نے اپنے فیصلے سے قوم کو جہاں تک پہنچا دیا ہے اس کے بعد کسی فیصلے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ آپ اگلے روز نیب عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پنجاب میں شہباز اینڈ سنز کرپشن کمپنی اربوں کما رہی ہے : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں شہباز اینڈ سنز کرپشن کمپنی اربوں کما رہی ہے‘‘ اور ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑ رہی‘ اگرچہ فی الحال ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن اگر ترقی کرنی ہے تو بقول نوازشریف کرپشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی‘ آخر ان کا 35 سال کا تجربہ ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ تجربے کا تو کوئی بدل ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سینیٹ الیکشن میں ووٹ بیچنے والوں کو پارٹی سے نکال دیں گے‘‘ البتہ اگر وہ ٹکٹ بیچ کر اتنے الیکٹ ایبل ہو گئے ہیں تو اُنہیں مجبوراً ٹکٹ بھی دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کا وزیر خارجہ دبئی کی ایک کمپنی سے 16 لاکھ روپے تنخواہ پر کام کر رہا ہے‘‘ جبکہ دونوں عہدوں پر کام کرنے سے ان کی صحت پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے جبکہ ایک بیمار وزیر خارجہ کے ہوتے ہوئے قوم کیونکر صحتمند ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر جماعت کا ایک منشور ہوتا ہے‘‘ جبکہ ہمارے لیے ہماری روحانیت ہی کہانی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
شادی کر کے لگا یہ تو بہت آسان کام 
ہے‘ بار بار کرنی چاہیے : رئوف صدیقی
ایم کیو ایم کے رہنما رئوف صدیقی نے کہا ہے کہ ''شادی کر کے لگا یہ تو بہت آسان کام ہے بار بار کرنی چاہیے‘‘ بلکہ میں نے تو اپنا سہرا بھی خود ہی لکھا تھا کہ آخر شاعری سے کچھ تو فائدہ اُٹھانا چاہیے‘ تاہم میں نے تین چار سہرے مزید لکھا رکھے ہیں تاکہ بعد کی شادیوں میں کام آئیں‘ اگرچہ شادی کے آسان ہونے کا صحیح اندازہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی محسوس ہو گا کیونکہ ابھی تو میں ناک پر بیٹھی مکھی کو فوراً اُڑا لیتا ہوں‘ آگے کی خبر خدا جانے‘ اگرچہ اب تو سراج درانی صاحب نے بھی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ شادی کے آپ جوان جوان لگ رہے ہیں‘ اس لیے مزید شادیاں کرانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ میں بڑھاپے سے بچنا چاہتا ہوں بیشک شادیوں کا یہ سلسلہ کتنا بھی مزید طول کھینچے۔ انہوں نے کہا کہ ''سب کو حتیٰ کہ میرے خاص و عام دشمنوں کو بھی دعوت ولیمہ میں شرکت کی دعوت عام ہے‘‘ لیکن یاد رہے کہ یہ دعوت صرف موجودہ شادی کے لیے ہے کیونکہ میں بار بار دعوت ولیمہ منعقد کر کے دیوالیہ نہیں ہونا چاہتا۔ آپ اگلے روز دبئی میں صحافیوں سے گپ شپ لگا رہے تھے۔
عمران یہودیوں سے علماء کے ضمیر نہیں خرید سکتے : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران یہودیوں کے پیسوں سے علماء کے ضمیر نہیں خرید سکتے‘‘ کیونکہ یہودیوں کے پیسوں سے علماء کے ضمیر کی قیمت لگانا ویسے بھی سراسر زیادتی ہے جبکہ ملکی پیسے میں جو برکت ہوتی ہے وہ یہودیوں کے پیسوں میں کہاں ہو سکتی ہے اس لیے عمران خان کو اپنی سوچ درست کرنی چاہیے کیونکہ ضمیر ویسے بھی بہت قیمتی چیز ہوتی ہے اور علماء کے ضمیر کے ساتھ تو ایک احترام بھی وابستہ ہوتا ہے‘ اس لیے عمران خان کو ان سب باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''دس ہزار تنخواہ کی پیشکش کو کے پی کے علماء نے جُوتے کی نوک پر رکھ دیا ہے‘‘ اس لیے اگر تنخواہ بڑھا دی جائے تو وہ جوتے کی نوک سے بھی اُٹھا لیں گے کیونکہ زیادہ دیر تک رقم کو جوتے کی نوک پر رکھنا بھی سراسر زیادتی ہے۔ آپ اگلے روز بٹ گرام میں خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب شعر و شاعری :
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتا تو ہے کہ اُسے عُمر بھر نہیں آنا (آفتاب اقبال شمیم)
ہجرت ِخانہ بدوشاں بھی کوئی ہجرت ہے
ہم تو ویرانے سے آئے کسی ویرانے میں (سجاد بلوچ)
تیری یادوں کا اُڑ رہا تھا غُبار
میری آنکھوں میں آ پڑا شاید (زبیر قیصر)
پہلے ہم دھیان سے چلتے ہیں زمیں پر برسوں
پھر کہیں جا کے یہ بے راہروی آتی ہے (ممتاز گورمانی)
گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بنائوں گا
میں ایک فلم بنائوں گا اپنے ثروتؔ پر
اور‘ اُس میں ریل کی پٹڑی نہیں بنائوں گا (تہذیب حافی)
یہی سوچا ہے کہ اب جان چُھڑا لوں دل سے
اس نے حالات کو بہتر نہیں ہونے دینا (فیاض اسود)
موت جلدی میں تھی سو ہم نے سعید
وقت تھوڑے میں کام سارا کیا (سعید احمد قریشی)
ہم تو سمجھ رہے تھے یہی کائنات ہے
جس سمت جائو ایک نئی کائنات ہے (نسیم سحر)
ان سلگتے ہوئے سانسوں کو نہیں دیکھتے لوگ
اور‘ سمجھتے ہیں کہ جلتا نہیں تُو بھی‘ میں بھی
اے سمندر تری پھیلی ہوئی باہوں کی قسم
اپنی موجوں سے نکلتا نہیں تُو بھی‘ میں بھی (توقیر تقی)
نہ پوچھ کتنی محبت ہوئی ہے خرچ مری
تمام شہر کو اپنے خلاف کرتے ہوئے (دُردانہ کھرل)
آج کا مطلع
برا مطلوب تھا ہم کو کہ اچھا چاہتے تھے ہم
ابھی تک بے خبر ہیں آپ سے کیا چاہتے تھے ہم

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved