معراج النبی ﷺ انسانی عقول کو دنگ کردینے والا واقعہ ہے ،واقعاتِ معراج میں سے مِن جُملہ ایک واقعہ شقِّ صدر کا ہے ، اس کے معنی ہیں: ''سینے کا چاک کردینا ‘‘۔جو لوگ معجزات کے قائل نہیں یا انہیں عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ،سرِدست ہمیں اُن سے سروکار نہیں ہے ۔
تو معنیٔ والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مدّوجزر ابھی چاند کا محتاج
آج بہت سے سائنسی حقائق ایسے ہیں کہ چند سو سال پہلے کوئی اُن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،لیکن آج انسان اُن سے مستفید ہورہے ہیں ،انہیں برت رہے ہیں اور کائناتِ بسیط کی وسعتوں کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں ۔
دیگر خارقِ عادت معجزات کی طرح سینے کا شق ہوجانا بھی عہدِ رسالت کاناقابلِ یقین معجزہ تھا ۔کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ سینہ چاک کیا جائے ،دل کو سینے سے باہر نکالا جائے ،زم زم سے دھوکردوبارہ سینے میں رکھ دیا جائے ،پھربھی انسان زندہ رہے ، خون بھی نہ بہے ،یہ طبّی اصولوں کے خلاف ہے ،مگر سیدالمرسلین ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں اس کے بارے میں روایات موجود ہیں ،ان میں سے بعض صحیحین اوردیگر کتب احادیث میں موجود ہیں، علامہ اقبال نے معراج کی بابت کہا:
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالَمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
یعنی معراج النبی ﷺ سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان بلندیوں کو تسخیر کرسکتا ہے ۔معجزاتِ نبوی میں سے قرآنِ کریم ایسا معجزہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام اور اُس کی صفت ہے ، اس جیسا کلام بنانا بندوں کے لیے ممکن نہیں ہے ،قرآن کا چیلنج اس کا واضح ثبوت ہے ،لیکن دوسرے معجزاتِ نبوی ﷺ فی نفسہٖ ممکن ہیں اگرچہ ہر ممکن کا صدور لازمی نہیں ہوتا ۔سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا معراج کی شب بلندیوں کی طرف سفر کرنامادّی اسباب کے بغیر تھا ،اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا ،لیکن یہ سفر اس امکان کو ظاہر کر رہا تھا ، اب انسان مادّی طاقت کے سبب بہت سی ایسی بلندیوں کی جانب پرواز کر رہا ہے جو پہلے ناقابلِ تصور تھیں ۔
سید المرسلین ﷺ کا شق صدر ایک سے زائد بار ہوا اور محدثینِ کرام نے اس کی حکمتیں بھی بیان کی ہیں۔ پہلی بار آپ کا شقِ صدر بچپن یا لڑکپن کی عمر میں ہوا ،حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:جبریلِ امین رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ اس وقت نوعمر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ،انہوں نے آپ کو پکڑکر لٹایا ،پھر آپ کے سینے کو چیر کر اس میں سے دل کو نکالا،پھر دل سے ایک جمے ہوئے خون کو نکالا اور کہا:یہ آپ کے قلب میں شیطان کا حصہ تھا ،پھر آپ کے دل کو سونے کے طشت میں رکھ کر زم زم کے پانی سے دھوکرسینے میں اپنے مقام پر رکھ کر سی دیا ۔اس اثنا میں لڑکے دوڑتے ہوئے اُن کی رضاعی ماں کے پاس آئے اور کہا: محمد(ﷺ) کو قتل کردیا گیا ہے ،وہ (گھبرا کر) آپ کی طرف آئیں اور دیکھا کہ آپ کا رنگ بدلا ہوا ہے، حضرت انس بیان کرتے ہیں: میں آپ ﷺکے سینے پرٹانکوں کے نشانات دیکھتا تھا،(صحیح مسلم:162)‘‘۔بچپن میں یہ شقِ صدر کس عمر میں ہوا ،اس کے بارے میں کئی اقوال ہیں،ایک روایت میںہے کہ آپ کے قلبِ انور کو کینے اور حسد سے پاک کرکے رحم ومروّت سے بھر دیا اور رحمۃ للعالمین کے منصب پر فائز ہونے کے لیے یہ حکمت قابلِ فہم ہے اور ایک یہ بتائی گئی ہے کہ شیطانی ترغیبات کا آپ کے قلبِ انور کے پاس سے گزر بھی نہ ہو،حدیثِ پاک میں ہے :
''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے ہر ایک پر ایک ہمزاد جن (شیطان )مسلّط ہوتا ہے ،صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آپ پر بھی،آپ ﷺ نے فرمایا: میرے ساتھ بھی ہمزادپیدا ہوا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہوگیا ،اب وہ مجھے خیر کے سوا کوئی بات نہیں کہتا، (صحیح مسلم:2814)‘‘۔ حضرتِ حَنّہ نے اپنی صاحبزادی حضرت مریم کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی :(اے اللہ!) میں اِسے اور اِس کی اولاد کو شیطانِ مردودکے شر سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ،(آل عمران:36)‘‘،مفسرینِ کرام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کے قلوب کوشیطانی تحریکات سے محفوظ فرمادیا ۔
حدیثِ پاک میں ہے:''ہر بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کے انگلی چبھوتا ہے تو وہ شیطان کے (انگلی چبھونے سے) چیخ مار کر روتا ہے سوا مریم اور ان کے بیٹے کے ،پھر حضرت ابوہریرہ نے آل عمران:36 پڑھی،(صحیح البخاری:3431)‘‘۔
اس پر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت مریم وعیسیٰ کو رسول اللہ ﷺ پر اس جہت سے فضیلت حاصل ہوگئی ، ہم کہتے ہیں:یہ ان کی خصوصیت ہے ،لیکن سیدالمرسلین ﷺ پر فضیلت نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تخلیقِ انسانی کے اعتبار سے آپ ﷺ کو کامل پیدا فرمائے ، پھر آپ کو اپنے ہمزاد پر غلبہ عطا فرمادے، جیسا کہ انسان اپنے ناخن اورجسم کے بعض حصوں کے بال تراشتاہے ، لیکن اگرکسی کے بدن میں ناخن یا بال نہ ہوں تو اسے ناخن یا بال رکھنے والوں پر فضیلت نہیں سمجھا جاتا ۔ ایک بار آپ کا شقِ صدرمعراج کے موقع پر ہوا ۔
حضرت مالک بن انس بروایتِ ابوذر بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب میں مکے میں تھا ،(ایک شب ) میرے گھر کی چھت پھٹی ،حضرت جبریل علیہ السلام اترے ،انہوں نے میرے سینے کو چاک کیا ، میرے دل کو نکال کرآبِ زمزم سے دھویا،پھر ایمان وحکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اُسے میرے قلب میں ڈال دیا ،پھر میرے سینے کو سی دیا، پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمانِ دنیا کی طرف لے کر چڑھے ،(صحیح البخاری:349،صحیح مسلم:163)‘‘۔سنن ترمذی کی روایت میں ان کلمات کا اضافہ ہے:'' میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کی کیفیت میں تھا اور یہ کہ میرے سینے کو نیچے تک شق کیا گیا ، (سنن ترمذی:3346)‘‘۔
انسان کو جب اپنے روایتی ماحول سے مختلف ماحول میں جانا پڑے تو وہ اس کے لیے تیاری کرتا ہے ، وہاں کے گرم یا سردموسم کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے ، اس کے مطابق لباس تیار کرتا ہے ،وہاں کی اشیائے خوراک اور آدابِ زندگی سے آگہی حاصل کرتا ہے ۔میں نے امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں خلائی مرکز ناسا کو دیکھا ،وہاں چاند پر اور خلا میں جانے والے خلابازوں کے لیے تربیت گاہ ہے ،کیونکہ زمین کی کشش ثقل کے دائرے سے نکلنے کے بعد بے وزنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،کھلی فضا میں انسان چل پھر سکتا ہے ، جس کا اسے زمین پر رہتے ہوئے تجربہ نہیں ہوتا ،اسی طرح بقائے حیات کے لیے مصنوعی آکسیجن ،پانی اور حسبِ حال خوراک کا انتظام کرنا پڑتا ہے ۔ہماری نظر میں سید المرسلین ﷺ کے شقِ صدر کے واقعات اسی سے مشابہت رکھتے ہیں ، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے حکمتوں کو بیان کیا ہے اور ہم اپنی تشریحات کے ساتھ انہیں لکھ رہے ہیں :
''پہلی بار آپ کاشقِ صدر دل میں جمے ہوئے خون کو نکالنے کے لیے ہوا تاکہ شیطان کی کسی منفی تحریک وترغیب کا آپ کی ذات سے کوئی تعلق ہی نہ رہے ، دوسری بار اعلانِ نبوت سے پہلے نزولِ وحی کے وقت شقِ صدر اس لیے ہوا تاکہ آپ کے قلبِ انور میں وحیِ ربانی کو جذب کرنے کی روحانی استعداد اور ملکہ پیدا ہوجائے ۔قرآن کی جلالت کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر میں بیان فرمایا ہے۔ احادیث میں نزولِ وحی کی شدت کا بھی بیان ہوا ہے کہ کبھی شدید گرمی میں آپ پر کپکپی طاری ہوجاتی ، کبھی شدید سردی میں آپ کی جبینِ اطہر پر پسینے کے قطرے نمودار ہوجاتے ، آپ سواری پر ہوتے تو اونٹنی وحیِ ربانی کی ہیبت سے بیٹھ جاتی ۔تیسری بارشبِ معراج کو ہوا تاکہ آپ کے قلبِ انور کو حکمت کے موتیوں سے بھر دیا جائے اور اس میں ایسی روحانی قوت پیدا کردی جائے کہ آپ کائنات کے اسرار اور اس میں قدرت کی نشانیوں کو جاگتی آنکھوں سے دیکھ سکیں ، ان کی حکمتوں کو سمجھ سکیں اورتجلیاتِ باری تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوسکیں ۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: اسی موقع پر میرے دو شانوں کے درمیان مہرِ نبوت رکھ دی گئی ،ایک اور موقع پر فرمایا: یہ مہر مسہری کی گھنڈی کی مانند ہے اور اس پر بال ہیں۔ آج کل بائی پاس آپریشن یا اوپن ہارٹ سرجری کے وقت مریض کو بے ہوش کردیا جاتا ہے اور جب تک آپریشن مکمل نہیں ہوجاتا ،اس کے لیے تنفّس اور دورانِ خون کوجاری رکھنے کے لیے مصنوعی انتظام کیا جاتا ہے ،مریض بے ہوشی کے سبب آپریشن کے مراحل کو خود نہیں دیکھ پاتا ،لیکن رسول اللہ ﷺ ان تمام مراحل میں ہوش وحواس میں رہے ،آپ نے تمام احوال خود بیان فرمائے، علامہ سعیدی لکھتے ہیں: ''اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی حیات قلب کی محتاج نہیں ہے ،عام انسان کے جسم میں ایک معمولی کٹ بھی لگ جائے تو خون بہہ نکلتا ہے، لیکن شق صدر کے تمام مراحل میں آپ کے جسم سے نہ خون نکلا ،نہ آپ کو درد محسوس ہوا‘‘۔
بعض علماء نے کہا:پہلی بار شقِ صدر اس لیے ہوا کہ آپ کو عالمِ غیب کے بارے میں علم الیقین حاصل ہو ،دوسری بار اس لیے ہوا کہ آپ کو عین الیقین حاصل ہو اور تیسری بار شقِ صدر اس لیے ہوا تاکہ آپ کو حق الیقین حاصل ہو۔ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
''شفامیں ہے :جب جبریل علیہ السلام نے آپ کے دل کو دھویا تو کہا: یہ قلبِ سلیم ہے ،اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں ‘‘۔اہلِ ذوق کا اپنا اپنا زاویہ نظر ہوتا ہے ، علامہ سعیدی لکھتے ہیں: ''بعض اہلِ علم نے کہا: آپ کے قلبِ انور کو زمزم سے اس لیے دھویا گیا تاکہ اُسے زمزم کی برکت نصیب ہوجائے اور میں کہتا ہوں:قلبِ پاکِ مصطفی ﷺ کو زمزم میں اس لیے دھویا گیا تاکہ آبِ زمزم آپ کے قلبِ انور کے لَمس سے مشرّف ومتبرّک ہوجائے‘‘۔