مغربی فکشن میں بہت سے تجربات کیے گئے۔ ان میں سے ایک مختلف رائٹروں سے کسی ایک پلاٹ پر کہانی لکھوانا بھی شامل ہے۔ بعض مسٹری اور سسپنس ڈائجسٹوں کے ایڈیٹروں نے یہ دلچسپ تجربہ کیا کہ ایک کہانی ایک خاص انداز سے شروع کی‘ جب وہ ایک اہم موڑ پر پہنچی جہاں سے آگے بڑھانے کے کئی راستے ہو سکتے تھے تو اسے مکمل کرنے کی ذمہ داری تین چار مختلف لکھاریوں کو سونپ دی گئی۔ ہر ایک نے اپنے اپنے اسلوب‘ سوچ اور انداز سے اس کہانی کا اختتام کیا۔ ان میں سے کسی مصنف کی لکھی گئی کہانی کا انجام المیہ نکلا تو کہیں پر ہلکا پھلکا ’’ہیپی اینڈ‘‘ قارئین کو ملا۔ بعض جرائد میں کہانی کو کسی خاص موڑ پر پہنچا کر آگے بڑھانے سے پہلے قارئین کے نام پیغام لکھا جاتا جس میں ان سے کہا جاتا کہ اگر آپ المیہ انجام پڑھنا چاہتے ہیں تو فلاں صفحے پر چلے جائیں، اگر سنسنی خیز تھرل یا خوشگوار اختتام چاہیے تو فلاں صفحات پر چلے جائیں۔ میں نے ایک آدھ پرانے ڈائجسٹوں میں یہ بھی دیکھا کہ کسی کہانی کا اختتام موجود ہی نہ تھا، آخری منظر سے پہلے ایک سسپنس سے بھرپور لمحہ آتا جس میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہاں کہانی ختم کر کے قارئین سے درخواست کی جاتی کہ وہ اپنی مرضی کا انجام خود تحریر کر کے بھیجیں، اچھی تحریر پر انعام دینے کا وعدہ بھی کیا جاتا تھا۔ کابل میں گزرے چند روز میں بالکل اسی طرح کے تجزیے دیکھنے کو ملے۔ ہر جگہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف منظرنامہ ملتا۔ مختلف سٹیک ہولڈر صورتحال کو اپنے خاص زاویے سے دیکھتے اور مستقبل کی پیش گوئی کرتے رہے۔ ان کے تعصبات اور من پسند سوچ (Wishful Thinking) بھی یقیناً اس میں شامل ہوتی۔ ویسے افغانستان کی سیاسی صورتحال اس وقت ایک خاص حوالے سے سیال (Fluid) شکل میں ہے۔ اس کی حتمی شکل ابھی نہیں بنی۔ کئی ایسے فیصلہ کن موڑ ابھی آنے ہیں جو افغانستان کا منظرنامہ یکسر بدل سکتے ہیں۔ بہت سے اگر مگر (ifs and buts)موجود ہیں۔ ٭ جو دو تین باتیں بڑی حد تک واضح ہو چکی ہیں، ان میں سے ایک 2014ء میں افغانستان سے نیٹو کا انخلا ہے۔ نیٹو افواج کے غالب حصے کا افغانستان چھوڑ کر چلے جانا یقینی نظر آ رہا ہے۔ جگہ جگہ اس حوالے سے بات ہو رہی ہے، افغانوں کو یہ پریشانی ہے کہ غیرملکی افواج کے جانے کے بعد ملک میں کیا ہو گا؟ خطرات دو قسم کے ہیں۔ سب سے اہم اور سنگین مسئلہ افغان معیشت کا ہے۔ اس وقت نیٹو افغانستان کی اربوں ڈالر کی مدد کر رہا ہے، غیرملکی افواج کی وجہ سے بہت سے شعبوں میں ہزاروں افغان نوجوانوں کو ملازمتیں ملی ہوئی ہیں۔ وہ ہزاروں ڈالر تنخواہیں لے رہے ہیں جو انخلا کے بعد کئی گنا کم ہو جائیں گی۔ بے شمار این جی اوز بھی کابل اور دیگر اہم افغان شہروں میں موجود ہیں، ان میں سے بیشتر واپس جانا شروع ہو چکی ہیں، مکمل واپسی کی صورت میں ان این جی اوز سے وابستہ لوگ بھی بیروزگار ہو جائیں گے۔ 2010ء میں ہونے والی لزبن کانفرنس میں نیٹو نے افغان حکومت سے کہہ دیا تھا کہ اگلے چار برسوں میں وہ خود کو افغانستان چلانے کے لیے تیار کر لے کہ 2014ء کے اختتام تک ان کے فوجی واپس چلے جائیں گے۔ ہمارے وفد کو نیٹو کے سویلین ترجمان نے بریفنگ دی۔ اس میں اس نے واضح طور پر کہہ دیا کہ افغانستان کے معاملات اور مسائل حل کرنا اب افغان حکومت کا کام ہے، ہم ان کو سپورٹ کریں گے، تربیت اور مشاورت کا عمل جاری رہے گا مگر یہ کام اب افغانوں کو خود کرنا ہو گا۔ انخلا نیٹو کی اپنی مجبوری بھی بن چکا ہے کہ ان کے اپنے ممالک میں معاشی بدحالی اور سیاسی مخالفت کے باعث اب زیادہ عرصے کے لیے وہ اپنے فوجی افغانستان میں نہیں رکھ سکتے۔ اس وقت افغانستان میں معیشت کا مصنوعی بلبلہ ہے جو انخلا کے بعد پھٹ جائے گا، مگر یوں افغانستان کی حقیقی معیشت کا اندازہ ہو سکے گا۔ کابل میں پراپرٹی کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، مکانوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں، یہ سب کئی گنا کم ہونے کا امکان ہے، جو لوگ کابل میں بڑی سرمایہ کاری کر چکے ہیں، وہ خصوصاً خاصے پریشان ہیں۔ ٭ انخلا کے بعد اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ کیا افغان حکومت طالبان کی مسلح جدوجہد کا سامنا کر پائے گی؟ اس حوالے سے دو تین مفروضے موجود ہیں۔ ایک مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ کے واپس جانے سے طالبان کا مورال بلند ہو جائے گا اور وہ اپنی پوری قوت سے کابل پر چڑھ دوڑیں گے، یوں خدشہ ہے کہ چھیانوے کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ افغان حکومت اور اپوزیشن کے بڑے گروپ اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب طالبان کی واپسی ممکن نہیں۔ اب 96ء کی کہانی دہرائی نہیں جا سکتی کہ نائن الیون کے بعد کے بارہ تیرہ برسوں میں افغانستان خاصا بدل چکا ہے۔ نئی نسل یکسر مختلف انداز سے سوچتی ہے۔ وہ آگے جانے کے بجائے دوبارہ پتھروں کے دور میں جانا پسند نہیں کریں گے بلکہ اس پر مرنے کو ترجیح دیں گے۔ کرزئی حکومت، ہائی پیس کونسل، ٹرانزیشن کونسل، اپوزیشن کے دونوں اہم اتحادوں کے لیڈر ڈاکٹر عبداللہ، احمد ضیا مسعود اور رشید دوستم وغیرہ اس حوالے سے یکسو نظر آئے۔ ان کے مطابق طالبان صرف اسی صورت میں واپس آ سکتے ہیں کہ وہ خود کو سیاسی قوت کے روپ میں ڈھالیں اور افغانستان کے آئین کا احترام کرتے ہوئے الیکشن جیتیں۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اب طالبان کو روکنے کے لیے امریکیوں کی تربیت یافتہ ساڑھے تین لاکھ افغان فوج موجود ہے۔ امریکیوں نے پوری کوشش کی ہے کہ اس فوج کو اعلیٰ معیار کی تربیت اور ہتھیار دیے جائیں۔ اس فوج میں تاجک، ازبک، ہزارہ لوگوں کا خاصا بڑا حصہ ہے، اگرچہ پشتون بھی شامل ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ ان کا وہ حصہ نہیں جو فطری طور پر ہونا چاہیے۔ طالبان مخالف افغان لیڈروں کا خیال ہے کہ یہ فوج طالبان کو روک لے گی کہ اس کی اپنی بقا بھی مزاحمت میں مضمر ہے ۔ ٭ افغان فوج کے حوالے سے ایک خدشہ یہ بھی موجود ہے کہ اگرچہ ساڑھے تین لاکھ فوجی تربیت پا چکے ہیں لیکن ان میں وہ نظم و ضبط اور روایات موجود نہیں جو دوسرے ملکوں کی عرصے سے قائم باقاعدہ فوج میں پائی جاتی ہیں۔ یہ دلچسپ بات بھی پتہ چلی کہ اس فوج میں مختلف گروپ موجود ہیں۔ ایک کمانڈر کا کسی دوسرے شہر تبادلہ یا پوسٹنگ ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہزار دو، ہزار فوجی بھی ساتھ جاتے ہیں۔ یہ سُن کر ہندوستان کے قدیم پنج ہزاری، ہفت ہزاری کمانڈر یاد آئے، جن کے زیرِ قیادت دستے بادشاہ یا حکومت کے بجائے اپنے کمانڈر کے ساتھ زیادہ وفادار رہتے۔ اتنی بڑی فوج کے اخراجات کے حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں۔ اس فوج پر سالانہ تین چار ارب ڈالر اخراجات آئیں گے۔ یہ سوال کئی ماہرین نے اٹھایا کہ افغان معیشت مستقبل میں اتنا خرچہ کس طرح برداشت کر سکے گی؟ سردست نیٹو نے یہ وعدہ کیا ہے کہ انخلا کے بعد بھی اگلے تین چار برسوں کے لیے افغان فوج کا خرچہ وہ دیں گے، اس کے بعد کیا ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔ اس اہم ترین نکتے پر سب متفق نظر آئے کہ فوج کی مزاحمت اور طالبان کے خلاف ایک وسیع البنیاد مضبوط اتحاد کا قیام صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب اگلے سال اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا شفاف طریقے سے انعقاد ہو جائے۔ ایسا ہو پائے گا یا نہیں، اس پراگلی نشست میں بات کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved