تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     15-04-2018

انتخابات 2018ء اور خدشات

کچھ عرصہ پہلے تک آئندہ یعنی 2018ء کے انتخابات کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا‘ وہ کچھ ایسے تھے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کی موجودہ حکومت کی جگہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک عبوری حکومت اقتدار سنبھالے گی‘ اور انتخابات کو ایک لمبے عرصے تک ملتوی کر دیا جائے گا‘ لیکن اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے کیونکہ قائدِ حزب اختلاف نے قائم مقام وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے لئے نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں سے بھی صلاح مشورہ شروع کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی نئی حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں میں نئے ووٹرز کے نام شامل کرنے کی حتمی تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اب الیکشن کمیشن سے مشاورت اور وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت کی طرف سے نئے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان باقی ہے۔ مگر اس کے باوجود خدشات ختم نہیں ہوئے۔ اب انہیں پری پول رگنگ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس کا اظہار کرنے میں سب سے پیش پیش سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف ہیں‘ جنہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے‘ جبکہ باقی پارٹیوں کو کھلی چھٹی دی جا رہی ہے۔ اپنے اس الزام کی تائید میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے بعض سرکردہ رہنمائوں کے خلاف نیب کی کارروائی کا حوالہ دیا‘ اور دعویٰ کیا ہے کہ نیب کی طرف سے کارروائی ارکان اسمبلی کو اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں وسطی اور جنوبی پنجاب سے پاکستان مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر 2013ء کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہونے والے متعدد ارکان نے اپنی پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ ان ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ نون کو چھوڑنے کا اعلان ایک ایسے وقت پر کیا ہے‘ جب نئے انتخابات کو چند ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ارکان کی طرف سے علیحدگی کی جن وجوہات یا شکایتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ انہیں ان ارکان نے اپنی گزشتہ پونے پانچ برس کی رفاقت کے دوران مسلم لیگ ن کی قیادت کے سامنے کبھی نہیں رکھا۔ مثلاً بہاول پور اور جنوبی پنجاب میں سرائیکی زبان بولنے والے دیگر اضلاع پر مشتمل ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ تو پاکستان مسلم لیگ ن پہلے ہی تسلیم کر چکی تھی‘ اور اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی نے ایک قرارداد بھی منظور کی تھی۔ اگر یہ ارکان اسمبلی جنوبی پنجاب کے نام سے علیحدہ صوبے کے قیام کو اتنا ضروری سمجھتے تھے تو انہیں اپنی پارٹی کے ساتھ گزرے ہوئے پونے پانچ برسوں کے دوران میں اس پر زور دینا چاہئے تھا۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ اسمبلیوں کی مدت تقریباً پوری ہونے تک انہیں ''جنوبی پنجاب صوبے‘‘ کا خیال نہیں آیا‘ لیکن اب انہوں نے نہ صرف اپنی پارٹی کو خیرباد کہا ہے بلکہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے تحریک چلانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے آئین کے آرٹیکل باسٹھ ایف ون (62 F1) کے تحت اپنی نااہلی اور اس کے بعد مسلم لیگ ن کی صدارت سے ہٹائے جانے کے اقدامات کو بھی پری پول رگنگ قرار دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات دراصل مائنس ون فارمولے پر عمل درآمد کا حصہ ہیں اور اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کو پارٹی سے الگ کر کے اسے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے سے روکا جائے۔ اسی طرح پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کی کارکردگی کو ناقص قرار دینے کو بھی پری پول رگنگ کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس قسم کے اقدامات جاری رہے اور ان کی وجہ سے انتخابی عمل کی شفافیت متاثر ہوئی تو وہ انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔ 
آئندہ انتخابات کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے بارے میں خدشات سابق وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کی طرف سے ہی بیان نہیں کئے جا رہے بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن سے ہٹ کر دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آئندہ الیکشن سے مخصوص نتائج حاصل کرنے کے لئے پولیٹیکل انجینئرنگ کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ سینیٹ میں 10 اپریل کو یومِ دستور کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی اور چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے بھی اپنی تقاریر میں اسی قسم کے الزامات عائد کئے تھے۔ ان کے بیانات کے مطابق کوشش کی جا رہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی بھی پارٹی قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں حاصل نہ کر سکے کہ وہ اکیلے ہی مرکز میں اپنی حکومت بنانے کے قابل ہو جائے۔ جیسا کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی کہ مرکز میں حکومت کی تشکیل میں وہ کسی اور پارٹی کی محتاج نہیں تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ پوزیشن اس لئے حاصل ہوئی کہ اسے پنجاب میں بھاری کامیابی ملی تھی۔ اس دفعہ کوشش یہ کی جا رہی ہے پنجاب میں عوام کا مینڈیٹ کسی ایک پارٹی کے حق میں جانے کی بجائے دو تین پارٹیوں میں منقسم ہو جائے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کے علاوہ جن پارٹیوں کا نام لیا جا رہا ہے‘ وہ تحریکِ انصاف اور پاکستان لبیک تحریک ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سال پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان لبیک تحریک کے امیدواروں نے بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ ن کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ پنجاب میں کوئی پارٹی بھاری اکثریت حاصل نہ کر سکے‘ بلکہ ووٹ ان تینوں پارٹیوں میں تقسیم ہو جائیں پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی پر دبائو ڈالا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی پارٹی کی راہ سے اپنی راہیں جدا کر لیں اور پاکستان مسلم لیگ ن‘ جسے ایک زمانے میں پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی سمجھا جاتا تھا‘ صوبے سے قومی اسمبلی کی ایک تہائی سے زیادہ نشستیں حاصل نہ کر سکے۔ مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر دوسری پارٹیوں خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے ارکان اسمبلی کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اس سلسلے میں بطور ثبوت پیش کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے علاوہ سندھ میں بھی اسی مقصد کے لئے توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے‘ اور اس عمل میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ٹارگٹ ہے‘ کیونکہ بعض حلقوں کو ڈر تھا کہ اگر متحدہ فاروق ستار کی قیادت میں متحد رہتی تو قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے لئے امیدوار کے چنائو میں اس کا ووٹ پاکستان مسلم لیگ ن کے حق میں جائے گا‘ اس لئے آئندہ انتخابات کے بعد مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے قیام کو روکنے کے لئے ایک طرف پنجاب میں موقع پرست ارکان اسمبلی کو ن لیگ سے علیحدگی کے اشارے مل رہے ہیں اور دوسری طرف سندھ میں مہاجر ووٹ‘ جو پہلے ہی ایم کیو ایم اور پی ایس پی کی شکل میں دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا‘ اب متحدہ کو بہادر آباد اور فاروق ستار گروپوں میں مزید تقسیم کر کے نہ صرف سندھ میں نان پی پی پی حکومت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ بلکہ مرکز میں عمران خان کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت کے قیام کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved