ان لوگوں پہ خدارحم کرے‘ معاشرے کو انہوں نے تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس بے لگام مخلوق سے نجات پائے بغیر‘ اس کی اخلاقی اور سماجی تعمیر ممکن نہیں۔
ہفتے کی دوپہر سے‘ سپریم کورٹ میں خواجہ سعد رفیق کی پیشی کے فوراً بعد سے گالم گلوچ کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج‘ جس کا ہدف تھے۔ سوشل میڈیا پہ بدتمیزی اور طعنہ زنی اب ایک عام روش ہے۔ ایک آدھ نہیں کئی پارٹیاں اس میں ملوث ہیں۔ ایک جماعت نے تو کئی سو تنخواہ دار بھرتی کر رکھے ہیں۔ کسی تنقیدی تبصرے کے نمودار ہوتے ہی‘ یہ لوگ پل پڑتے ہیں۔ پرسوں شام سے عدالتوں کے خلاف اٹھایا گیا طوفانِ بدتمیزی‘ اس کے باوجود چونکا دینے والا تھا؛تاآنکہ جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پہ حملے کی خبر آ گئی۔
کیا مغلوب الغضب خواجہ سعد رفیق یا منتقم مزاج شریف خاندان اس حملے میں ملوث ہیں۔ کسی قابل اعتماد ادارے کے دیانتدار افسروں کی تفتیش ہی سے طے ہو سکتا ہے کہ معزز جج کے گھر پہ گولیاں برسانے کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ ادارہ مگر کون سا ہے اور ان افسروں کا انتخاب کیسے ہوگا۔ یہ اولین سوال ہے اور اس سوال کے جواب پر کئی چیزوں کا انحصار ہو گا۔ تفتیش اگر تیزی سے ہوئی۔ مجرموں کا سراغ لگانے کی واقعی کوشش ہوئی تو جلد ہی نتیجہ سامنے آ جائے گا‘ ورنہ شریف خاندان اور حکمران پارٹی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔
ممکن ہے وہ قصوروار نہ ہوں۔ خواجہ سعد رفیق اور شریف خاندان کے بارے میں شکوک و شبہات مگر فطری ہیں۔ 1997ء کا وہ دن قومی یادداشت سے کبھی محو نہیں ہو سکتا‘ جب نون لیگ کے ''جاں بازوں‘‘ نے سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کیا تھا اور ججوں کو بھاگ کر جان بچانی پڑی تھی۔ لاہور سے قافلے سرکاری اہتمام سے بھیجے گئے اور اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں غنڈوں کی تواضع کا اہتمام تھا۔یہی وہ دن تھے جب سینیٹر مشاہد حسین نے کہا تھا کہ عدلیہ اور پریس کے خلاف جنگ آزمائی میں ہرگز کوئی دانش مندی نہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ چند ماہ بعد ہی پولیس کے دستوں نے ایک بڑے میڈیا گروپ کے دفاتر کو گھیرے میں لے لیا۔ اخبار کی اشاعت تقریباً ناممکن بنا دی گئی۔ حیرت انگیز طورپر نون لیگ کے اندر سے فسطائیت کے خلاف ایک بھی آواز نہ اٹھی۔ سید مشاہد حسین ضرور منمناتے رہے مگر منمناتے ہی رہے۔ اس زمانے میں اپنی نیک نامی کی کچھ فکر انہیں ہوا کرتی تھی یا شاید آنے والے طوفان کاکچھ اندازہ بھی تھا۔
اخبار کا قضیہ تو بعد کی بات ہے‘ سپریم کورٹ پر یلغار کے زخم آج بھی ہرے ہیں۔ شریف خاندان نے ایک حملے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ آخرکار ججوں کو تقسیم کرنے اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں صدر رفیق تارڑ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس زمانے کی روداد بیان کرنے والے کئی ذمہ دار لیڈروں نے بعدازاں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی ذہنی کیفیت کا ذکر کیا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے فرزند‘ قومی اسمبلی کے سپیکر الطاف گوہر کے مطابق‘ وزیراعظم ان سے مشورے کے طالب تھے کہ کس طرح چیف جسٹس کو‘ کم از کم ایک رات کے لیے حوالات میں بند کیا جا سکتا ہے۔
شریف خاندان اور ان کے حواری اس زمانے میں بھی حیران تھے کہ جج حضرات ان کی من مانی میں رکاوٹ کیسے ہوگئے۔ سوشل میڈیا کا اگرچہ وجود نہ تھا اور اس محاذ پر بھاڑے کے ٹٹوئوں کی کوئی فوج سرگرم نہ تھی مگر سجاد علی شاہ کے خلاف بھی ویسی ہی زبان برتی گئی‘ آج کی اعلیٰ عدلیہ جس کی سزاوار ہے۔ جمہوریت کا گیت شریف خاندان بہت گاتا ہے مگر عملی طور پر ان کا طرزِ حکمرانی مختلف ہے۔ انہیں جسٹس قیوم‘جسٹس رفیق تارڑ اور جسٹس خواجہ شریف ایسے لوگ ہی سازگار ہیں جو کاروبار حکومت میں ان کے مددگار ہوں۔ جسٹس رفیق تارڑ گھریلو محفلوں میں ابا جی کو سکھوں اور قادیانیوں کے لطیفے سنایا کرتے اور یہ سب کے سب پارلیمانی زبان میں نہ ہوتے تھے۔ جسٹس خواجہ شریف ابھی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے کہ ان کی خودنوشت شائع ہوئی۔ نہایت فراخ دلی کے ساتھ جج صاحب نے میاں محمد نوازشریف اور جناب شہبازشریف کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ ان تحائف کا ذکر کیا تھا جو ان کے خاندان پہ نچھاور کیے جاتے رہے۔ جسٹس ملک عبدالقیوم کی کہانی سے اخبار کا ہر قاری آشنا ہے کہ کس طرح میاں محمد نوازشریف کے ایک پیغام پر‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کا انہوں نے فیصلہ کیا۔ کسی طرح یہ گفتگو ٹیپ کر لی گئی تھی۔ بعد میں لاکھوں لوگوں نے یہ سنی۔ شریف خاندان کی طرف سے کبھی اس کی تردید نہ کی گئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کبھی اس پرجسٹس قیوم نے شرمندگی کا اظہار کیا اور نہ شریف خاندان نے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ جب کبھی شریف خاندان کو اقتدار حاصل ہوا‘ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کے جج مقرر کرانے کے لیے‘ ایڑی چوٹی کا زور انہوں نے لگا دیا‘آخر کیوں؟۔
اسی لیے یہ باور کیا جاتا کہ اعلیٰ عدالتیں ان کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ صادر نہیں کر سکتیں۔ پانچ سال تک میاں محمد شہبازشریف ایک حکم امتناعی کے بل پر پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے چمٹے رہے۔ حافظہ اگر دھوکہ نہیں دے رہا تو اتفاق فائونڈری کے لیے اربوں روپے کے قرضے میں بھی طویل عرصے تک ایسا ہی ایک حکم کارفرما رہا؛ تاآنکہ شریف خاندان کو خود فیصلے کی ضرورت آ پڑی ہے۔ فیکٹری کے وسیع و عریض رقبے کی قیمت بہت بڑھ گئی تھی۔ اب انہوں نے اسے کمرشل اور رہائشی سکیم میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔
بعدازاں 1997 ء میں سپریم کورٹ پر حملے کرنے والے کچھ لوگوں کو سزائیں سنائی گئیں مگر یہ کرایے کے کارندے تھے‘ منصوبہ ساز نہیں۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ فیصلہ خود شریف برادران نے کیا تھا۔ اس طرح کے مہمات کا ذوق اور تجربہ رکھنے والے قابلِ اعتماد ساتھیوں کو ذمہ داری سونپی گئی۔ خواجہ سعد رفیق ان میں سے ایک تھے۔ ٹی وی کے مشہور اینکر طارق عزیز نے بھی اس لشکر کشی میں بدنامی سمیٹی اور اس قدر کہ بالآخر سیاست ہی کو خیرباد کہہ دیا۔
اس ہولناک واقعہ کے حوالے سے خواجہ سعد رفیق کا تذکرہ شاذ ہی ہوا ہے حالانکہ وہ جی داروں کے ایک دستے کی قیادت فرما رہے تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے اس طرح کا رجحان وہ رکھتے تھے۔ ایم اے او کالج کے طالب علم لیڈر کی حیثیت سے ان کے کارنامے مشہور اور معلوم ہیں۔ ایک اخباری تحریر سے زیادہ جو کسی ڈرامے یا فلم کا موضوع ہو سکتے ہیں۔ خواجہ صاحب کا اصل کمال وہ ہے جسے اردو کے مرحوم شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز نے یوں بیان کیا تھا:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
انہوں نے کاروبار کیا۔ کروڑوں اور اربوں کا کاروبار لیکن کسی کاغذ پہ ان کا کہیں نام نہیں۔ جو چند کروڑ روپے انہوں نے ظاہر کیے وہ ایک سے زیادہ پرائز بانڈز کا ثمر ہیں۔ اب اس پہ قانون ان کا کچھ بگاڑنہیں سکتا ۔ خدا کرے بدگمانی کرنے والوں کا اندازہ یکسر غلط ہو‘ جسٹس اعجازالاحسن والے واقعے میں اگر وہ ملوث ہیں تو سراغ لگانا سہل نہ ہوگا۔
ممکن ہے کہ آخرکار شریف خاندان یا ان کا کوئی مہرہ ذمہ دار ثابت نہ ہو مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عدلیہ کے ساتھ ایسی ہولناک کشیدگی پیدا کرنے کے وہ واحد ذمہ دار ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کسی سیاسی پارٹی یا حکمران ٹولے نے عدلیہ کی ایسی توہین کی ہو‘ شریف خاندان جس کا مرتکب ہے۔
ان لوگوں پہ خدارحم کرے‘ معاشرے کو انہوں نے تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس بے لگام مخلوق سے نجات پائے بغیر‘ اس کی اخلاقی اور سماجی تعمیر ممکن نہیں۔