جنرل مشرف کی وطن واپسی کا پتھر بھاری ہے یا ہلکا ‘یہ کسی معاہدہ کا نتیجہ ہے یا نہیں‘ اس کی گواہی دینے کو ماہ رواں کا آخری ہفتہ بے تاب ہے لیکن اگر قیاس آرائیوں اور با خبر ذرائع کی داستانیں سامنے رکھیں تو ان سے جنرل مشرف اور میاں نواز شریف کی بیک وقت ریاض میں موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے اور چوبیس مارچ کو دوبئی سے کراچی کی طرف چلنے والی ’’سمجھوتہ ایکسپریس‘‘ کے مختلف زاویے بھی اسی طرح کے اشارے دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں مشرف مخالف قوتیں ان کی واپسی کے بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیتی ہیں یا ہلکا سمجھ کر پائوں کی ٹھوکروں پر رکھ لیتی ہیں۔ دنیا بھر کے سیا سی اور سفارتی حلقے صدر آصف زرداری کے اچانک اور حیران کن فیصلوں سے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں گوادر بحوالہ چین اور ایران سے پاکستان تک بچھائی جانے والی گیس پائپ لائن جیسے دو اہم فیصلے کر تے ہوئے مستقبل میں اپنے لیے کچھ محفوظ ٹھکانوںکی ضمانت مانگی ہے یا اپنی سیا ست کی۔یہ سب تبصرے اور خیال آرائیاں ایک طرف مگر صدر زرداری کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اپنے گھر کے اردگرد بھڑکنے والی آگ اور شور و غل سے گھبراکر وہ نہ تو چیخنا چلاّنا شروع ہوجاتے ہیں اور نہ ہی چھلانگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں‘ بلکہ پُر سکون رہتے ہوئے اپنی جیب میں چھپایا ہوا ترپ کا اپنا آخری پتہ عین وقت پر پھینک کر بساط اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایران سے گیس کا معاہدہ اور گوادر کی چین کو حوالگی اس کا بہترین ثبوت ہیں۔ ان دو معاہدوں کے اثرات کیا ہوں گے؟ اس کا فیصلہ تو چند ہفتوں میں سامنے آ جائے گا لیکن میرا تجزیہ ہے کہ صدر زرداری نے اپنا آپ عسکری حکّام کے حوالے کر دیا ہے۔ جس طرح راجہ پرویز اشرف نام کے وزیر اعظم تھے ،اسی طرح زرداری بھی اب نام کے صدر ہیں اور ایسا زبردستی نہیں بلکہ بقائمی ہوش و حواس اور باہمی اتفاق سے ہوا ہے۔ نگران حکومت قائم ہونے سے چند دن قبل ہونے والا گوادر معاہدہ سب سے زیا دہ اطمینان بخش ہے ۔دوسرے لفظوں میں آپ اسے’’ پاک چین خاموش دفاعی معاہدہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے صدر زرداری نے یہ معاملہ آئندہ حکومت پر چھوڑنے کی بجائے فوج کے کہنے پر اپنی حکومت سے کروا کر فوج کو ایک تحفہ دیا ہے۔صدر زرداری جانتے تھے کہ گوادر اور ایران کے ساتھ معاہدے کی اس گستاخی سے امریکہ اور اس کے قریبی دوست ممالک ان سے نفرت کرنے لگیں گے اور عام انتخابات میں اپنے ’’سیا سی مہرے‘‘ کو کامیاب کرانے کی بھر پور کوشش کریں گے تاکہ بعد میں بھارت کی طرح پاکستان بھی گیس پائپ لائن کے اس معاہدے سے احتراز شروع کر دے۔ پاکستان کے ان دو بین الاقوامی معاہدوں پر مختلف ممالک کا رد عمل کیا ہوگا‘ اس کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے امریکہ کا نام سامنے آتا ہے کیونکہ امریکی قیادت کئی بار پاکستان کو یہ معاہدہ نہ کرنے کی تنبیہ کر چکی ہے‘ اس لیے امریکہ ان معاہدوں کو یا تو ختم کرائے گا یا ان پر عمل در آمد رکوانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور اس کے لیے وہ دوستوں کے تعاون سے پاکستان میں اپنی پسند کی سیا سی حکومت قائم کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔ یہ بھی سامنے رکھنا ہو گا کہ گوادر اور گیس کے ان معاہدوں کے بعد سے آنے والے اٹھارہ ماہ پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہوں گے کیونکہ ان کے اختتام تک جولائی 2014ء میںافغانستان سے امریکی افواج کی بھر پور روانگی کے بعد وائٹ ہائوس کس طرح برداشت کرے گا کہ ان کا سب سے بڑا حریف چین اس خطے میں گوادر کی شکل میں دنیا کی طرف بہنے والی معاشی شہ رگ پر براجمان ہو جائے۔ عرب سپرنگ کے بعد ان علا قوں کے نوجوانوں میں بڑھتا ہوا ایرانی اثر و رسوخ عرب ممالک کے لیے پہلے ہی باعثِ اطمینان نہیں تھا جبکہ اب ان کا یہ احساس اور بھی بڑھنا شروع ہو گیا ہے کہ ایران سے گیس پائپ لائن سمجھوتے کے بعد ایران کے نیوکلیئر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہوگا ،چنانچہ ان کی کوشش ہوگی کہ اسے پاکستان کے قریب ہونے سے روکا جائے اور یہی وجہ ہے کہ ایک سیا سی جماعت کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان کے انتخابات میں بھر پور’’مداخلت‘‘ شروع ہوگئی ہے۔ چین نے ستر کی دہائی سے ہی خود کو معاشی طور پر مضبوط اور نا قابلِ تسخیر بنانے کے لیے اپنی سرحدوں کے ارد گر د ہر طرح کے بڑے فوجی آپریشنز سے الگ رکھا ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب ہانگ کانگ کی حوالگی کا معاملہ آیا تو اس نے فوجی مداخلت کی بجائے مزید د س سال انتظار کو ترجیح دی ۔چین جانتا ہے کہ اس کی مستقبل کی معاشی ترقی میں سب سے اہم کردار گوادر کا بھی ہو گا اور اگر اسے اپنی معاشی مضبوطی کے لیے گوادر کا حقیقی کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہو گی۔تصور کیجیے کہ مستقبل کے تیل کے سب سے بڑے ذرائع پر جب چین کاکنٹرول ہو گا تو ایشیا، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں ہونے والے اہم ترین سیا سی فیصلے اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکیں گے اور اس وقت خطے کے جغرافیائی نقشے میں موجود ایران امریکہ کی بجائے چین کے سب سے قابل اعتماد دوست کی حیثیت سے اس کا اتحادی ہو گا۔ چین یہ بھی جانتا ہے کہ مستقبل کی عالمی سیا ست میں ایران کی بجائے بہت سے عرب ممالک امریکہ اور برطانیہ کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو کر اس کے ساتھ چلنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔ ایران کی خواہش ہے کہ وہ اسلامی دنیا اور عالمی سیا ست میں اہم کردار ادا کرے اور پاکستان کے ساتھ گیس پائپ لائن سمجھوتے پر دستخط کرتے ہوئے اس نے مستقبل کیلئے اپنی اہمیت واضح کر دی ہے۔ ایران کو یہ بھی یقین ہے کہ امریکہ کی طرف سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور جدید ترین فوجی اسلحہ کی رشوت کے باعث پائپ لائن سمجھوتے سے خود کو علیحدہ کرنے والا بھارت ایک دن خود ہی توانائی کے بحران سے مجبور ہو کر ایران کی طرف دیکھے گا۔ایران کو دس سال پہلے تک گوادر کی تعمیر پر اعتراض تو تھا لیکن اس کی تکمیل کے بعد یہ بات اس کے لیے سب سے زیا دہ باعثِ اطمینان ہے کہ اس کے قریب گوادر بندرگاہ پر چین موجو د رہے گا کیونکہ اس طرح ایران پر بہت سے ممکنہ عالمی حملے کرنے والے حرکت میں آنے سے پہلے بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ گوادر چین کے حوالے کرنے سے امریکہ کے بعد سب سے زیا دہ پریشانی کا شکار ہونے والا ملک بھارت ہے جو سمجھ رہا ہے کہ گوادر میں دنیا کی اہم ترین سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی موجودگی پاکستان کے لیے باعث تقویت تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی پاکستان نے بھارت کے گرد گھیرا بڑھانے کی چین کی قدیم خواہش کو عملی جامہ پہنا دیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved