اتوار کی صبح سپریم کورٹ کے جسٹس جناب اعجاز الحسن کے گھر پر فائرنگ کی خبر سامنے آئی۔ بارہ گھنٹے میں فائرنگ کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔ ایک گولی شب پونے گیارہ بجے اور دوسری صبح پونے دس بجے چلائی گئی۔ فائرنگ کا یہ واقعہ لاہور کی اہم ترین بستی میں ہوا تھا، ہدف بھی سپریم کورٹ کے جسٹس کا گھر تھا۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا تو اتنا مستعد اور فعال ہے کہ کسی عام گھر پر بھی فائرنگ ہو تو ''بریکنگ نیوز‘‘ بن جاتی ہے۔ لیکن اتنے سنگین واقعہ کی خبر گیارہ گھنٹے بعد آئی اور وہ بھی اسی نوعیت کے دوسرے واقعہ کے ساتھ۔ کسی جرم کی پولیس کورپورٹ میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ تو کیا رات پونے گیارہ بجے کے اس سنگین واقعہ کی پولیس رپورٹ بھی صبح کے واقعہ کے ساتھ ہی کی گئی‘ ورنہ پہلے واقعہ کے بعد یقینا یہاں سکیورٹی کے انتظامات اور بہتر کر دیئے جاتے جو پہلے بھی کم نہ تھے ۔
اللہ بھلا کرے جناب ایاز امیر کا کہ جوش وخروش پر مبنی اس بحث میں بھی ایک بہت اہم بات کہہ گئے، ''ایسے واقعات میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ Benificiary کون ہے ‘‘؟ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اس افسوسناک واقعہ کا کوئی فائدہ مسلم لیگ ن اور اس کی حکومت کو نہیں ہوا بلکہ اس پر تو الٹا دبائو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس واقعہ کے بعد اس کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
سیاسی مخالفین کو تو ایسا موقع خدا دے۔ میڈیا کے ایک حصے نے بھی مسلم لیگ ن اور اس کی حکومت کو ذمہ دار قرار دے دیا۔ لیکن یوں بھی تو ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا فریق ایسے واقعہ کے پیچھے ہو۔ ایک بات جناب آرمی چیف نے ان ہی دنوں دوبار کہی، پاکستان کیخلاف اندر اور باہر سے حملے کی بات، ''دشمنوں نے ہائبرڈ جنگ مسلط کر دی، وہ ہمیں اندر سے کمزور کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ سیاستدانوں کو اپنا کھیل کھیلنا ہے، انہیں ایسے مواقع خدا دے لیکن کم از کم ہم تو ‘جنہیں اہل دانش ہونے کا دعویٰ ہے‘ اعتدال، توازن اور انصاف کا دامن تھامے رکھیں اور اس جے آئی ٹی رپورٹ کا انتظار کر لیں جس میں حساس اداروں کے تین ارکان بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں فروری 2008 کے عام انتخابات سے شروع ہونے والا جمہوریت کا دوسرا PHASE دس سال مکمل کر چکا۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے آمرانہ دور کے دس سال مکمل ہونے پر حکومت نے ''عشرۂ ترقی‘‘ منانے کا اعلان کیا تھا۔ کاش! پاکستان میں جمہوریت پسند، عشرۂ جمہوریت منانے کا اہتمام بھی کرتے۔ کہتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ جمہوری ادارے مستحکم ہوتے اور جمہوری اقدار و روایات فروغ پاتی ہیں۔ عام انتخابات جمہوریت کا بنیادی عنصر ہیں۔ پاکستان کا آئین، منتخب قومی (اور صوبائی) اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت کی تکمیل پر عام انتخابات کو لازم قرار دیتا ہے۔چنانچہ یہاں جولائی کے اختتام تک عام انتخابات کا انعقاد لازم ہے لیکن جمہوریت کے دورِ نو کا عشرہ مکمل ہو جانے کے بعد بھی، کتنے لوگ ہیں جنہیں یقین ہے کہ عام انتخابات آئینی تقاضوں کے مطابق جولائی میں ہو جائیں گے اور یہ بھی کہ یہ ''بروقت‘‘ ہونے کے ساتھ ''شفاف‘‘ بھی ہوں گے؟
اس میں شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے ہاں انتخابی نظام میں بہت بہتری آئی، اب یہاں کمپیوٹرائزڈ ووٹرز لسٹیں ہیں (جس کے بعد جعلی ووٹرز کے اندراج کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے ) الیکشن کمیشن کا تقرر سرکاری دبائو سے آزاد ہو گیا ہے۔ اس کے مالی اور انتظامی اختیارات میں بھی اضافہ ہوا ۔ انتخابات کیلئے وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں وجود میں آتی ہیں (دنیا میں اب پاکستان واحد ملک ہے جہاں عام انتخابات نگران حکومتیں کرواتی ہیں، اُدھر بنگلہ دیش میں بھی یہ معاملہ ختم ہوا۔) انتخابات کی غیر سرکاری مانیٹرنگ کیلئے مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز بھی موجود ہوتی ہیں اور حساس پولنگ سٹیشنوں پر نظر رکھنے کیلئے الیکٹرانک میڈیا کی ہوشیار اور بیدار آنکھ بھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آرمی چیف اور جناب چیف جسٹس بھی انتخابات کے آزادانہ و منصفانہ انعقاد کی ضمانت دے رہے ہیں (اگرچہ آئینی طور پر یہ ان کی ذمہ داری نہیں، تاوقتیکہ ان سے اس کے لئے باضابطہ درخواست نہ کی جائے۔)اس کے باوجود ''دل ہے کہ مانتا نہیں‘‘۔
الطاف حسن قریشی صاحب کے انسٹیٹیوٹ آف نیشنل افیئرز ( پائنا) نے 2018 کے عام انتخابات کے ''بروقت‘‘ اور ''شفاف‘‘ انعقاد کے مسئلے پر سیمینار کا اہتمام کیا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ اسلام آباد سے خاص اس سیمینار کیلئے تشریف لائے تھے۔ سابق گورنر پنجاب شاہد حامد، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر ذاکر ذکریا اور جناب مجیب الرحمن شامی سمیت شہر کے چنیدہ اصحاب فکر و دانش بھی موجود تھے۔ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی اے این پی کے احسان وائیں اور پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری نے کی۔ نظامت حسب معمول سجاد میر کے سپرد تھی۔ بیرسٹر ظفر اللہ کی گفتگو کے دوران میجر (ر) ایرج ذکریا کے سوال کو میر صاحب نے مداخلت بے جا سمجھا (کہ سوال، جواب کا مرحلہ بعد میں آنا تھا) جس پر ماحول میں قدرے تلخی ابھر آئی۔ اتنی سی تلخی جمہوری ماحول کا حسن بھی ہوتی ہے، چنانچہ ادھر سیمینار ختم ہوا، ادھر ہمارے میر صاحب اور عسکری دانشور شیر و شکر نظر آئے۔ اس روز صبح سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں عزت مآب چیف جسٹس اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا مکالمہ یہاں بھی ''دلچسپی کا موضوع‘‘ تھا۔ اسی روز جناب ایاز امیر نے اپنے کالم میں لکھا تھا ''سوموٹو نوٹسز نے پنجاب حکومت کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔‘‘
بیرسٹر ظفر اللہ اپنی گفتگو میں بروقت اور برمحل اشعار کا تڑکا بھی لگاتے رہتے ہیں، نیب ان دنوں جس طرح (ان کے بقول) ایک خاندان کیخلاف سرگرم ہے، اس پر فیض کے اس شعر کا اپنا لطف تھا۔
دلداریٔ واعظ کو ہمی باقی ہیں ورنہ
اس شہر میں ہر رِند خرابات ولی ہے
ایک اور موقع پر فارسی کے مقولے کا حوالہ دیا‘ (ترجمہ) پتھروں کو باندھ دیا گیا اور ... کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے (بیرسٹر صاحب کی اخلاقیات نے یہاں اس مخلوق کا نام لینا مناسب نہ سمجھا۔ یہ بات انہوں نے سیمینار کے حاضرین پر چھوڑ دی تھی، ہم بھی اسے اپنے قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔) ہمارے لئے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے قانونی امور بھی انتخابات کے ''بروقت‘‘ اور ''شفاف‘‘ انعقاد کے حوالے سے سو فیصد پُریقین نہ تھے۔ اے این پی والے احسان وائیں کو یوں لگ رہا تھا جیسے نواز شریف والی مسلم لیگ کو Level Playing Field نہیں مل رہا۔پی ٹی آئی والے اعجاز چودھری کے خیال میں صادق اور امین ہونے کی ضرورت صرف منتخب نمائندوں کیلئے ہے کہ نظام حکومت و مملکت کی اصل ذمہ داری انہی کی ہے، باقی اداروں کے کار پرداز ان کیلئے صادق اور امین ہونا اس لیے لازم نہیں کہ ان کی حیثیت تو Subordinate کی ہوتی ہے۔
وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر ذاکر ذکریا کا ایک فقرہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف تھا، ''ان دنوں اداروں کی Visibility تو بڑھی ہے لیکن Credibility کم ہوئی ہے‘‘۔