تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-04-2018

جناب ستیہ پال آنند کے فرمودات اور شاعری

یادش بخیر‘ ہمارے ناراض دوست جناب ستیہ پال آنند کی فیس بک وال سے ایک کاپی کسی دوست نے ارسال کی ہے جس میں انہوں نے بطور خاص مجھے یاد کیا ہے جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے مجھے انگریزی اور اس کے وسیلے سے یورپ کی دیگر زبانوں کے ادب سے ناشنا قرار دیا ہے حالانکہ میں نے اپنی کم علمی اور جہالت کی کبھی پردہ پوشی نہیں کی اور نہ ہی ان کے علم و فضل سے انکار کیا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ میں اس مقولے میں قطعیت سے یقین رکھتا ہوں ع مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ جو کہ سراسر افترا پردازی ہے اور انہیں مجھ سے اس کی معافی مانگنی چاہیے‘ بلکہ میں کئی بار یہ بات ضبط تحریر میں لا چکا ہوں میں اپنے آپ کو کوئی سند یا اتھارٹی نہیں سمجھتا۔ 
ان کا اعتراض یہ بھی ہے کہ میں نثری نظم کے مصرعوں کو سطریں کیوں کہتا ہوں اور مصرع کیوں نہیں میں نے ایک بار صرف یہ لکھا تھا کہ نثری نظم اگر نثر ہے تو اس کے مصرعوں کو سطر بھی کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ بھی کہ نثری عبارت کے ٹکڑے توڑ توڑ کر لکھنے کی بجائے نثری نظم کو پیراگراف کی شکل میں کیوں نہیں لکھا جاتا جس کی افتخار جالب سمیت کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ نیز میں نے نثری نظم کا ہمیشہ اعتراف کیا ہے اور متعدد نثری نظمیہ مجموعوں کے دیباچے بھی لکھ چکا ہوں اور اسے مستقبل کی شاعری قرار دے چکا ہوں۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہ نثری نظم میں شاعری بھی ہونی چاہیے ورنہ وہ محض نثر کا ٹکڑا ہو گی اور یہ کہ نثری نظم کو ایک بہترین نثر نگار بھی ہونا چاہیے کیونکہ نثری نظم کا زور دار ہونا بھی ضروری ہے۔
آپ نے فارسی عروض پر بھی زبان طعن دراز کی ہے اور کہا ہے کہ مقامی چھند اور پنگل کو کیوں اختیار نہیں کیا گیا۔ اس کا جواب آپ سے اس سوال میں بھی ہے کہ آپ نے جو سینکڑوں غزلیں کہہ رکھی ہیں کیا ان میں فارسی عروض استعمال نہیں کیا گیا یا آپ کی اپنی کتنی غزلیں چھند اور پنگل کے عروض میں تخلیق کی گئی ہیں۔ فارسی عروض کے علاوہ فارسی زبان کو بھی برا بھلا کہا ہے اور اس کے مقابلے میں اردو کا جھنڈا بلند کیا ہے۔ آپ خود ہی بتائیں کہ آپ نے اپنی شاعری میں فارسی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا‘ اور یہ بھی کہ اردو جن زبانوں اور بولیوں سے مل کر بنی ہے کیا ان میں فارسی شامل نہیں تھی؟ ع
کیسے تیرانداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو
فارسی کو آپ نے غیر ملکی زبان قرار دیتے ہوئے معتوب قرار تو دیا ہے لیکن کیا وہ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ نظم‘ وہ آزاد ہو یا نثری کیادرآمدی پودے نہیں ہیں کیونکہ ہماری (پابند) نظم تو اقبالؔ کے بعد کہیں نظر نہیں آتی اور اگر خال خال کہیں دکھائی دے بھی جائے تو بالعموم ناپسندیدہ ہی گردانی جاتی ہے۔ یہی صورتحال مختصر افسانے کی بھی ہے۔ سو‘ کیا آزاد نثری نظم اور مختصر افسانے مقامی اصناف ہیں؟ اور جس طرح ہم نے انہیں گلے لگایا ہے‘ اسی طرح ایران سے آنے والی (فارسی) غزل کو بھی حرزِ جاں بنایا۔ چنانچہ آپ ایران سے آنے والی غزل کو تو مردود قرار دے رہے ہیں اور یہ حرام ہے تو نظم ِ معریٰ‘ نثری نظم اور مختصر افسانہ کیونکر حلال ہو گئے اور لطف یہ ہے کہ آنجناب نے خود غزل کے جو طومار باندھ رکھے ہیں کیا انہیں نذر آتش کر دیں گے؟ یعنی صاحب موصوف خود تو گڑ پورے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں اور دوسروں کو منع کرتے ہیں۔ میں نے ابھی اگلے روز ہی ایک رسالے میں شائع ہونے والی اعلیٰ حضرت کی نظموں میں چھ سات عروضی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اچھی بھلی نظموں کو وزن کی ان غلطیوں سے خواہ مخواہ مجروح کر دیا گیا ہے‘ اگر موصوف تھوڑا تردد کرتے تو ان نقائص کو دور کر سکتے تھے۔ میرا تو خیال تھا کہ میری اس گستاخی کے حوالے سے کچھ ارشاد فرمائیں گے لیکن انہوں نے ایک اور ہی راگنی چھیڑ دی۔ آپ عروض کے ساتھ یہ بے تکلفی اکثر و بیشتر فرمایا کرتے ہیں جس کا نوٹس پہلے بھی کئی بار لے چکا ہوں۔ آپ نے اس پوسٹ میں غالب کے ایک شعر کی تقطیع کرتے ہوئے اسے ناقص قرار دیا ہے تو بھائی‘ اس کے ساتھ میرا کیا تعلق ہے۔ آپ جانیں اور غالب۔ میری گزارش صرف یہ ہے کہ اگر آپ موزوں نظم تخلیق کرتے ہیں تو وزن کی غلطیوں سے نظم عیب دار ہوتی ہے جسے آپ شاید جائز سمجھتے ہیں۔ اگر ساری اردو دنیا میں سے ایک شخص بھی کہہ دے کہ نہیں اس میں کوئی ہرج نہیں تو جو چور کی سزا وہ میری۔ چنانچہ اگر آپ کی یہ بات درست نہیں ہے اور اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا تو آپ کی دوسری باتوں اور دعوئوں کی کیا قدروقیمت یا اہمیت باقی رہ جاتی ہے: 
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے۔ 
پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا
خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا (فیصل عجمی)
تاکہ بچھڑے ہوئے آپس میں ملیں‘ پھول کھلیں
تجھ کو دنیا جو بنانی ہے تو پھر گول بنا(نوید فداستی)
محبت اُس نے بھی کی‘ اور میں بھی مانتا ہوں
یہ اعتراف کوئی اعتراف تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں طبیعت ہے اُس کی ایسی ہی
وہ میرا دوست ہے‘ میرے خلاف تھوڑی ہے (ڈاکٹر نبیل احمد نبیل)
چادریں اُن کو میسر ہیں مگر مجھ کو نہیں
میں تو سردی سے مزاروں کی طرف دیکھتا ہوں
اُونچے پربت مرے کھلونے تھے
گھر کی دیوار سے گرا ہوں میں
اُس نے تاریکیوں میں جو چھوڑا مجھے
میں نے ایسا کیا روشنی چھوڑ دی (نوید ملک)
مرشدی مسئلہ حل نہیں ہو سکا
میں محبت میں پاگل نہیں ہو سکا (سراقہ)
مجھ کو حیرت نہیں تصویر کی سرگوشی پر
رنگ باتوں کا بھی چڑھ جاتا ہے خاموشی پر (کبیر اطہر)
آج کا مقطع
ہوتا بھی ظفرؔ نباہ کیونکر
چھوٹا تھا پتنگ سے پتنگا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved