تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-03-2013

صدر زرداری کی پیشکش

صدر زرداری نے اسلامی جمہوریہ مصر کے صدر محمد مرسی سے کہا کہ وہ شام کا مسئلہ حل کرا سکتے ہیں ۔ کوئی وجہ نہیں کہ مغرب ان کی پیشکش سے فائدہ اٹھائے لیکن پاکستان کا مسئلہ کون سلجھائے گا؟ پاکستانی سیاست میں غیر ملکی مداخلت کوئی راز نہیں ۔ آصف علی زرداری جیل میں تھے ۔ رہا تب ہوئے جب بے نظیر بھٹو اور مشرف میں مذاکرات شروع ہوئے ۔چیف جسٹس پر پرویزمشرف کا وار ناکام رہا تو بے نظیر بھٹو نے صورتِ حال سے پورا فائدہ اٹھایا اور سخت سودے بازی کی۔ سب جانتے ہیں کہ بے نظیر مشرف ملاقاتیں کہاں ہوتی تھیں اورکون سے ممالک ان کا اہتمام کرتے تھے ۔ اس سے قبل جب نواز شریف کا تختہ الٹنے والے جنرل مشرف کے تیور خطرناک تھے تو بعض غیر ملکی طاقتوں نے ان کی جان بچائی اور وہ جدّہ تشریف لے گئے ۔واپسی کی کوشش فرمائی توضامن آٹپکے ، جن میں لبنان کے سعد رفیق حریری بھی شامل تھے ۔خود حریری کا حال یہ تھا کہ 2005ء میں اسرائیل کو تگنی کا ناچ نچانے والی حزب اللہ ناراض ہوئی تو ان کی حکومت گر گئی ۔ حزب اللہ ایرانی بنیادیں رکھتی ہے ۔لبنان میں مدتوں شامی فوج خیمہ زن رہی ۔ ابھی چار دن پہلے بشار الاسد نے شامی ’’انقلاب ‘‘میں کردار ادا کرنے پرسعد حریری کے وارنٹ جاری کیے ہیں ۔خود شام میں روسی رسوخ ہے۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ اسرائیل کے ہمسائے میں اپنی موجودگی سے روس ،امریکہ اور مغرب کو دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ صورتِ حال اتنی سادہ نہیں۔ شام عالمی ذرائع ابلاغ اور معیشت پر قابض یہودی لابی کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ یہ گروہ اس قدر طاقتور ہے کہ عالمی طاقت کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ امریکی قیادت میں سارا مغرب شامی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کا پشت پناہ ہے ۔ ایک عشرے سے مقتدر بشار الاسد کی گرفت فوج پر ابھی قائم ہے ۔ اپنے گرامی قدر والد کی زندگی اور سیاست سے ایک ہی سبق انہوںنے سیکھا ہے کہ آخری سانس تک اقتدار سے چمٹے رہو ۔ دوسری طرف روس سر پیٹ رہا ہے کہ شام سے اسے دیس نکالا ملنے کے روشن امکانات ہیں ۔حکومت مخالف اتحاد منہ بسور رہا ہے کہ امریکہ اسے فضائی کمک کیوں نہیں پہنچاتا۔ ان کے ’’انقلاب‘‘ سے ایسا سوتیلا سلوک ؟ اسرائیل صورتِ حال سے پورا فائدہ اٹھارہا ہے ۔ شام کا قریب ترین دوست ایران دم سادھے بیٹھا ہے جو تربیت یافتہ فوج رکھتاہے ۔ دوبارہ شمار کیجئے، امریکی قیادت میں سارا مغرب ، سابق عالمی طاقت روس جو آج بھی دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی اور فوجی طاقت ہے ، شامی فوج اور بشار الاسد ، مشرقِ وسطیٰ کا سب سے طاقتور اور خطرناک کھلاڑی اسرائیل، امریکہ اور اسرائیل کے نشانے پر کھڑا عالمی تنہائی کا شکار ایران ، جو خود پرحملے کی صورت میں پورے خطے کو آگ لگا دے گا۔ ان تمام کی موجودگی میں صدر زرداری معاملہ سلجھائیں گے اور پیشکش مصری صدر محمد مرسی کو کی جا رہی ہے ، جن کا اپنا مستقبل واضح نہیں ۔ اصل سوال یہ ہے کہ کن بنیادوں پر کوئی ملک بیرونی مداخلت سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ مشرقِ وسطیٰ کو دیکھیے تو بات سمجھ آتی ہے۔ خرابی کی جڑیں ریاست کے اندر ہی سے پھوٹتی ہیں ۔ زمانۂ طالب علمی میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ہم جیسے کمزور ممالک کی حکومتیں بدل ڈالتی ہے ۔ اب معلوم ہواکہ پہلے اندرونی حبس حکومت مخالف تحریک اٹھاتا ہے ۔ پھر مغرب کود پڑتا ہے کہ نتائج وہ ہوں ، جو اسے سازگار ہوں ۔ اس کے سوا وہ کرے بھی کیا؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے کہ مغرب مخالف قوتیں اقتدار پائیں ؟ ایران کو دیکھئے تو بات سمجھ آتی ہے ۔ مغرب سیاسی محاذ پر وہاں ناکام رہا ہے ۔ اس لیے نہیں کہ عسکری طور پر ایران مضبوط ہے ۔ اس لیے کہ غیر معمولی خطرے نے پوری قوم کو یک جان کر دیا ہے ۔ روس کو دیکھئے تو بات سمجھ آتی ہے ۔ امریکی قیادت میں ساری دنیا افغان جہاد میں بے سبب نہیں کود پڑی تھی ۔ بجا طور پر بے شمار ممالک سویت یونین کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے ۔یورپ کے کتنے ہی ممالک اس نے نگل لیے تھے اور بے شمار ممالک میں پیسے کے زور پر کمیونسٹ ’’انقلاب ‘‘برآمد کیا جاتا تھا۔ خارجہ محاذ پر ہر غلطی کی قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ہم اپنے مفادکا تحفظ نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ممالک بھی سوئے پڑے ہیں ۔ خاص طور پر وہ ممالک جہاں مضبوط ادارے تشکیل پا چکے اور ریاست کے مفاد میں جُتے ہیں ۔ خود پاکستان اور افغانستان کو دیکھئے جہاں دو عالمی طاقتوں نے جھک ماری ہے ۔ جب ایک عالمی قوت جھک مارنے پر تل جائے تو صرف یہ کوشش کی جا سکتی ہے کہ نقصان کم از کم ہو ۔ صدر زرداری سفارت کاری سے شام میںمعاملہ سلجھا سکتے ہیں ؟ ان کے مدّاح کہتے ہیں کہ نہایت کامیابی سے وہ ہر بحران سے نمٹتے رہے اور پانچ برس مکمل کیے ، جو اس سے قبل کوئی سیاسی حکومت نہ کر سکی تھی ۔مثلاً ججوں کی بحالی کا لانگ مارچ دومرتبہ کامیابی سے لوٹانا ، مثلاً قاف لیگ سے اتحاد کر کے ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ کو لگام اور میمو سکینڈل …سوال یہ ہے کہ یہ سب بحران پیدا کس نے کیے تھے؟ صدر زرداری پہلے ادھیڑتے ہیں ، پھر سی ڈالتے ہیں ۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ تین طویل فوجی ادوار اور خاص طور پر پرویز مشرف کے طفیل ،فوج کے خلاف مزاحمت اور ردّعمل نہ ہوتااور افغانستان میں امریکی جنگ کے لیے صدر زرداری کی حکومت سازگار نہ ہوتی تو زیادہ سے زیادہ دو برس میں مارشل لا لگ جاتا۔الیکشن 2013ء کے بعد پیپلز پارٹی اپنی موجودہ حالت میں بچ پائے تو میں اسے صدر زرداری کی عظیم کامیابی سمجھوں گا۔ملک میں بجلی کا قحط چھ ہزار میگاواٹ تک جا پہنچا ہے ۔ چار ہزار میگا واٹ صرف اس لیے کہ گردشی قرضہ چکانے کے لیے ساڑھے چار سو ارب روپے چاہئیں ۔ ہمارے جیسے محتاج عالمی مسائل میں ضامن نہیں بنتے ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے مسائل سلجھانے چاہئیں اوراس کے لیے فرد کے طور پر ہم میں سے ہر ایک کی ذمّہ داری ہے کہ سیاست میں بھرپور حصہ لے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved