تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     18-04-2018

پارٹی وفاداریاں بدلنے کا موسم

آج کل پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر جو سین کثرت سے نظر آتا ہے اور جسے دیکھنے کیلئے لوگ بھی بڑی بے تابی سے انتظار کرتے ہیں‘ وہ سیاسی رہنمائوں کی طرف سے پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل ہے۔ ویسے تو اس سے کوئی پارٹی بھی مستثنیٰ نہیں‘ کیونکہ اگر پیپلز پارٹی کا کوئی موجودہ یا سابقہ ایم این اے یا ایم پی اے اپنی پارٹی کو خدا حافظ کہہ کر پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کر لیتا ہے تو اے این پی بلکہ ایک آدھ کیس میں خود پی ٹی آئی سے بھی لوگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان مسلم لیگ ق کو درپیش ہے‘ جس کے چوٹی کے کئی رہنما اپنی پارٹی سے الگ ہو کر پاکستان مسلم لیگ ن یا پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں؛ تاہم پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سب سے زیادہ شکار دو سیاسی پارٹیاں ہیں‘ پہلی مسلم لیگ ن اور دوسری متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)۔ اول الذکر کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی مضبوط ترین سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے‘ جبکہ موخرالذکر کو سندھ کے شہری علاقوں یعنی کراچی‘ حیدر آباد اور سکھر کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اپنی ان حیثیتوں کی بنیاد پر دونوں سیاسی جماعتوں نے ملک کی انتخابی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ن جب بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی‘ تو اس کی بنیاد پنجاب میں اس کی بھاری کامیابی رہی۔ اسی طرح سندھ میں شہری اور اردو زبان بولنے والے علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی بیشتر نشستوں پر کامیاب ہو کر ایم کیو ایم نے نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ مرکز میں بھی اہم سیاسی کردار ادا کیا ہے۔ 
اب صورتحال بدلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے‘ کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن سے گزشتہ ایک برس کے دوران میں دو درجن سے زائد سابقہ اور موجودہ اراکینِ اسمبلی پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں یا انہوں نے آزاد حیثیت سے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ان اراکین اسمبلی کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پنجاب کے جنوبی اور سرائیکی زبان بولنے والے علاقوں کی ہے‘ ایک ہفتہ قبل جہاں کے چھ ایم این ایز اور دو ایم پی ایز نے پاکستان مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کر لی۔ نون لیگ سے علیحدہ ہونے والے مزید دو ایم پی ایز کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے۔ سرائیکی علاقے سے پارٹی چھوڑنے والے سابق لیگی ارکان نے ''جنوبی پنجاب صوبہ تحریک‘‘ کے نام سے اپنی جدوجہد کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے مزید اراکین اسمبلی سامنے آ رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق جوں جوں انتخابات قریب آتے جائیں گے‘ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اسی طرح سندھ کے شہری علاقوں پر راج کرنے والی ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پہلے یہ تنظیم دو حصوں یعنی پاکستان سرزمین پارٹی (پی ایس پی) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) میں منقسم ہوئی۔ اب یہ مزید دو گروپوں میں بٹ چکی ہے۔ ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے تقسیم در تقسیم ہونے کے عمل میں کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ آیا یہ کسی سازش کا حصہ ہے یا دونوں سیاسی جماعتوں کے اندرونی تضادات‘ انتظامی کمزوریوں یا قیادت کی غلطیوں کا نتیجہ ہے؟ یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں اور مختلف حلقوں کی طرف سے ان کے مختلف جوابات آ رہے ہیں‘ لیکن اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس عمل کا منطقی نتیجہ کیا ہو گا‘ اور پاکستان کی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم جس دور سے گزر رہی ہیں‘ وہ غیر معمولی ہی نہیں بلکہ غیر فطری بھی ہے‘ کیونکہ دونوں پارٹیوں کے اراکین کھلے عام الزام عائد کر رہے ہیں کہ انہیں بغیر نمبر کے ٹیلی فون کالز کے ذریعے پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس عمل کو آگے کی طرف دھکیلنے والوں کا مقصد ان دونوں پارٹیوں کی سیاسی قوت کو منتشر کرنا ہے تاکہ وہ اپنے روایتی حلقوں میں غالب سیاسی پوزیشن حاصل نہ کر سکیں۔ مسلم لیگ ن کے لئے سکرپٹ بالکل واضح ہے۔ میرے خیال میں جس طرح اسے عددی اکثریت کی مالک ہونے کے باوجود سینیٹ سے بے دخل کیا گیا‘ اسی طرح پارلیمانی انتخابات میں اسے نہ صرف مرکز بلکہ پنجاب میں بھی حکومت سازی سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کی طرف پی ٹی آئی کے حلقے واضح اشارے دے چکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تشکیل پائیں گی۔ اسی لئے لوگ جوق در جوق دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی خطرہ بھانپ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے شکایت کی ہے‘ اسے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ اسی بنا پر نون لیگ کی قیادت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ انتخابات شفاف اور آزادانہ ہونے کی امید کم ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سیاسی غیر یقینی صورتحال کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے‘ کیونکہ اگر آئندہ انتخابات میں پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی‘ تو نہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن بلکہ ایم کیو ایم پی کی طرف سے بھی احتجاج کیا جائے گا۔ غالباً اسی خدشے کے پیش نظر کوشش کی جا رہی ہے کہ انتخابات سے قبل پارٹی وفاداریوں کے عمل کو تیز کرکے دونوں پارٹیوں کو اس حد تک کمزور کر دیا جائے کہ وہ انتخابی نتائج کے خلاف کوئی مؤثر احتجاجی تحریک نہ چلا سکیں۔ مسلم لیگ ن کو پارٹی چھوڑ کر جانے والے اراکین اسمبلی کے چیلنج کے ساتھ اور بھی مشکلات درپیش ہیں۔
سابق وزیر اعظم کی آئین کے آرٹیکل 62F1 کے تحت نااہلی کے بعد وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اور پھر انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی نے پارٹی کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور چونکہ پارٹی میں شامل بیشتر رہنما اصول سے زیادہ اقتدار کے متوالے رہے ہیں‘ اس لئے جوں جوں پارٹی کمزور ہو رہی ہے اس میں موجود مزید موقع پرست اور چڑھتے سورج کے پجاری‘ پارٹی کو چھوڑ کر ایسی پارٹی میں شامل ہو جائیں گے جو ان کے خیال میں اقتدار میں آنے والی ہے‘ اور دوسری پارٹی ایسے رہنمائوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ن اندرونی طور پر بھی خلفشار کا شکار ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے پارٹی صدر بننے کے بعد ان پر اپنے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کے بیانیے سے دامن چھڑانے کیلئے دبائو ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو اس وقت جو سیاسی مقبولیت حاصل ہے‘ وہ اسی بیانیے کی بدولت ہے‘ اور جس دن شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن نے اس بیانئے سے لاتعلقی کا اعلان کیا‘ اس دن مسلم لیگ ن سیاسی موت مر جائے گی۔ اس کی طرف سابق وزیر اعظم کی صاحب زادی مریم نواز نے چند دن پیشتر اشارہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ لیکن انہیں اعتماد ہے کہ یہ سازش ناکام ہو گی۔ تاہم احتساب عدالت میں زیر سماعت مقدمات کی صورت میں نواز شریف خاندان کے سروں پر جو تلوار لٹک رہی ہے‘ اس سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اسی طرح پنجاب میں شہباز شریف کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر ریمارکس کے علاوہ ماڈل ٹائون سانحے کی عدالتی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا حکم ظاہر کرتا ہے کہ شہباز شریف کو بھی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا گا۔ اگر احتساب عدالت سے سابق وزیر اعظم اور ان کے بچوں کو مبینہ کرپشن مقدمات میں سزا سنا دی جاتی ہے‘ تو حالات اور بھی ناسازگار ہو جائیں گے۔ پنجاب میں ان حالات سے مسلم لیگ ن کیسے عہدہ برآ ہوتی ہے اور کراچی میں حالات کیا کروٹ لیتے ہیں‘ آنے والے انتخابات پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے‘ لیکن ایک بات یقینی نظر آتی ہے‘ ان دو اہم سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے مفلوج کرنے سے ملک میں ایک ایسا سیاسی خلا پیدا ہو گا‘ جسے ملکی سالمیت‘ قومی یکجہتی اور معاشرتی امن کی دشمن قوتوں کیلئے پُر کرنا آسان ہو جائے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved