تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-04-2018

نواز شریف ہی کیوں؟

نواز شریف ہی کیوں؟ میرے کالموں کا پلڑا ان کے حق میں کیوں جھکتا ہے؟
جمہوریت ہی کیوں؟ سوال اچھے حکمرانوں کا ہے۔ اگر وہ کسی اور راستے سے برسرِ اقتدار آ جائیں تو ان کی تائید کیوں نہ کی جائے؟
کم و بیش اٹھائیس سال پہلے میں مولانا عبدالرؤف صاحب سے متعارف ہوا؟ استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کے ہاں اکثر تشریف لاتے اور ہم طالب علموں کو بھی اپنی محبت سے محروم نہ رکھتے۔ وہ چمن اب آباد نہیں رہا جو ان جیسے گل ہائے رنگا رنگ سے مہکتا تھا مگر مولانا کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے بعد میں بھی مجھ جیسے بے مایہ طالب علموں سے تعلق باقی رکھا۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ کالم پڑھتے اور اپنی گراں قدر آرا سے بھی نوازتے ہیں۔ یہ کسی لکھنے والی کی خوش بختی ہے کہ اسے ایسے پڑھنے والے میسر ہوں جو اپنی آزادانہ رائے سے تنقید کرتے ہوں۔ اس سے لکھنے والے کو یہ موقع میسر رہتا ہے کہ وہ اپنی آرا پر نظر ثانی کر سکے۔
میں نے جو سوالات ابتدا میں اٹھائے ہیں، مولانا عبدالرؤف صاحب بھی مجھے اس جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ان جیسے پیکرِ اخلاص کی رائے کو نظر انداز کرنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ان کی طرح کے اور بھی کئی پڑھنے والے ہیں، جن کے اخلاص کو میں آواز یا تحریر کے پردے میں بھی سن اور پڑھ سکتا ہوں۔ آج مجھے خیال ہوا کہ ایسے مخلصین کے اٹھائے ان سوالات کو اس کالم کا موضوع بنایا جائے۔ 
میں سیاست میں بطور اصول، چند باتوں پر یقین رکھتا ہوں۔ ان سے شاید ہی کوئی اختلاف کرتا ہو۔ تاہم ان کے اطلاق پر سوالات اٹھ سکتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اختلاف کا محل یہی ہے۔ میں یہاں ان کا اعادہ کر رہا ہوں۔
میرا دینی اور سماجی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انسانی ذہن جمہوریت سے بہتر سیاسی نظام تجویز نہیں کر سکا۔ یہ نہ صرف اخلاقی پیمانے پر پورا اترتا ہے بلکہ یہ سماجی امن اور سیاسی ارتقا کا ضامن بھی ہے۔ اخلاقی پیمانے پر پورا اترنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ وہی نظمِ اجتماعی اسلامی کہلوانے کا مستحق ہے جو باہمی مشاورت کے اصول پر قائم ہو۔ جمہوریت سماجی امن کی اس طرح ضمانت فراہم کرتی ہے کہ یہ پرامن انتقالِ اقتدار کو یقینی بناتی ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ ایسا نہیں جو اقتدار کی منتقلی کو پرامن رکھ سکے۔ سیاسی ارتقا کا سبب یوں ہے کہ اس میں کسی ایک گروہ کا اقتدار مستحکم نہیں ہوتا۔ اس کا امکان موجود رہتا ہے کہ ایک خاص مدت کے بعد، لوگ چاہیں تو حکمرانوں کو بدل ڈالیں اور چاہیں تو نظام کو۔
استحکام سیاسی نظام کی بنیادی اور جوہری ضرورت ہے۔ دیگر باتیں اس کے بعد اہم ہیں۔ ابن خلدون نے اسی کو بیان کیا تھا کہ اقتدار جب ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جنہیں عصبیت حاصل ہو تو مستحکم سیاسی نظام وجود میں آتا ہے۔ جدید لغت میں اسے اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ اقتدار کو گراس روٹ سطح تک رسائی ہو۔ عصبیت کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ رنگ و نسل کی ہو سکتی ہے اور مذہب و نظریے کی بھی۔ دورِ جدید میں عصبیت جاننے کا پیمانہ جمہوریت ہے۔ یوں یہ مستحکم سیاسی نظام کی اولیں ضرورت ہے۔
میں اسی لیے سیاسی عمل کے تسلسل کی حمایت کرتا ہوں۔ میرے نزدیک ہر وہ اقدام جو جمہوری عمل کو متاثر کرتا ہو، ناقابل قبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں اسی بات پر اصرار کرتا رہا اور ہر اس سیاسی اقدام کی مذمت کرتا رہا جو سیاسی اور جمہوری عمل کو غیر فطری طور پر متاثر کرتا ہو۔ اب یہ واضح ہے کہ ان ماہ و سال میں جب بھی اس اصول کا اطلاق کیا جائے گا، اس کا فائدہ نواز شریف صاحب کو پہنچے گا۔ 
آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ سیاسی انجینئرنگ کے شواہد اور مظاہر ہمارے ارد گرد بکھرے ہوئے ہیں۔ گیارہ اپریل کو میرا سرگودھا جانا ہوا۔ گیا تو میں سرگودھا یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے تھا‘ مگر اس کے ساتھ یہ سفر ایک سیاسی مطالعے کا سبب بھی بن گیا۔ رانا حاکم صاحب پیپلز پارٹی کے مقامی راہنما ہیں۔ ہماری سماجی روایت کا ایک قابلِ قدر نمونہ۔ میرا برسوں سے ان کے ساتھ تعلق ہے۔ مشکل ترین دنوں میں بھی انہوں نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بارے میں نہیں سوچا۔ ان کے صاحب زادے رانا جمشید ایڈووکیٹ بھی پارٹی میں متحرک ہیں اور ضلع کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ رانا صاحب نے مجھے اپنے ہاں چائے پر بلایا تو مقامی اہلِ سیاست کا ایک چھوٹا سا اجتماع بن گیا۔ سب کی متفقہ رائے یہی تھی کہ فاروق چیمہ صاحب پر کام ہو رہا ہے اور وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والے ہیں۔
لوگ اپنی براہ راست معلومات کا ذکر کر رہے تھے۔ یہ سب کچھ میرے لئے باعثِ حیرت تھا کہ سیاسی انجینئرنگ کا کام اس نچلی سطح تک ہو رہا ہے۔ پہلے تو کوئی آئی جے آئی بنتی تھی اور قومی سطح پر کچھ سیاسی راہنماؤں کو اعتماد میں لیا جاتا تھا۔ نچلی سطح پر سیاسی لوگ ہی جوڑ توڑ کرتے تھے۔ اب صورتِ حال بدل چکی۔ اب میں اگر یہ لکھتا ہوں کہ سیاست میں مصنوعی تبدیلی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور اسے فطری بہاؤ پر چلنا چاہیے تو ظاہر ہے کہ اس وقت اس کا فائدہ نواز شریف صاحب کو پہنچے گا‘ جن کے خلاف یہ انجینئرنگ ہو رہی ہے۔
پھر یہ کہ ہمیں موجود اہلِ سیاست ہی میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہے۔ اگر نواز شریف کے مقابلے میں کوئی قائد اعظم ہے تو ظاہر ہے کہ ان کی حمایت کا کوئی جواز نہیں۔ اگر مجھے دوسرے درجے کے اہلِ سیاست ہی میں سے انتخاب کرنا ہے تو معاملہ اصولی نہیں اطلاقی ہو گا۔ کسی کے خیال میں کوئی نواز شریف صاحب سے بہتر بھی ہو سکتا ہے۔ میں معاصر اہلِ سیاست کا موازنہ کرتے ہوئے، اگر نواز شریف صاحب کو ترجیح دیتا ہوں تو اس کے دلائل بیان کر دیتا ہوں۔ ان سے اختلاف کی پوری گنجائش ہے اور اس کے باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ 
تاہم اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جمہوریت کے علاوہ بھی کوئی نظام قابلِ قبول ہو سکتا ہے تو یہ اصولی اختلاف ہو گا، اطلاقی نہیں۔ یا اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ کسی سیاسی راہنما پر غیر فطری انداز میں سیاست کے دروازے بند کیے جا سکتے ہیں، اگر مقتدر حلقوں کے نزدیک اس کی حب الوطنی مشتبہ ہے تو مجھے اس سے اتفاق نہیں ہو گا۔ میں اسے بھی ایک اصولی اختلاف سمجھتا ہوں۔ 
مولانا عبدالرؤف کو جمہوریت سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ ان کے خیال میں کسی نیک آدمی کو برسرِ اقتدار آنا چاہیے، یہ بات اہم نہیں کہ وہ کس طرح اقتدار تک پہنچا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ آج کے دور میں جو کسی اور راستے سے برسرِ قتدار آئے گا، اس کا یہ اقدام ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ کوئی نیک آدمی نہیں ہے۔ قبائلی معاشرت کا معاملہ دوسرا تھا۔ اس وقت عصبیت مانپے کے اور پیمانے میسر تھے۔ آج کے معاشرے میں اس کا پیمانہ ووٹ ہے۔ اس سے انحراف اخلاقی بنیادوں پر قابل قبول نہیں۔
سیاست کے باب میں اس موقف کو نواز شریف ایک بیانیے کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ میں انہیں ایسے سیاست دانوں پر ترجیح دیتا ہوں جن کا کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ تاہم مجھ پر واضح ہے کہ وہ کوئی مثالی راہنما نہیں ہیں۔ میری ترجیح کا باعث سماجی تناظر ہے۔ کل اگر عوام کسی اور کا انتخاب کرتے ہیں تو میں عوام کے اس حقِ انتخاب کا دفاع کروں گا۔ شرط یہ ہے کہ یہ انتخاب کسی سیاسی انجینئرنگ کا نتیجہ نہ ہو۔ 
مولانا عبدالرؤف کا شکریہ بہر صورت مجھ پر واجب ہیں کہ اُن جیسے لوگ معاشرے کا چراغ ہیں۔ میرا اور مولانا کا اس پر اتفاق ہے کہ اس وقت ہمیں کوئی مثالی قیادت میسر نہیں۔ اس کی ذمہ داری میں اہلِ سیاست کے ساتھ اہلِ صحافت اور علما بھی شریک ہیں۔ میں یہی بالفاظِ دیگر لکھتا رہتا ہوں کہ سماجی تبدیلی، سیاسی تبدیلی سے مختلف ایک عمل ہے۔ اس کے لیے مختلف حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اور مختلف رجالِ کار کی بھی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved