تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-04-2018

تجسس کی قیمت

اگر کبھی انسان پلٹ کر اپنی زندگی پر ایک نظر دوڑائے تو بہت عجیب چیزیں نظر آتی ہیں۔ ایک لمحے کے لیے آپ بیس پچیس سال پہلے کی کسی شدید خواہش پر نظر دوڑائیں اور یہ دیکھیں کہ کیا اب بھی وہی خواہش اتنی ہی شدت سے موجود ہے ؟ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ماضی کی وہ خواہشات اب آپ کے لیے پرکاہ برابر حیثیت بھی نہیں رکھتی ہوں گی ۔ دوسری تیسری جماعت کی ایک خواہش آج بھی مجھے یاد ہے ۔ ایک جیومیٹری باکس تھا، جس کے اوپر ایک چھوٹا سا پیانو لگا ہوتا تھا ۔ یہ جیومیٹری باکس ٹرانسپیرنٹ تھا۔ اس میں سے اندر رکھی چیزیں نظر آتی تھیں ۔ مجھے یہ پیانو نما جیومیٹری باکس اکھٹے کرنے کا بہت شوق تھالیکن ایک وقت آیا، جب پیسے ہونے کے باوجود اس کی خواہش ختم ہو گئی ۔ ایک وقت تھا، جب مجھے ڈاک ٹکٹ اکھٹے کرنے کا شوق تھا۔ ایک ایک ٹکٹ جمع کرتے کرتے میں نے ان کی بہت سی ڈائریاں بنائیں ۔جب میں کالج میں داخل ہوا تو رفتہ رفتہ یہ شوق ختم ہونے لگا۔ پھر ایک وقت آیا کہ جو ڈائریاں میں نے بہت محنت سے بنائی تھیں ، وہ لاپروائی کی وجہ سے گم ہوگئیں ۔ یا للعجب میرے دل کو ذرا برابر بھی صدمہ نہ ہوا۔ نہ کبھی سنجیدگی سے میں نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔ 
میٹرک کے بعد موٹر سائیکل کا جنون پیدا ہوا۔ میں نے کالے رنگ کا ایک موٹر سائیکل خریدا۔ آج اس طرح کے موٹر سائیکل کی ،جو مجھے بہت عزیز تھا، میری نظر میں کاٹھ کباڑ سے زیادہ حیثیت نہیں ۔ یہی صورتِ حال لیپ ٹاپ کی ہے ۔کبھی لیپ ٹاپ خریدنے کی شدید خواہش تھی ۔ آج یہ ضرورت کی ایک عام سی چیز بن چکی ۔
اسی طرح کی صورتِ حال انسانوں کی ایک دوسرے سے محبت کے بارے میں ہے ۔ مجھے اپنے دوست ندیم کا قصہ یاد آتاہے ۔ شادی کے بعد اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ یہ بچہ پورے خاندان کی نظروں کا تارا تھا۔ اس کی عمر 7ماہ تھی ، جب وہ نمونیا کا شکار ہو کر مر گیا۔ پورا خاندان بلکتا رہ گیا ۔ ندیم اور اس کی بیوی تو جیسے زندہ لاشیں بن گئے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ پھر یکے بعد دیگرے ان کے ہاں تین بچّے پیدا ہوئے۔ آج یہ صورتِ حال ہے کہ ان میں سب سے چھوٹا،احتشام اب مکمل طور پر فوت ہو جانے والے کی جگہ لے چکا ہے ۔خاندان اس سے اتنی ہی محبت کرتا ہے۔ آٹھ دس سال پہلے فوت ہوجانے والا بچّہ تقریباً بھول چکا ہے ؛حالانکہ ایک وقت ایسا تھا، جب اس کے بغیر سانس لینا بھی دشوار تھا۔ 
مجھے اپنا دوست فرخ عباد یا دآتاہے ۔جب اس نے سکول چھوڑا تو میرے آنسو نہ رکتے تھے ۔ پھر کالج یونیورسٹی کا زمانہ آیا۔ اس کے بعد فکرِ روزگار پیدا ہوئی ۔ اس دوران اس دوست کی محبت کیسے میرے دل سے نکلی، پتہ ہی نہیں چلا۔ آخر ایک دن اس کی موت کی خبر آئی ۔اس کا دل ناکارہ ہو گیا تھا۔ جس دوست کے سکول چھوڑ جانے پر صدمے سے میری بری حالت تھی ، اس کی موت کی خبر میری آنکھوں میں آنسو نہ لا سکی۔ یہ ہے چیزوں اور رشتوں سے انسانوں کی محبت۔ اس قدر عارضی، اس قدر ناپائیدار ۔
اس سب کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان جن چیزوں سے محبت کرتاہے ، وہ عارضی ہیں ۔ انسان ساری زندگی لگا کر دولت جمع کرتاہے ۔انسان ساری زندگی اپنی اولاد سے محبت کرتاہے ۔ انسان ساری زندگی جائیداد جمع کرنے میں گزارتاہے ؛حالانکہ ان چیزوں کی محبت عارضی طور پر اس کے دل میں رکھی گئی ہے ۔ جب یہ محبت اٹھا لی جائے گی تو انسان سخت حیرت زدہ ہو جائے گا کہ میں کیوں ان چیزوں سے اتنی محبت کرتا رہا ۔ آخر ان میں ایسی کیا خاص بات تھی ۔ 
آپ سونے کی مثال لے لیں ۔ سونا اس لیے اچھا لگتا ہے کہ یہ ٹھوس سنہرے رنگ کی دھات ہے اور کمیاب ہے ۔ اگر یہ سونا مٹی اور پتھروں کی طرح کرّہ ء ارض میں عام پایا جاتا تو کوئی اسے پہننا پسند نہ کرتا ۔ نہ ہی اس کی کوئی قدر وقیمت ہوتی بلکہ اسے مٹی جتنی اہمیت ہی دی جاتی۔ اس کے مقابلے میں آپ یہ دیکھیں کہ زندہ چیزیں کتنی قدر و قیمت کی مالک ہیں ۔ اگر کسی کے جسم کا ایک گردہ، جگر ،یا ایک پھیپھڑا ناکارہ ہو جائے تو کرئہ ارض کی ساری دولت بھی اس کا مداوا نہیں کر سکتی ۔ گو کہ اب انسان اس طرف بڑھ رہا ہے ، جہاں کسی بھی ضائع ہوجانے والے عضو کو لیبارٹری میں تیار کیا جا سکے گا۔ یہ گردے، یہ پھیپھڑے اور یہ دل ہر بلی اور کتے میں قدرتی طور پرموجود ہیں ۔ زندہ چیز اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ سائنسدان کھربوں روپے لگا کر مریخ اور دوسرے سیاروں پرصرف ایک زندہ خلیہ ڈھونڈنے میں جتا ہے ۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کرئہ ارض پہ زندہ چیز کی اہمیت کیوںنہیں ؟ جواب: اس لیے کہ یہاں زندگی بہتا ت میں ہے ۔ اگر تو انسانوں کے علاوہ کوئی جانور زمین پر نہ پایا جاتا۔ پوری زمین میں صرف100 بلیاں یا دس کتے ہوتے تو ان کی قیمت کھربوں میں لگائی جاتی ۔ دنیا کے سب سے دولت مند لوگ انہیں خرید لیتے ۔ لوگ ایک دوسرے کو بتاتے کہ میرا داد ا اس قدر بڑا رئیس تھا کہ اس نے ایک بچّے دینے والی بلی پال رکھی تھی ۔ 
یہاں پہنچ کر جب انسان حدیث پڑھتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے مطابق انسان کا مال اور رزق صرف اتنا ہی ہوتاہے ، جتنا کہ وہ اصل میں استعمال کر لیتاہے یا خدا کی راہ میں دے دیتاہے ۔ باقی اس کے رزق میں شمار نہیں ہوتا ؛حالانکہ وہ اسی کے اکائونٹ اور اسی کی زمینوں میں موجود ہوتاہے ۔ اسی طرح انسان کے علاوہ اس وقت 87لاکھ قسم کی مخلوقات (Species)موجود ہے ، ان کی کھانے پینے سمیت دوسری سب ضروریات بھی اسی طرح پوری ہوتی ہیں ، جیسے کہ انسانوں کی۔ 
انسان کو صبر اس لیے نہیں آتا کہ اس کا علم محدود ہے ۔جانداروں میں اپنی محبت اس طرح سے پیدا کی گئی ہے کہ اپنا وجود اسے کائنات کی سب سے بڑی حقیقت لگتاہے۔ جب کہ خدا کے سامنے جو حقائق ہوتے ہیں ، ان میں ایک انسان یا کسی بھی جاندار کو پیدا ہونے کے بعد موت کا مزا بھی چکھنا ہوتاہے اور موت تو ہوتی ہی تکلیف دہ ہے ۔ یہ تکلیف اس لیے رکھی گئی ہے کہ جاندار اپنی زندگی کی حفاظت کریں۔ 
مجھے پورا یقین ہے کہ جیسے ہم ایک بچّے کو چمکیلے کاغذ سے کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ اسی طرح خدا ہمیں سونے سے کھیلتے ہوئے دیکھتاہے ۔ پھر انسان اس ساری صورتِ حال میں کنفیوژ سا ہو جاتاہے ۔وہ سوچنے لگتاہے کہ کیوں نہ میں اپنی زندگی میں کچھ اہمیت تجسس کو بھی دوں ۔ آخر یہی تجسس ہے ، جس کی خاطر انسان اربوں ڈالر خرچ کر کے 'وائیجر ون ‘کو نظامِ شمسی کی حدود سے باہر بھیج چکا ہے ۔ یہی تجسس ہے ، جو خدا تک لے جا سکتاہے ۔ یہی تجسس ہے ، جو علم دیتاہے اور اسی علم کے ساتھ صبر آتاہے ۔ یہی تجسس ہے ، جس سے انسان کو علم حاصل ہوا اور اسی علم کی بنا پر انسان فرشتوں سے افضل ہوا ۔آخرت ہی نہیں ،اسی علم کی بنیاد پر کچھ قومیں دنیا میں بھی دوسروں سے افضل ہوئیں ۔پھر کیوں نہ انسان روزانہ کچھ وقت اس تجسس کی تسکین کے لیے بھی مختص کرے ۔ کچھ تو انسان پڑھے۔ اس زمین کے بارے میں(Earth Sciences) ، خلا اور ستاروں کے بارے میں ، زندگی کے بارے میں ۔ آخر انسان کچھ تو سوچے ۔خدا کون ہے ؟ اس نے زندگی کیوں پیدا کی؟ زندہ چیزوں میں انسان کا کیا مرتبہ و مقام ہے ۔ آخر انسان کو کچھ قیمت اور کچھ اہمیت اس تجسس کو بھی تو دینی چاہیے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved