لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر ہم پڑھنا چاہیں ، اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہیں تو کوئی راستہ ، کوئی سمت بتائیے ۔ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کتابوں کے نام بتائیے ۔ میں کہتا ہوں ،کاش کتابیں پڑھی ہوتیں ۔ پھر دوسرا سوال یہ ہوتاہے کہ پھر آپ یہ سب کچھ کہاں سے لکھتے ہیں ۔ میں بتاتا ہوں ۔ میں چیزوں کی تعریف (Definition) پڑھتا ہوں ۔ ہمارے جدِ امجد آدمؑ سے یہ ہنر انسان کو ملا ہے کہ ہر چیز کو ایک نام دیتا ہے ۔ ہر چیز کی تعریف کرتاہے ، اس کی definitionبیان کرتا ہے بلکہ یہ definitionلکھ کر دوسروں کو اس کے بارے میں آگاہ کرتاہے ۔ اگر تو ہم اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف یہ definitionsپڑھنا ہوں گی ۔ ہر چیز کا نام، اس کی خاصیت ، اس کے فائدے اور نقصان ۔ یہاں سے علم کے سرچشمے آپ کے دماغ میں پھوٹ پڑیں گے ۔ پھر آپ ایک نظر دنیا پر دوڑائیں ۔ انسان کیا کچھ کرتا پھر رہا ہے ، اسے اپنے پاس نوٹ کریں ۔ وہ ہوائوں میں اڑ رہا ہے ، سمندروں کی تہہ تک جا چکا ہے ، دوسرے سیاروں پہ اترنے کی تیاری کر رہا ہے ۔ اس سب کو ایک نظر دیکھتے جائیے۔خود ہی ساری سمجھ آجائے گی۔
دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں ، جن کا کہنا یہ ہے کہ مذہب ایک ایسی چیز ہے ، جو انسان نے خود ایجاد کیا۔ انسان دوسرے جانداروں جیسا ایک جاندار ہی تو تھا ۔ اس کے سینے میں دل دھڑکتا، رگوں میں خون دوڑتا ہے ۔ گردے خون کی صفائی کرتے ہیں ۔ پھیپھڑوں کے راستے آکسیجن سے توانائی کشید کی جاتی ہے ۔ اس کی ہڈیوں اور گوشت کے اوپر اسی طرح کھال چڑھی ہے ، جیسے شیر ہاتھیوں میں ۔ حیاتیاتی طور پر تو کوئی فرق نہیں ۔بس دماغ میں تھوڑی سی عقل آٹپکی۔ اب وہ سوچنے لگا۔ ماضی اور مستقبل کے بارے میں ۔ وہ ہمیشہ دشمن اور ناگہانی کے خوف میں مبتلا رہتا تھا۔ اس خوف کو توڑنے کے لیے ،اپنی تسلی، اپنی دل جمعی کے لیے ،کسی نے خدا کا تصور پیش کیا ۔ یہ تصور اس قدر مقبول ہوا کہ شہروں کے شہر اس پر ایمان لے آئے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دنیا میں صرف دو قسم کے انسان باقی رہ گئے۔ ایک وہ جو خدا پر ایمان رکھتے تھے ۔ دوسرے جن کے خیال میں اس کائنات، اس زمین اور اس زندگی کا کوئی خدا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ اتفاقاً وجود میں آئی ۔ ان لوگوں کا کہنا شروع سے یہی رہا کہ بھلا جب ہم مر جائیں گے اور جب ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو کیا ہمیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟ ناممکن!جب خدا سے پوچھیے تو وہ یہ کہتاہے کہ تم ہڈیوں کی بات کرتے ہو، میں تمہارے فنگر پرنٹ بھی دوبارہ بنا دوں گا ۔
جہاں جہاں مذہب آیا، ساتھ ساتھ مکمل اخلاقی اصول آئے۔ جھوٹ نا بولو، دھوکہ نہ دو ۔ جو لوگ مذہب پر یقین نہیں بھی رکھتے تھے، انہوں نے بھی دریافت کیا کہ معاشرے کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ جرائم کے خلاف قانون کی قوت سے نمٹا جائے ۔ آپ اخلاقی طور پرجھوٹ بولنے کو جرم قرار نہ بھی دیں تو جو شخص جھوٹ بول کر پیتل کو سونا کہہ کر فروخت کر رہا ہے ، اس کے خلاف تو کارروائی کرنا پڑے گی۔ ایک شخص سرخ اشارہ توڑ کر فرار ہو رہا ہے تو وہ دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہا ہے ۔ اس کے خلاف بھی کارروائی کرنی پڑے گی ۔لامحالہ انسان کو معاشرے کی بقا کے لیے قوانین بنانا پڑے ۔ حکومت کا ادارہ تشکیل دیا گیا ۔ غلط سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانون کا ادارہ تشکیل دیا گیا۔ یوں جو لوگ اخلاقی قوانین کو نہیں مانتے تھے، انہیں بھی انسان کے تشکیل کردہ کچھ قوانین پر اتفاقِ رائے کرنا پڑالیکن وہ سوال آج بھی وہیں کا وہیں ہے ۔ خدا ہے یا نہیں ہے ؟ جواب : خدا ہے بلکہ خدا ہی ہے ۔ اس کے علاوہ باقی سب سراب ہے ۔ باقی سب نظر کا دھوکا ہے ، جو انسانی حسیات کوساری زندگی دیا جاتا ہے ۔
بہت بڑے بڑے سوالات ہیں ، جن کا جواب صرف اور صرف خدا کی ذات ہی میں پوشیدہ ہے ۔بہت عرصہ تک سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عظیم الشان انسانی عقل خدا کے وجود پر سب سے جگمگاتی ہوئی دلیل ہے ۔ کائنات کی تاریخ میں پہلی بار ایک سورج کے گرد گھومنے والے ایک سیارے پر موجود ایک مخلوق نے لوہے اور دیگر دھاتوں سے ایسی مشین بنائی، جسے اس سورج کی حدود سے باہر بھیج دیا گیا۔ اس مشین کو زمین سے اڑا کر خلا تک لے جانے کے لیے تیل ، آکسیجن یا اس زمین پر موجود دوسرے ایندھن جلائے گئے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ زمین کو اتنا نیچے تک کھود کر اس میں موجود توانائی اور ایندھن کے ذخائر نکالنا۔ آگ استعمال کرتے ہوئے انہیں جلانا۔ لوہے کا انجن بنانا اور اس میں ایندھن کو آگ کی شکل میں جلا کر توانائی پیدا کر کے اس سے گاڑی اور میزائل اڑانا ۔ یہ سب کچھ اس قدر حیرت انگیز ہے کہ کئی دفعہ یقین ہی نہیں آتا کہ اس سیارے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے ۔
پھر انسان وسائل دیکھتا ہے ۔ وہ سب وسائل جو کہ اس زمین پر موجود ہیں اور جن سے زندہ چیزیں ہر لمحہ فیض یاب ہوتی ہیں۔ سب سے بڑا اور سب سے قیمتی ذخیرہ تو آکسیجن ہی ہے ۔ دماغ کو چند سیکنڈ آکسیجن نہ ملے، اس پہ فالج گر جاتاہے یا وہ مر ہی جاتاہے ۔ یہ آکسیجن جس قدر قیمتی ہے ، اتنی ہی فراوانی کے ساتھ پورے کرّہ ہ ء ارض پہ مفت پائی جاتی ہے ۔ اوپر خلا میں جانا ہو تو اس کے سیلنڈر بھر کے ساتھ لے جانا پڑتے ہیں ۔ اسی طرح آپ پانی کی مخلوقات کو دیکھیں تو انہیں بھی پانی سے آکسیجن با آسانی ملتی رہتی ہے ۔ یہ سب چیزیں کیا ہیں ؟ یہ نشانیاں ہیں ۔ خدا بار بار کہتاہے ''ہماری نشانیاں ‘‘ زمین و آسمان میں یہ نشانیاں بکھری پڑی ہیں ۔
اگر انسان کبھی وکی پیڈیا پر موجود مختلف چیزوں کی تعریف (Definition)ہی پڑھنی شروع کر دے تو بہت سی باتیں معلوم ہونے لگتی ہیں ۔ آپ Soilکا لفظ نکالیں اور اس کی تعریف پڑھیں ۔ " Soil is the mixture of organic matter, minerals, gases, liquids and organisms that together support life۔ یہ وہ بات ہے ، جس پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور لکھی جا چکی ہیں ۔ یہ وہ علم ہے ، جسے اگر آپ پڑھنا شروع کر دیں تو یہ آپ کو خدا تک لے جائے گا ۔ سطح ء ارض ، یہ mixtureکن چیزوں پر مشتمل ہے ؟ آرگینک میٹر کیا ہے ، mineralsکیا ہیں ، گیسز کون سی ہیں ، مائع کون سے اور دوسرے وہ کون سے organismsہیں ، جو سب آپس میں مل کر زندگی کو supportکرتے ہیں ۔ یہ کیسے زندگی کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ زندگی کی یہ بستی کیسے بسائی گئی اور کیسے اسے بسانے سے پہلے ضروریاتِ زندگی پیدا کی گئیں ۔ کیسے آکسیجن کا انقلاب (Great Oxidation event)ہوا ۔ کب اور کیسے زمین میں پودے اگنا شرو ع ہوئے ۔ کیسے بتدریج جانور وجود میں آئے۔ پھر فاسلز کے ریکارڈ پر کب انسان نمودار ہوا۔ کیسے اس انسان نے اس پورے سیارے کو بدل کے رکھ دیا ۔ کب اس انسان نے ایجادات شروع کیں۔ کب وہ سب دوسرے جانداروں پر غالب ہو گیا۔ (جاری )