الیکشن اور میڈیا کا باہمی تعلق اتنا ہی پُرانا ہے جتنی پرانی سیاست کی تاریخ؛ البتہ مختلف ادوار میں اس کی نوعیت اور کردار بدلتا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی تمام تاریخی قوتوں کی طرح میڈیا بھی ارتقا کے عمل سے گزرتا رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلابی تبدیلیوں نے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کو اب ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں سے اُسے نہ صرف دنیا کے کونے کونے تک رسائی حاصل ہو چکی ہے بلکہ حالات، واقعات اور مسائل کے بارے میں رائے عامہ کو متاثر کرنے کی جتنی صلاحیت اس دور میں میڈیا کو حاصل ہے اُس کی ماضی قریب میں کوئی مثال موجود نہیں۔ تقریباً دس سال قبل جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا تو مغربی ذرائع ابلاغ نے اس جنگ کو جس رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا اُس سے پہلی مرتبہ میڈیا کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ پاکستان میں گزشتہ تقریباًَ دو دہائیوں کے دوران میں جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اُن میں ایک طاقت ور اور آزاد میڈیا کا فروغ بھی شامل ہے۔ پیمرا کے مطابق اس وقت ملک میں 89 ٹی وی چینل ہیں۔ یقیناً یہ سبھی نیوز چینل نہیں بلکہ دیگر قومی مسائل مثلاً صنعت اور کاروبار، زراعت اور تعلیم سے متعلق پروگرام بھی پیش کرتے ہیں لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اے پی این ایس کے ساتھ رجسٹرڈ انگریزی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد 66 ہے جبکہ اْردو زبان میں شائع ہونے والے اخبارات کی مجموعی تعداد2200 ہے۔ ہفتہ وار، پندرہ روز بعد اور ایک ماہ میں شائع ہونے والے اخبارات/ جرائد کی تعداد بالترتیب 18‘ 4 اور 27 ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جماعتِ اسلامی، جماعت الدعوۃ، سُنی تحریک، مرکزی جمعیتِ اہلِ حدیث اپنا اپنا اخبار یا رسالہ بھی شائع کرتی ہیں۔ ان کی کل تعدادگیارہ ہے۔ اس کے علاوہ مزارات سے منسلک کچھ تنظیمیں بھی اپنے مجلات شائع کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایک طاقتور علاقائی پریس بھی ہے مثلاً سندھی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد چھبیس ہے۔ پشتو میں پانچ‘ سرائیکی میں ایک، پنجابی میں پانچ، گجراتی میں دو اور بلوچی زبان میں دو اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے انتخابات میں میڈیا کا کردار اہم ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہو گا۔ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں یعنی میڈیا کا حجم بڑھا ہے اور عوام تک اس کی رسائی بھی پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ تعداد میں لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ مختلف چینلوں کے پروگراموں میں دلچسپی لیتے ہیں اور آن لائن کال کی سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میڈیا اب طاقت ور ہی نہیں آزاد بھی ہے۔ ایک زمانے میں میڈیا پر حکومتِ وقت کی سخت پابندیاں عائد ہوتی تھیں لیکن اب وہ دن گئے۔ ججوں کے معزولی کیس اور پھر ان کی بحالی کی تحریک میں میڈیا نے جو مثبت کردار ادا کیا وہ پاکستانی صحافت کی تاریخ میں ایک درخشندہ باب کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر میڈیا نے قوم کو درپیش مسائل اور بحرانوں کے بارے میں حقائق سے آگاہ کیا مثلاً2010ء کے تباہ کن سیلاب پر فوکس کر کے متاثرین کے مسائل اور مشکلات کو جس طرح اْجاگر کیا گیا وہ بھی میڈیا کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ میڈیا کے اس کارنامے کی وجہ سے نہ صرف ملک کے اندر سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے حکومت اور مخیّر افراد اور ادارے آگے آئے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سیلاب زدگان کی فوری امداد اور اُن کی مستقل بحالی کیلئے لاکھوں ڈالرز فنڈ بھی جمع کروائے گئے۔ آئندہ الیکشن میں میڈیا کے کردار کو تین حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ سیاسی جماعتیں میڈیا کے ذریعے اپنا منشور عوام تک پہنچائیں گی۔ اس سلسلے کا آغاز الیکشن شیڈول کے اعلان سے پہلے ہی ہو چکا ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور تیار کر لیے ہیں وہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اشتہارات کے ذریعے اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسمبلیوں کی تحلیل اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے خاتمہ سے پہلے میڈیا پر سرکاری اشتہارات چلتے رہے۔ ان اشتہارات میں حکومتی کارکردگی کو عوام کے سامنے نمایاں کیا جاتا رہا۔ اب جبکہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے اور الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے لیے مدت بھی مقرر کر دی ہے تو ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے ذریعے سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کی طرف سے اشتہار بازی میں بھی تیزی آ جائے گی۔ انتخابی مہم کے دوران میڈیا کے کردار کا دوسرا اہم پہلو انتخابات کو صاف، شفاف اور صحیح معنوں میں نمائندہ عمل بنانے سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں ٹی وی چینل اور اخبارات اپنے اداریوں، کالموں اور تبصروں میں انتخابات کی اہمیت کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ ووٹ کی اہمیت بیان کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹ دینے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ انتخابی حلقوں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے پولنگ انتظامات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور جہاں کہیں الیکشن کمیشن یا انتظامیہ کی جانب سے کوتاہی کے آثار نظر آئیں میڈیا اپنی رپورٹ میں اس کی نشان دہی کر کے حکام کی توجہ مبذول کروا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی میڈیا نے یہ کام کیا اور اُمید ہے کہ اس دفعہ بھی میڈیا یہ فریضہ احسن طریقہ سے سر انجام دے گا۔ میڈیا کو جمہوریت کا Watch dogکہا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک مضبوط، مستعد اور آزاد میڈیا کے بغیر کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کا پودا جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ پاکستان میں ابھی تک ایک مستحکم جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکا۔ ملک کی 65سالہ تاریخ میں جمہوری طریقے سے منتخب اسمبلیاں پہلی دفعہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد آئینی طریقے سے تحلیل ہو رہی ہیں اور اس طرح نئے منتخب اور نمائندہ اداروں اور سیاسی قیادت کیلئے پُرامن اور جمہوری طریقے سے راہ ہموار ہو رہی ہے۔ اس عمل کو اپنا سفر جاری رکھنے اور اپنی منزل پر پہنچنے میں مدد فراہم کرنا جہاں ایک طرف سیاسی جماعتوں اور غیرسیاسی اداروں کا فرض ہے، وہاں میڈیا کے مثبت کردار کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اُمید ہے کہ پاکستانی میڈیا اس مقصد کے لیے پاکستانی عوام کی صحیح رہنمائی کرے گا اور انتخابات کو صاف، شفاف اور غیرجانبدارانہ بنانے میں اپنا تاریخی کردار ادا کرے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved