تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی ہی جماعت کے بیس ارکانِ صوبائی اسمبلی کو سینیٹ کے انتخاب میں اپنے ووٹ بیچنے کی پاداش میں نکال باہر کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا (اور شاید آخری) اقدام ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی حرکت کسی پارٹی سربراہ کو کرنے کی توفیق ہوئی اور نہ ہی شاید آئندہ ہو سکے۔ خان صاحب سینیٹ کے انتخابات سے بہت پہلے اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ ان میں ووٹ خریدے اور بیچے جائیں گے۔ ان کے اپنے بقول پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی میں ان کی جماعت کے نمائندے بھی اس طرف بار بار توجہ دلاتے رہے، وہ سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ بدلنا چاہتے تھے، لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں سے کسی نے اس پر کان نہیں دھرے۔ عمران خان کے اس دعوے کی تردید نہیں کی جا سکتی، سول سوسائٹی اور میڈیا میں ان کی تائید کرنے والے بھی موجود تھے، لیکن نتیجہ کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔ 'وہی رنگ ہیں بزم کے وہی روز جام چھلکے‘۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جب سے دولت کی ریل پیل ہوئی ہے اور سیاست کو پاک کرنے کے دعوے کرنے والوں نے منڈیاں اور بولیاں لگانا شروع کی ہیں اور سیاست کو غلیظ سے غلیظ تر بنانے کے لئے سرگرم ہوئے ہیں، اس وقت ہی سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ بدلا جائے۔ اسے براہ راست کر دیا جائے یا کسی بھی صوبے میں عام انتخابات کے دوران صوبائی اسمبلی کے لئے ڈالے جانے والے ووٹوں کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو اپنے نمائندے نامزد کرنے کا حق دے دیا جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ صوبائی اسمبلیوں میں حاصل کردہ نشستوں کو بنیاد بنا کر اسی طرح سینیٹ کی نشستیں تقسیم کر دی جایا کریں، جس طرح خواتین کی نشستوں کا تعین کیا جاتا ہے، لیکن بڑی سیاسی جماعتوں نے کانوں میں انگلیاں ہی نہیں روئی بھی ٹھونس لی اور کچھ بھی سننے سے انکار کر دیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے، ہمارے ہاں سیاسی اخلاقیات کا درس وہی دیتا ہے، جسے کچھ نہ کچھ کھونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے، وہ سیاسی جماعتیں جو دوسروں کی نشستیں بھی ہتھیانے کے شوق میں مبتلا ہوں، اپنی نفسانی خواہشات سے اوپر اٹھنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ نتیجتاً کوئی آئینی ترمیم ممکن نہیں ہو سکی۔ بار بار آئین میں ترمیمات کی گئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے ''اسلامی‘‘ مارشل لاء سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے ''نفسانی‘‘ مارشل لاء تک ہر ایک نے درجنوں دفعات کو ادھیڑ ڈالا، لیکن سینیٹ کے طریق انتخاب کو نہیں بدلا۔ اٹھارہویں ترمیم کے لئے تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں، دروازے بند کرکے اور چٹخنیاں چڑھا کر دن رات کام کیا، لیکن نہ تو سینیٹ کے انتخاب کے طریقے پر توجہ کی نہ بلدیاتی اداروں کی تشکیل (اور ان کے اختیارات) کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل دیا۔ جس طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت اور اختیارات واضح کر دیئے گئے ہیں، اس طرح بلدیاتی اداروں کے ساتھ بھی معاملہ کیا جاتا تو پاکستانی جمہوریت آج ٹانگوں کے بغیر کھڑی نظر نہ آتی۔ صوبائی خود مختاری کے ٹھیکیداروں کو مقامی خود مختاری کا احساس نہیں ہوا۔ اگر ایسا کر دیا جاتا تو آج نہ نئے صوبوں کے مطالبے ہوتے اور نہ ہی کراچی جیسے بڑے شہر میں محرومی کا وہ لاوا پک پاتا، جو کسی بھی وقت شعلۂ جوالا ثابت ہو سکتا ہے۔ اور تو اور جنرل پرویز مشرف نے اختیارات کو ضلعی اور تحصیل کی سطح پر منتقل کرنے کے لئے (جنرل تنویر نقوی کی تجویز پر) جو نظام وضع کیا تھا، اسے بھی تہہ تیغ کر ڈالا۔ اور کروڑوں کی آبادی رکھنے والے صوبوں کو پھر بذریعہ وزیر اعلیٰ سرکاری افسروں کی تحویل میں دے دیا گیا۔
گزشتہ دنوں سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اور اس سے پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے جس طرح چولے بدلے، اس نے ایک بار پھر ہمارے اہل سیاست کی بے تدبیریوں کو واشگاف کیا۔ ان واقعات (یا حادثات) میں گھر لٹانے والے حصہ بٹورتے ہوئے پائے گئے، مسلم لیگ(ن) کے بَین تو دور دور سنائی دیئے، لیکن گلا پھاڑنے یا منہ بسورنے سے کچھ ہاتھ نہ آ پایا۔
اب خان صاحب کے تیور بھی بَلا کے ہیں اور مسلم لیگ(ن) بھی غیظ و غضب کا مظاہرہ کر رہی ہے، لیکن پانی کی گدلاہٹ کے ساتھ ساتھ اس کا رخ بدلنا بھی ممکن نظر نہیں آ رہا۔ آئینی طور پر سینیٹ کا انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو رکن اسمبلی جس امیدوار کو چاہے ووٹ دینے کا مجاز ہے۔ اس پر اس حوالے سے آئین نے کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اولاً تو یہ ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا کہ کس شخص نے کس کو ووٹ دیا ہے، ثانیاً ووٹ دینے کی پاداش میں کسی کی گردن بھی ماپی نہیں جا سکتی کہ وہ اپنی آزاد مرضی کا مالک ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔
عمران خان صاحب نے اپنی جماعت کے ارکان کو نکال باہر کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ان کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کئے جائیں گے، اگر وہ تسلی بخش جواب نہ دے پائے تو ان کے معاملات نیب (NAB) کے سپرد کر دیئے جائیں گے۔ کم و بیش تمام ارکان نے خان صاحب کے الزام کی تردید کی ہے، بہت سوں نے تو قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر اور آنسو بہا بہا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلایا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ان میں سے کون کتنا ایماندار ہے، عمران خان صاحب سے یہ تو پوچھا جائے گا کہ انہوں نے کارروائی پہلے کرکے، اظہار وجوہ کا نوٹس بعد میں جاری کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ دنیا کے کس خطے کے کس قانون کے مطابق ہے۔ پاکستان تو ایک باقاعدہ دستوری مملکت ہے، جنگلوں اور پہاڑوں میں بسنے والے بھی اس طرز انصاف کی داد نہیں دے سکتے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی آن کھڑا ہوا ہے کہ خان صاحب کی اپنی جماعت کے جن امیدواروں نے اپنی جماعتی طاقت سے زیادہ ووٹ حاصل کئے، ان کا نام کس کھاتے میں رکھا جائے گا؟ دوسری جماعتوں کے ارکان کو ورغلانے والے صادق اور امین کیسے سمجھے جائیں گے؟ عمران خان کا جذبہ قابل قدر ہے، پاکستان کو اقبال اور قائد کے خوابوں کی تعبیر بنانے کا عزم بھی بہت مبارک ہے۔ نیک نیتی کے جتنے بھی نمبر دے دیئے جائیں، نتیجہ تو حسن تدبیر ہی سے برآمد ہو گا۔ گھوڑے کے آگے گاڑی لگا کر سفر تیز تر کرنے کی آرزو کیسے پوری ہو گی؟
چیف جسٹس کی ''وارننگ‘‘
چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے لاہور میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ عدلیہ کو کسی یکجہتی یا مدد کی ضرورت نہیں ہے، اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل سپریم کورٹ سے یکجہتی کا بڑا رومانس ہو رہا ہے‘ سڑکوں پر بینرز اور پوسٹر لگے ہوئے ہیں جن پر بعض جج صاحبان کی بڑی بڑی تصویریں لگائی گئی ہیں۔ اس سب کو بند ہونا چاہئے۔ اس کی ممانعت ہے۔ جناب چیف جسٹس کے ان الفاظ سے اختلاف ممکن نہیں۔ جب سیاسی شخصیات کے مقدمات اور معاملات زیر سماعت ہوتے ہیں تو ان کے حامیوں اور مخالفوں پر ان کے مخصوص اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ''پولرائزڈ‘‘ ممالک میں کسی سیاستدان کے حامی یا مخالف اپنی رائے آسانی سے بدلنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ہماری تاریخ میں اس کے کئی حوالے موجود ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا مقدمہ اس کی بہت نمایاں مثال ہے۔ انہیں قتل کا مجرم ٹھہرا کر سزا سنائی گئی۔ مارشل لا انتظامیہ نے عدالت کی فرمانبرداری کے نام پر انہیں پھانسی پر لٹکا دیا لیکن آج اس فیصلے کو ان کے مخالفوں کی بڑی تعداد بھی جوڈیشل مرڈر قرار دیتی ہے۔ قبر میں بسیرا کرنے کے باوجود بھٹو کی شخصیت حوالہ رہی ہے اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے‘ مقدمے کے منفی اثرات کم ہو رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں اور ایک کروڑ سے کہیں زیادہ ووٹرز نے ان کی جماعت کو ووٹ دے رکھے ہیں۔ ان کیخلاف عدالتی کارروائیوں پر بھی رائے عامہ بٹی ہوئی ہے۔ اسی پس منظر میں جب ان کے مخالفین بغلیں بجاتے اور عدلیہ کے کندھے تھپتھپاتے نظر آتے ہیں تو اس سے عدلیہ کا تشخص متاثر ہوتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مخصوص حالات میں عدلیہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی توہین عدالت کے زمرے میں شمار کیا جانا چاہیے۔ اس سے عدلیہ کی غیر جانبداری کو دھچکا لگتا ہے۔ امید ہے کہ ہمارے مختلف الخیال سیاسی رہنما جناب چیف جسٹس کی بات پر کان دھریں گے اور عدالتی فیصلوں کو اپنی سیاست کے حق میں یا خلاف استعمال کرنے سے گریز کریں گے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا ‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]