تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     23-04-2018

گزشتہ نصف صدی سے امت کے زوال کا سفر (حصہ دوم)

ایک تاریخ ساز واقعہ انقلابِ ایران ہے، صدیوں سے جاری بادشاہت کو اکھاڑ پھینکاگیا ،نہ صرف ایران بلکہ عرب و مسلم ممالک کو بھی متاثر کیا ،وہ بھاری قیمت ادا کر کے خود کو مشرقِ وسطیٰ کا ایک اسٹیک ہولڈر ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ترکی بھی ایک مضبوط معاشی قوت بن کر ابھرا ہے ، خطے میں اس کا کردار نمایاں ہے، امت کے مظلومین کا ترجمان بنا ہے اور اپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے کوشاں ہے، اس کے لیے بھی پاکستان جیسے مسائل پیدا کیے جارہے ہیں۔
ہم نے سب کی خدمت کی ،مگرکسی کے لیے بھی قابلِ اعتمادنہ رہے، غیرمشروط خود سپردگی نے منفی نتائج دیے۔ صدر ٹرمپ تمام سفارتی آداب سے ماورا ایک جذباتی اور زبان دراز شخص ہیں ، وہ ٹویٹ کے سلطان ہیں۔
اسی دوران امریکہ نے عراق پر 2003میں دوبارہ حملہ کرکے صدام حکومت کو ختم کیا اور بالآخر انہیںسزائے موت دے دی ، تباہی و بربادی کے بعداس نے ملتِ جعفریہ کے غلبے پر مشتمل اپنے زیرِنگیں حکومت قائم کی۔2011میں لیبیا میں خانہ جنگی شروع کی گئی اورآخرِکارقذافی کی حکومت کو ختم کرکے انہیں قتل کردیا گیا، لیبیا میں بے چینی آج بھی موجود ہے۔عرب بہار ،مصر میں اخوان کی حکومت کا قیام ،پھر سعودی عرب کی مالی اعانت اور امریکہ کی آشیر بادسے اُن کاخاتمہ ایک مستقل موضوع ہے۔اسی دوران سعودی عرب نے امریکہ کی آشیر باد سے بشارالاسد کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے مجاہدین کے گروپ تشکیل دیے، اس طویل جنگ کے نتیجے میں شام کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ،مسلمانوں کامجموعی جانی نقصان دسیوں لاکھ ہے ، بشارالاسد کی حکومت تاحال قائم ہے ،روس ، ایران اور ترکی بھی اپنے اپنے مفادات کے تحت اس قضیے کا حصہ بن چکے ہیں۔داعش امت کے لیے ایک الگ ابتلا ہے،جو غلبۂ اسلام کے نام پرمسلمانوں کو ماررہے ہیں ۔ امریکہ اور روس اپنی مفاداتی جنگ شام کی سرزمین پر لڑ رہے ہیں ،البتہ تباہی صرف اہلِ شام کی ہورہی ہے ، مسلم ممالک منقسم ہیں ،کوئی امریکہ کا طرفدار اور کوئی روس کا حامی ہے۔ بچپن میں ایک لطیفہ سنا تھا: ''ایک بیگم صاحبہ نے اسکول ٹیچر کو بتایا کہ میرا بچہ بڑا ذہین ہے ،اگر یہ غلطی کرے تو اس کے برابر والے طالب علم کو تھپڑ ماردیا کریں ،یہ خود سمجھ جائے گا‘‘۔ سو دونوں حریف ایک دوسرے پر غصہ اتارنے کے لیے مسلمانوں کو مارے جارہے ہیں، اس ابتلا کا انجام کیاہوگا،عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے ،ناصر علی سرہندی نے کہا:
زِ اِختلافِ ایںو آں،سر رشتہ را گم کردہ اَم
شُدپریشان خواب مَن ،اَز کثرتِ تعبیر ہا
گوہرِ چوں خود شناسی، نیست دَر بحر وجود
ما بہ ِگردِ خویش می گردیم چوں گردابہا
لفظ گر دارد تفاوت، صورت و معنی یکیست
اختلافِ کفر و دیں، آئینہ دارِ وحدت است
اہل ہمت را نباشد، تکیہ بر بازوئے کس
خیمہ ٔ افلاک ،بے چوب و طناب استادہ است
عزت اَرباب معنی، نیست اَز نام ِپدر
بے نیاز اَز بحر گردد قطرہ، چون گوہر شود
ترجمہ:'' لفظی ہیر پھرمیں پڑکر میں نے اپنے کلام کا مقصود ہی گم کردیا اورکثرتِ تعبیر کے سبب میرا خواب ہی بکھر گیا ۔چونکہ بحرِ وجود میںخودشناسی سے زیادہ قیمتی موتی کوئی نہیں ہے ،اس لیے میں گرداب کی مانند اپنی ہی ذات کے گردچکر لگارہا ہوں ۔لفظوں میں اگرچہ فرق ہوتاہے ،صورت ومعنیٰ تو ایک ہی ہے ،کفر اور دین کا اختلاف بھی وحدت کا آئینہ دار ہے ( کیونکہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں )۔اہلِ عزیمت واستقامت کو دوسروں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے (یعنی خود اعتمادی ہی انسان کا کمال ہے )،دیکھو! اَفلاک کا خیمہ کسی ستون اور طنّاب کی رسی کے ظاہری سہارے کے بغیر (اللہ کی قدرت سے )قائم ہے ۔اہلِ کمال کی عزت نسَبی تفاخُر پر نہیں ہوتی ( ذاتی خوبیوں پر ہوتی ہے )،قطرہ جب سمند رسے بے نیاز ہوکراپنی خوبی پر انحصار کرتاہے، تو(صدف کے منہ میں جاکر) قیمتی موتی بن جاتاہے ‘‘۔
متضاد تعبیرات آج بھی امت کا مسئلہ ہیں ،آپ کسی بھی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھیں ،تو آپ کو ایک ہی چیز کی کئی تعبیریں ملیں گی، ہر ایک اپنی تعبیر کو حرفِ آخر سمجھے گا، کسی کے نزدیک کوئی شخص پاپی ہے ،تو دوسرے کے نزدیک اُس کی ذات پاکیزگیِ کردار کی کسوٹی ہے ،سو گزشتہ نصف صدی میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ہماری تعبیرات اپنی اپنی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سوویت یونین کو افغانستان میںعبرت ناک شکست ہوئی ،لیکن کیا ہم فاتح قرار پائے ،فتح کے ثمرات ہم نے سمیٹے؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قربانیاں مجاہدین نے دیں ،دسیوں لاکھ بے گھر اور دربدر ہوئے ،لاکھوں جانیں نذر ہوئیں ،لیکن فاتح اور واحد سپر پاورتو امریکہ بن گیا ، اس فتح کا تاج اُس نے اپنے سر پرسجا لیا ۔جہادِ افغانستان نے مسلمانوں کے اندر جذبۂ جہاد کو زندہ کیا ،لیکن پھر جہاد اور فساد خَلط مَلط ہوگئے ، اس کے ذہن سازعرب اسکالرتھے ، وہ مختلف خِطّوں کے معروضی حالات ، نفسیات اور علمی ترجیحات کا صحیح ادراک نہیں رکھتے تھے،بعد میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر یلغار کی اور افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا ۔ امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ،تاحال وہ نہ افغانستان میں امن قائم کرسکا ،نہ پورے ملک کا کنٹرول حاصل کرسکا اور نہ ہی مستحکم حکومت قائم کرسکا، حال ہی میں ٹرمپ نے وہاں کے معدنی ذرائع سے جنگی مصارف وصول کرنے کی اشارتاً بات کی ہے ، لیکن یہ منزل بہت دور ہے ۔لیکن کیا ہم کامیاب رہے ، افغانستان پر ہم نے حقیقی اسلامی حکومت قائم کرلی ،اُسے امن کا گہوارہ بنادیا ،اس کا جواب بھی نفی میں ہے ، سو امریکہ کے خلاف کامیابی منفی معنوں میں ہے۔یمن کا قضیہ بھی معلّق ہے ،شام کا مستقبل بھی غیر یقینی ہے ، البتہ تاحال بشارالاسد کھنڈرات پر حکومت کر رہا ہے، اُسے مکمل شکست نہیں دی جاسکی اورکھوئے ہوئے علاقوں پر رفتہ رفتہ اس کا قبضہ بحال ہورہا ہے۔فلسطین کے مسئلے سے اب عالَم عرب تقریباً غیر متعلّق ہے ،ہر ایک کو اپنی پڑی ہے ،ہر ایک کے اپنے مقاصد ہیں اور اب اسرائیل کسی نہ کسی درجے میں بعض عرب ممالک کے لیے قابلِ قبول ،قابلِ برداشت اور قابلِ تسلیم ہے۔کشمیر کو تو پوری امت نے نہ کبھی اپنا مسئلہ بنایا اورنہ ہی اُسے وہ حیثیت دی جوماضی میں فلسطین کو حاصل رہی ہے ۔پہلے القاعدہ اُمّ المجاہدین تھی ، پھر اُس کے بطن سے داعش نے جنم لیا ۔لیکن مقامِ حیرت یہ ہے کہ یہ سارے مجاہدین مسلمانوں ہی کو مارتے رہے اور انہی کی لاشوں پر اپنی خلافت کے تاج سجاتے رہے ۔حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بعض انکشافات کیے اورپاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف نے جہادِ افغانستان کو قومی غلطی سے تعبیر کیا اور اُس سے سبق سیکھنے کی طرف اشارہ کیا ،اہلِ اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ 
ہم نے یہ پس منظر اس لیے بیان کیا ہے کہ ہمارے اہلِ فکر ونظر موجودہ مشکلات سے عزت ووقار کے ساتھ نکلنے اور مقامِ افتخار حاصل کرنے کے لیے کوئی طویل المدت حکمت عملی طے کریں ۔ہمیں معلوم ہے کہ اسلحے کی برتری جذبۂ جہاد کابدل نہیں ہوسکتی ،لیکن اسلام وسائل واسباب سے دست کش ہونے اور گردوپیش کے معروضی حالات سے آنکھیں بند کرنے کی تعلیم بھی نہیں دیتا ۔کیا آئندہ پچاس سال بھی امتِ مسلمہ بنی اسرائیل کی طرح وادی تیہ میں سرگرداں رہے گی یا دانشمندی سے کام لیتے ہوئے کوئی قابلِ عمل حکمتِ عملی وضع کرے گی۔ جذبۂ جہادیقینا قابلِ قدر ہے ،نعمتِ بے بدل ہے ،لیکن کیا ہمیں آنکھیں بند کر کے مجاہدین کی قیمتی جانیں خطرات میں جھونک دینی چاہییں ،کیا مسلمانوں کے خون سے ابھی تک زمین کی پیاس نہیں بجھی ،کیا اِن اندوہ مناظر سے چشمِ فلک ابھی تک سیر نہیں ہوئی ،کیا ان جذبوں کو ہم کوئی مثبت رخ نہیں دے سکتے کہ اس کی تعبیر ہمیں تابناک مستقبل کی صورت میں ملے ،ماضی قریب میں ''الاخوان المسلمون‘‘کا عروج وزوال بھی ہمارے سامنے ہے ۔سو وقت آگیا ہے کہ ہم نفع ونقصان کا تخمینہ لگائیں ،اسلام اور ملتِ اسلامیہ نے اس عرصے میں کیا کھویا اور کیا پایا ،عالمِ اسلام کے لیے امکانات بڑھے یا دائرہ اثر سمٹتا چلا گیا، ہم ستاون ممالک کومنظم کر کے ایک اجتماعی قوت میں ڈھال سکے ۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم نے معاصر دنیا کو چیلنج کرنے یا اُن کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا ۔ہم نے کئی ملین جانیں قربان کیں ،آخرت کے اعتبار سے تو شہید اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دے کر سرخرو ہوجاتا ہے اور اُخروی نعمتوں کا حق دار بن جاتا ہے ،لیکن کیا ان عظیم شہادتوں کو ہم نے دنیاوی نتائج کے اعتبار سے کامیابیوں میں ڈھالا۔ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ سے لے کر آج تک اسلام کی تاریخ شہادتوں کی داستانوں سے معمور ہے ،لیکن دنیا نے ان کے نتائج وثمرات بھی دیکھے ہیں، اسلام کو اللہ کی زمین پر غلبہ پاتے ہوئے دیکھا ہے، مسلمان ایک وقت میں دنیا کی سپر پاور بن گئے ،کیا ہمارے پاس ان کامیابیوں کا کوئی سوواں یا ہزارواں حصہ بھی ہے ۔ریاض میں منعقدہ امریکہ اسلامک کانفرنس کے نتیجے میں امریکہ نے سعودی عرب، امارات اور قطر میں تنائو پیدا کیا ،پھر باری باری دونوں کو اپنے چرنوں میں بلایا، سینکڑوں ارب ڈالر کے معاملات طے کیے اور اب ہدایت کی ہے کہ بس!بہت ہوچکا، اچھے بچے بن جائو۔ٹرمپ نے شام پر'' Nice,New & Smart Missile‘‘پھینکنے کی دھمکی دی تھی ، اس پر عملدربھی آمد ہوا ،103ٹوماہاک میزائل داغے ، ان میں سے باختلافِ روایات دس سے ستّر میزائل روسی فضائی دفاعی نظام نے راستے میں تباہ کیے ،امریکہ انکار کر رہا ہے ،لیکن اگر یہ خبر درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روسی ٹیکنالوجی امریکہ کے مقابل یا قریب تر آرہی ہے ،سو یہ ایک بڑی خبر ہے ،کیونکہ عالمی برتری کے لیے اقتصادی قوت اور سپر ٹیکنالوجی لازمی ہے، کیا روس اور چین مل کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کواس میدان میں چیلنج دے سکتے ہیں، اس سوال کا جواب مستقبل کی عالمی قیادت کا تعین کرے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved