تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-04-2018

سُرخیاں‘ متن‘ افضل خان اور متفرقات

دوسری جماعتوں نے ضمیر فروشوں کے خلاف 
کارروائی نہ کی تو نام خود بتا دوں گا : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''دوسری جماعتوں نے ضمیر فروشوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو نام خود بتائوں گا‘‘ کیونکہ سب نے میرے پاس بیٹھ کر ہی فیصلہ کیا تھا اور میرے بتانے پر فوراً تیار ہو گئے تھے کہ یہ حکم اُوپر سے آیا ہے جو کہ انہوں نے غلط سمجھا کیونکہ میرا اصل مطلب یہ تھا کہ حکم اللہ میاں کی طرف سے آیا ہے اور جب سے میں نے روحانیت کی طرف صدق دل سے رجوع کیا ہے‘ اللہ میاں کے ساتھ میری ڈائریکٹ ڈیلنگ ہو گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ''سائیکل چور جیل میں بند اور کھربوں لوٹنے والا پروٹوکول میں پھر رہا ہے‘‘ جبکہ میرا اصل اعتراض کھربوں لوٹنے پر نہیں بلکہ اس کے پروٹوکول پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن سے ادارے تباہ ہوئے‘‘ حالانکہ اداروں کو تباہ کرنے کا کام کرپشن کے بغیر بھی کیا جا سکتا تھا جبکہ کرپشن بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی۔ آپ اگلے روز مانچسٹر میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
رونے کا وقت نہیں‘ موقع ملا تو کراچی 
کو نیویارک بنا دوں گا : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''رونے کا وقت نہیں‘ کراچی کو نیویارک بنا دوں گا‘‘ اور اگر نیویارک نہ بن سکا تو کراچی والوں کو دھاڑیں مار مار کر رونے کا پورا پورا حق حاصل ہو گا کیونکہ حالات کچھ ایسی کروٹ لیتے دکھائی دے رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میرے اپنے رونے کا وقت بھی کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کراچی والے ترقی چاہتے ہیں تو نون لیگ کو ووٹ دیں‘‘ جبکہ پنجاب کی ترقی کا ابھی کل ہی چیف جسٹس صاحب نے بھی کھل کر اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''شہریوں کا فنڈ حکمران کھا گئے‘‘ اور یہاں بھی ہماری نقل اتارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیونکہ کھائے پئے بغیر زندہ ہی نہیں رہا جا سکتا جبکہ ان کا کھانے کا طریقہ غلط تھا‘ اگرچہ پکڑے ہم بھی گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بلاول ہائوس اور بنی گالہ ہم نوالہ ہم پیالہ ہیں‘‘ اگرچہ پیپلز پارٹی ہماری بھی ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہی ہے لیکن وہ کھاتے بھی ہم سے زیادہ تھے اور پیتے بھی۔ آپ اگلے روز کراچی میں متحدہ بہادر آباد اور اے این پی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔
دینی جماعتوں کو دیوار سے لکانے کی کوشش کی جا رہی ہے : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''دینی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘ حالانکہ اگر طریقے سے کہا جاتا تو ہم لوگ دیوار چھوڑ دروازے سے بھی لگنے کو تیار تھے کیونکہ ہمارے مطالبات اور مسائل بیحد سادہ ہوتے ہیں اور آسانی سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' سیاستدانوں کا استحصال کیا جارہا ہے ‘‘ جس کے بعد ہماری باری بھی آ سکتی ہے جبکہ ہم تو اللہ اللہ کرنے والے لوگ ہیں اور مدد کے لئے اللہ کے بندوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں کیونکہ صاحب توفیق لوگوں کو خدمت کا موقع تو دینا ہی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ '' کیسا انصاف ہے جو نظر نہیں آرہا ‘‘ اور بیچارے نوازشریف کا مقدمہ خواہ مخواہ لٹکا رکھا ہے حتیٰ کہ اب تو جیل کی جو تازہ صفائی کرنے والی ہو گئی ہو گی جس پر حکومت کا دوہرا خرچہ اٹھے گا حالانکہ یہ اضافی پیسہ کسی نیک مقصد کے لئے بھی خرچ کیا جاسکتا ہے اور حکومت کو کم از کم اشاروں کی زبان تو سمجھنی ہی چاہئے۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں اسلام کانفرنس کے اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔
اور اب حسب معمول کی شعر و شاعری ہو جائے !
چلو ان واعظوں کو اپنی مجبوری بتاتے ہیں
کسی کے قرب کو جو دین سے دُوری بتاتے ہیں 
بہت سے کام دنیا کے ادھورے ہیں جنہیں ہم تم 
رضا کارانہ کرتے ہیں نہ مزدوری بتاتے ہیں
اور ، اب اس غم میں آدھ رہ گئے ہیں باخبر ساتھی 
کہ ہم ہر اجنبی کو بات کیوں پوری بتاتے ہیں 
شجر تنقید کرتے ہیں ہمارے جھک کے ملنے پر
کہ سب اس انکساری کو بھی مغروری بتاتے ہیں
مرے اجداد کی تعلیم ہے صبر و قناعت کی
سو، ناکامی کو بھی قدرت کی منظوری بتاتے ہیں ( افضل خان)
تم اگر صائبِ رائے ہو تو لازم تو نہیں
تم جسے ٹھیک سمجھتے ہو وہی ٹھیک بھی ہو 
کتنا مصروف دن گزرتا ہے 
کام جس دن کوئی نہیں ہوتا (نعیم ضرار)
اک دوسرے پہ فرض کئے جا چکے تھے ہم
پھر ایک روز دونوں ادا کر دیئے گئے 
بابِ قفس کھلا بھی تو کچھ دیر کے لیے
جو قید میں نہیں تھے رہا کر دیئے گئے
جتنے ہم اپنے پاس ہیں اُتنے تو ہیں ابھی
جو کچھ تمہارے پاس تھے کیا کر دیئے گئے (عمران عامی)
اس نے آنکھوں سے پکارا مجھ کو
میں نے آواز کو آتے دیکھا (زبیر قیصر)
میں ہو گیا ہوں خود اپنے سفر سے بیگانہ
کہ نیند میری ہے خواب رواں نہیں میرا (ابرار احمد)
عشق کے نام پہ خیرات بھی لے لیتے ہیں
یہ وہ صدقہ ہے جو سادات بھی لے لیتے ہیں (رانا سعید دوشی)
بہت حساس ہوتے ہیں تقاضے خاکساری کے
نشیبی بستیوں میں زندگی دشوار ہوتی ہے ( افضل خاکسار)
آج کا مطلع
شہر میں تیرا نام چلتا ہے
ساتھ میرا بھی کام چلتا ہے
..................

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved