اہلِ سیاست کے حافظے کا پردہ بھی خوب ہے۔ حالات کے مطابق اور موقع کی مناسبت سے اِس پر اچانک بہت کچھ نمودار ہونے لگتا ہے۔ اور اِس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پُرانی پاکستانی فلموں کی کہانی میں ایک اہم موڑ یہ ہوتا تھا کہ ہیرو یا ہیروئن کی کھوئی ہوئی یاد داشت بحال ہوتی تھی اور معاملات درست ہوتے چلے جاتے تھے۔ ایسا اُس وقت ہوتا تھا جب پیانو پر تھیم سانگ چھیڑا جاتا تھا۔ یہ گانا سن کر ہیرو یا ہیروئن کے ذہن میں جھنجھناہٹ ہوتی تھی اور پھر اُسے سب کچھ یاد آنے لگتا تھا۔ یہ تھیم چونکہ فلم بینوں کو بہت پسند تھی اس لیے دوسری تیسری فلم میں دہرائی جاتی تھی اور یہی سبب ہے کہ پُرانی پاکستانی فلموں کے تھیم سانگ اور پیانو پر گائے جانے والے گانے آج بھی مقبول ہیں۔
ہماری سیاسی فلم میں کھویا ہوا حافظہ بحال کے لیے پیانو پر تھیم سانگ کا کردار ادا کرتا ہے الیکشن۔ جیسے ہی الیکشن کے سُر چھیڑے جاتے ہیں، بہت سوں کو بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ سب کی طرزِ فکر و عمل کچھ ایسی ہو جاتی ہے جیسے اُن سے زیادہ اِس ملک کا اور اِس کے رہنے والوں کا بھلا چاہنے والا کوئی نہیں۔ اِس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت نمودار ہو رہی ہے۔ الیکشن کا طبل بجنے کو ہے۔ انتخابات کے پیانو پر وہ راگ چھیڑا جانے والا ہے جو حافظہ بحال کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
سیاست دان شروع تو خیر ہو ہی چکے ہیں۔ عوامی رابطہ مہم کے نام پر ایک بار پھر لوگوں کو یقین دلایا جارہا ہے کہ جمہوریت ہی اُن کے تمام مسائل کا حل ہے۔ باور کرایا جارہا ہے کہ وہی دیرینہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت و سکت رکھتے ہیں اِس لیے اُنہی کو ایک بار پھر منتخب کیا جائے۔
اِس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ عوام کے لیے بہترین طرزِ حکومت اور تمام مسائل کا حل جمہوریت ہے مگر کیا کیجیے کہ یارانِ ستم پیشہ نے جمہوریت کو عوام سے لیے جانے والے انتقام میں تبدیل کردیا ہے۔ لوگ ووٹ ضرور کاسٹ کرتے ہیں مگر ووٹ کاسٹ کرتے وقت وہ یہ بھی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اِس مشق و مشقّت کا کچھ حاصل تو ہے نہیں۔ یعنی انتخابی عمل بھی محض رسمی کارروائی ہوکر رہ گیا ہے۔
بات ہو رہی تھی حافظے کے بحال ہونے کی۔ سیاست دانوں کو اچانک یاد آگیا ہے کہ اِس سرزمین پر عوام نام کی مخلوق بھی بستی ہے اور یہ کہ اُس کے بہت سے مسائل ہیں جو مدت سے حل طلب ہیں۔ سبھی لنگوٹ کس کر میدان میں آئے ہیں اور ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ اگر مسائل کا حل ہے تو صرف اُس کے پاس، کسی اور کے کے پاس نہیں۔ قسمیں کھا کھاکر عوام کو یقین دلایا جارہا ہے کہ اگر وہ ایک بار پھر بے وقوف بنیں یعنی ووٹ کاسٹ کرتے وقت اُنہیں ذہن نشین رکھیں تو اُن کی زندگی کو تمام مسائل سے پاک کردیا جائے گا! عوام ایک بار پھر حیران ہیں کہ اِس دو راہے یا تِراہے سے کس طرف مُڑیں، کہاں جائیں۔ ؎
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
کئی بار اُنہوں نے ایسے ہی دعووں اور وعدوں کو ہڑپ اور ہضم کیا ہے۔ کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ایسے میں ذہن کو جھنجھوڑ دینے والا سوال یہ ہے کہ پھر اِس ملک کے اہلِ ایمان کو بارہا کیوں ڈسا گیا ہے!
اہلِ سیاست کا حافظہ بحال ہو رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر اِس سے اچھی بات یہ ہوگی کہ عوام کا حافظہ بھی بحال ہوجائے۔ اُنہیں بھی تو کچھ یاد آنا چاہیے۔ آخر کب تک وہ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلتے رہیں گے؟ عوام کو انتخابات کے نتائج پر کچھ زیادہ یقین نہیں رہا۔ یہی سبب ہے کہ انتخابی عمل میں وہ نیم دِلانہ انداز سے شریک ہوتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے ووٹ کاسٹ کرنے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ عوام کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تبدیلی ضرور آئے گی مگر اِس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے سوچ تبدیل ہو اور تبدیل شدہ سوچ کے مطابق عمل بھی تبدیل کیا جائے۔
اس ملک کی سیاسی فلم میں حقیقی مثبت موڑ اُس وقت آئے گا جب عوام کا حافظہ بحال ہوگا، اُنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگا۔ ووٹ کاسٹ کرنا محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ حکمرانی کا انداز تبدیل کرنے کے حوالے سے بنیادی آلے یا ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ مہذب معاشروں میں عوام کے شعور کی سطح بلند ہوتی ہے اس لیے وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ووٹ کاسٹ کرنے میں کسی بھی طرح کی کوتاہی اُن کے لیے کس نوعیت کے نتائج کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنے نمائندے منتخب کرنے کے معاملے میں انتہائی حسّاس اور محتاط واقع ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں اب تک عوام شعور کی اِس بلند سطح تک نہیں پہنچے ہیں۔ اور اُنہیں کوئی وہاں تک پہنچا بھی نہیں سکتا جب تک وہ خود ایسا نہ چاہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو اپنے مفادات کے تحفظ کی راہ خود ہموار کرنی ہے۔ اہلِ علم، اہلِ نظر اور میڈیا کے لوگ اس معاملے میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں، آگے بڑھنا تو عوام ہی کا کام ہے۔ جب تک وہ اپنے ووٹ کی قدر نہیں کریں گے تب تک کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ووٹ کو احترام دینے کی بات ہو رہی ہے مگر یہ بات تو عوام سے کی جانی چاہیے۔ اگر وہ اپنے ووٹ کی قدر کریں، اُسے اہمیت دیں تو بہت سی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ عوام کے ذہن میں یہ تصور راسخ کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن کا کاسٹ کیا ہوا ووٹ اِس ملک کو تبدیل کرنے میں، خرابیاں دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے اور کرے گا۔ جب تک عوام اپنے ووٹ کے کسی ممکنہ وسیع کردار کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے تب تک آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلتے رہیں گے۔
ملک ایک بار پھر دو راہے پر کھڑا ہے۔ موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کی مدت 31 مئی کو ختم ہو رہی ہے۔ اِس کے بعد نئے انتخابات کی منزل آئے گی۔ اِس ملک کو جمہوری ادوار میں کچھ خاص نہیں مل سکا۔ اِس میں خرابی جمہوریت کی نہیں بلکہ قصور اُن کا ہے جنہیں عوام نے نمائندوں کے طور پر منتخب کیا مگر وہ ڈلیور نہ کرسکے۔ اور گھوم پھر کر دیکھیے تو قصور عوام کا نکلے گا۔ ووٹ کاسٹ کرتے وقت ہر طرح کی جانب داری کو ایک طرف ہٹاکر اُنہیں منتخب کرنا ہوتا ہے جو تفویض کی جانے والی ذمہ داری کا بوجھ اٹھاسکیں، ڈیلیور کرسکیں۔
ہماری سیاسی فلم میں ایک بار پھر انتخابی پیانو پر تھیم سانگ بجنے والا ہے۔ اِس مرحلے کے آنے سے پہلے اِس ملک کے عوام کو ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے بھرپور ذہنی تیاری کرلینی چاہیے۔ عوام کا حافظہ بحال ہونے ہی سے اِس ملک کا تابناک مستقبل وابستہ ہے۔ عوام کو ووٹ کاسٹ کرتے وقت بہت کچھ یاد رکھنا چاہیے، بہت کچھ یاد آنا ہی چاہیے تاکہ ہر اعتبار سے موزوں نمائندے منتخب کرنا ٹیڑھی کھیر ثابت نہ ہو۔ اہلِ سیاست کا حافظہ بحال ہوتا جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کا حافظہ تعطّل کی ڈگر سے ہٹ کر بحالی کی راہ پر کب گامزن ہوتا ہے۔