انتخابات کو متنازعہ نہیں بننے دیں گے …نوازشریف میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’انتخابات کو متنازعہ نہیں بننے دیں گے‘‘ کیونکہ جن حلقوں نے انتخابات کو متنازعہ بنانے کی اجازت طلب کرنے کے لیے درخواست ہمیں دے رکھی ہے، نہایت غوروخوض کے بعد خاکسار نے فیصلہ کیا ہے کہ اس درخواست کو مسترد کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سندھ اور بلوچستان میں ملی بھگت سے نگران سیٹ اپ بنائے جانے پر سپریم کورٹ میں جائیں گے ‘‘ کیونکہ حکومت اور اپوزیشن میں اس طرح کے اتفاق رائے کو ملی بھگت نہیں تو اور کیا کہا جاسکتا ہے جیسا کہ ہم نے حکومت کے ساتھ اتفاق رائے پیدا ہی نہیں ہونے دیا کہ حکومت اسی درپردہ اتفاق رائے کو کافی سمجھے جو ہم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران حکومت سے کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ضروری نہیں کہ تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے جائیں‘‘ کیونکہ اتفاق صرف اتفاق سٹیل مل تک ہونا چاہیے جس میں ہمارے اقتدار میں آنے کے بعد اللہ میاں نے خاصی برکت ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم الیکشن میں دھاندلی برداشت نہیں کریں گے‘‘ اور ایسا احتجاجی بیان دیں گے کہ دنیا دیکھے گی، ہیں جی؟ انہوں کہا کہ ’’ہم نے نگران وزیراعظم کے لیے جو نام دیئے ہیں ان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ اور لوٹوں کو اپنی پارٹی میں شامل نہ کرنے کے بیان پر اگر ہم پیچھے ہٹ گئے تو اسی کو کافی سمجھنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’نگران وزیراعظم مقرر کرنے کا طریقہ موجود ہے‘‘ جس طرح ماشاء اللہ میں موجود ہوں لیکن رفتہ رفتہ نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا ہوں کیونکہ لوگوں کے بدلے ہوئے تیور اب صاف دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جس نے بھی آئین توڑا اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘‘ ماسوائے بزرگوار م ضیاء الحق کے جنہوں نے آئین کو توڑا لیکن نعم البدل کے طورپر قوم کی خدمت میں میرا تحفہ بھی پیش کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پرویز مشرف کو کسی نے ملک بدر نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی ملک سے باہر گئے‘‘ جس طرح ان کے ساتھ ڈیل کرکے میں باہر گیا تھا اور آخری دم تک اس ڈیل سے انکار کرتا رہا تاآنکہ یہ ڈیل کمبخت خود ہی منظر عام پر آگئی اور اس دروغ گوئی پر امید ہے کہ الیکشن کمیشن نوٹس نہیں لے گا کیونکہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا نوٹس لینا اس کے شایان شان ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ماضی میں کسی بھی جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا‘‘ اس لیے امید ہے کہ آئندہ اگر میری حکومت بنی تو اسے مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا جائے گا اور تاریخ اپنے آپ کو دہرانے سے گریز کرے گی ،اگرچہ آرمی چیف کے خلاف پنگے بازی میں نے ہی کی تھی کیونکہ اس سے پہلے میں دو آرمی چیفس کا گھونٹ بھر چکا تھا، لیکن یہ ذرا سخت جان نکلا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے فوج کی چھتری کے بغیر اپنی مدت پوری کی ہے‘‘ جس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ آرمی چیف کے ساتھ اس دوران کسی بے تکلفی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے بھی جمہوریت اور ملک کے مفاد میں پانچ سال بہت صبر کیا‘‘ اور اگر پنجاب حکومت ہمارے پاس نہ ہوتی تو صبر کا پیمانہ بہت پہلے لبریز ہوجانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اگر پاکستان دنیا میں تنہا نہ ہوتا تو کسی کو اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہ ہوتی‘‘ وہ تو شکر کریں کہ میں اس کے ساتھ تھا اور تنہائی کا اسے زیادہ احساس نہیں ہونے دیا ورنہ سرحدوں کی زیادہ خلاف ورزی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں گریبانوں میں بھی جھانکنا ہوگا‘‘ لیکن مجھے چونکہ تاک جھانک کی عادت نہیں ہے اس لیے مجھے اس سلسلے میں معذور سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات میں عوام اپنے ووٹ سے سیاستدانوں کا احتساب کریں گے‘‘ اسی لیے ہم نے احتساب بل پاس کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، تاہم یہ خطرہ موجود ہے کہ الیکشن میں عوام کہیں واقعی احتساب نہ کردیں؛ اگرچہ ان سے پوری پوری امید ہے کہ وہ حسب سابق درگزر سے کام لیں گے اور وضعداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بار پھر جملہ نیک نام سیاستدانوں کو ایک اور موقعہ ضرور دیں گے کیونکہ ابھی تک عوام کی خدمت سے ان کا جی نہیں بھرا، اگرچہ ان کے بینک کافی حد تک بھر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستانی قوم کا جو فیصلہ ہوگا وہ ہمیں بھی قبول ہے‘‘ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ ہمیں طوعاً و کرہاً ہی قبول کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن نہیں کرسکتا‘‘ کیونکہ جھوٹ ہمیشہ نہیں بولا جاسکتا اور اس میں وقفہ بھی ڈالتے رہنا چاہیے۔ اگرچہ سیاست سارے کا سارا جھوٹ کا ہی کاروبار ہے اور میں تو ویسے بھی کاروباری آدمی ہوں اور یہ ہرطرف ساری لہر بہر جونظر آرہی ہے، اقتدار اور کاروبارہی کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہرجگہ ملی بھگت کی جارہی ہے ‘‘ حالانکہ ہم نے جو اس ضمن میں حکومت کے ساتھ ملی بھگت کی ہے اور ظاہر میں جو اختلاف کیا جاتا ہے، اتنی بڑی ملی بھگت کے ہوتے ہوئے کہیں اور ملی بھگت کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’اچھے بھلے ماحول کو لوگ خراب کررہے ہیں ‘‘ حالانکہ لشکر جھنگوی تک ماحول کو ٹھیک رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور ہمارے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود حکومت سے غیرمشروط تعاون کیا‘‘ ماسوائے اس چھوٹی سی شرط کے کہ پنجاب میں ہماری حکومت کو نہ چھیڑا جائے، جیسا کہ ہم وفاقی حکومت کو نہیں چھیڑ رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آمریت اور مارشل لا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا‘‘ اگرچہ ضیاء الحق کے مارشل لا نے میرا مسئلہ ضرور حل کردیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا فرض ہے کہ الیکشن کمیشن کو متنازعہ نہ بننے دیں‘‘ اگرچہ سندھ اور بلوچستان میں ملی بھگت پر الیکشن کمیشن کی چشم پوشی نے اسے کافی حدتک متنازعہ بنادیا ہے، تاہم اسے مزید متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں گے بشرطیکہ وہ شفاف ہوں‘‘ تاہم جس الیکشن میں ہم کامیاب نہ ہوں اسے شفاف کیونکر کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سندھ اور بلوچستان میں فائول پلے ہورہا ہے ‘‘ حالانکہ جب میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا تو امپائر اپنی مرضی کا مقرر کرتا تھا جس سے فائول پلے کے سارے امکانات ختم ہوجاتے تھے۔ آپ اگلے روز رائیونڈ میں پارٹی اجلاس کی صدارت اور وفود سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ آج کا مقطع اس سے ہر صبح بنا لیتا ہوں مسواک، ظفرؔ رہ گیا ہے اب اسی کام کو خنجر میرا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved