ابھی تک کپتان عمران خان نے عوامی رابطہ مہم چلا رکھی تھی۔اس مہم کے دوران خان صاحب کو اپنی سیاسی پارٹی ‘ عوام تک لے کر جانے میں‘ انتھک محنت اور جدوجہد سے کام لینا پڑا۔عمران کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کرکٹ کے کھیل میں مشہور و معروف ہو گئے۔ ان کی شہرت اور نام اتنا بڑا تھا کہ بطور سیاست دان‘ انہیںعوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کافی مشکلوں سے دوچار ہونا پڑا۔ دو شعبوں میں بیک وقت شہرت اور مقبولیت حاصل کرنا بہت مشکل اور محنت طلب کام ہے۔انہوں نے بطور کرکٹر‘بائولر اور کپتان ‘عالمی شہرت حاصل کی ۔ یوں تو ان کے سکول فیلو‘ چودھری نثار قریبی دوست تھے۔ یہ دوستی آج بھی قائم ہے۔میں جب خان صاحب کو ملا تو ان کے قریبی دوست مشاہد حسین تھے۔جبکہ مشاہد کے بڑے بھائی‘ مواحد حسین عالمی سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے۔ آج بھی ان کی دلچسپی عالمی سیاست میں ہے۔جبکہ مشاہد حسین نے ابتدا میں عالمی سیاست میں دلچسپی لی اور پھر انہیں علم کے سمندر سے نکل کر‘ پاکستانی سیاست کی پائپ لائن میں داخل ہونا پڑا۔یہ فرق آج تک موجود ہے۔مشاہد حسین کے صحافیانہ ذوق وشوق کے رشتے سے‘ ان کے بھائی مواحد حسین سے راہ و رسم ہوئی‘ جو دوستی میں بدلتی گئی۔ یہاں تک کہ جب مسلم لیگ(ن) کی پہلی انتخابی مہم شروع کی گئی تو انگریزی کا شعبہ مواحد حسین نے سنبھالا اور اردو کا میں نے۔
مواحد حسین کی دوستی عمران خان سے تھی۔میرا ان دونوں بھائیوں سے مسلسل میل جول بڑھتا گیا۔اسی میل جول میںعمران خان سے راہ و رسم بڑھتی گئی۔اس وقت خان صاحب سے ہلکی پھلکی ملاقاتیں بھی رہیں۔ کرکٹ میں بطور قومی ہیروان کا میں‘ مداح بھی تھا ۔ وہ اپنے کھیل کا زمانہ ختم کر چکے تھے۔اورفل ٹائم سیاست میں''مبتلا‘‘ہوتے جارہے تھے۔ان دنوں عمران کرنٹ افیئر کے ساتھ ساتھ‘ قومی اور عالمی سیاست کا مطالعہ بھی کر رہے تھے اوران کے بہت سے پڑھے لکھے دوست‘ سیاست میںدلچسپی رکھتے تھے۔ اس طرح پاکستان کے سیاسی معاملات سے ان کا ''لگائو‘‘ زیادہ ہو گیا۔لاہور میںچودھری اعتزاز احسن‘ خان صاحب کے پڑوسی تھے۔د ونوں کے گیٹ آمنے سامنے رہے اور دونوں کا سکول بھی ایک تھا۔وہیں چودھری نثار بھی بطور طالب علم موجود تھے۔یہ تینوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور یہ رشتہ انسانی حوالوں سے تہہ در تہہ بڑھتا گیا۔اور آج بھی بڑھتا جا رہا ہے۔تینوں کی ذہنی پختگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تینوں زندگی کے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے‘ایک راستے پر آگئے۔ یہ رشتہ سیاست‘ انسانی زندگی اور طبقاتی دلچسپیوں کے ذریعے گہرا ہوتا چلا گیا۔یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ خان صاحب ایک کھلاڑی کے راستے سے ہوتے ہوئے‘ سیاسی لیڈر بن گئے۔ چودھری نثار علی
خان ایک فوجی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی رشتے داریوں کا دائرہ وسیع تھا۔ بڑے بھائی جنرل افتخار‘ پاک فوج کے سربراہ بن چلے تھے کہ چودھری نثار کی سیاست آڑے آگئی۔ وہ صف اول کے سیاسی لیڈروں میں شامل ہو گئے۔لیکن ان کے قریبی دوست نوازشریف سیاست کی سیڑھیاں‘ تیزی سے چڑھتے چڑھتے لیڈر بن گئے۔ان دنوں وہ اپنی لیڈر شپ کے مقام پرسنبھلنے اور قدم جمانے کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ اپنی بلندی پر قائم بھی رہیں اور جس مقام پر قدرت نے انہیں پہنچا دیا ہے‘اس پرمستحکم ہوتے جائیں۔ایک مرحلہ ایسا آیا‘ جب مجھے نوازشریف کے لئے تقریر نویسی کے مواقع بھی ملے‘ اسی دوران مجھے اندازہ ہوا کہ میاں صاحب اپنے بیٹی بیٹوں کو‘ نہ صرف سیاست کی تربیت دینا شروع کر چکے ہیں بلکہ ان کی ذہانت سے استفادہ کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ غالباً یہی موقع تھا‘ جب میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ''میاں صاحب اپنی سیاست کو بچوں سے دور رکھیں تو بہتر ہے‘‘۔ فی الحال تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔آگے جو اللہ کی مرضی۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ خان صاحب‘ کھیل کی زندگی میں بہترین اور کامیاب فاسٹ بائولر رہے۔ سیاست میں یقینا انہوں نے کوئی چھکا نہیں مارا۔وہ سیاست میں سنگل اور ڈبل کھیلتے رہے اور21برس کی مسلسل جدو جہد کے بعد‘اب وہ اپنے ملک میں صف اول کے سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی یہ حیثیت تو اہل سیاست میں ثابت ہو چکی ہے۔ اب سیاسی اور تجزیہ نگاروں کے حلقوں میں خان صاحب ‘باوقار اور پختہ سیاست دان بن چکے ہیں۔چند ہی مہینوںمیں انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔2013ء کے انتخابات میںانہوں نے‘ حیرت انگیز حد تک‘ زیادہ ووٹ حاصل کئے مگر ''سیاسی فنکاری‘‘کے ہاتھوں اپنے اکثریتی ووٹوںمیں کمی کے ماہرانہ حربے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔انہوں نے اپنے مخالف امیدواروں کے '' جھرلوئوں‘‘ سے کامیابی کو ناکامی میں بدلتے دیکھا۔ اپنی کامیابی قانونی راستوں سے واپس لینے کی محتاط کوشش کے لئے‘ قومی اسمبلی کی چار نشستوں کی دوبارہ گنتی کی خاطر‘ عدالتوں کی طرف رجوع کیا گیا۔باقی تین امیدوار تو سٹے آرڈر کی آڑ لے کر‘ وقت کا فائدہ اٹھاتے رہے‘ صرف لودھراں کی ایک نشست پرجہانگیر ترین کامیاب ٹھہر ے ۔ عمران خان کی پہلی بڑی انتخابی مہم کامیاب ہونے کے باوجود ‘درجنوں نشستیںنوسربازوں کے ہاتھ لگ گئیں۔ اس بار تو عمران خان کے ووٹ گزشتہ الیکشن سے بھی زیادہ ہوں گے لیکن انتظام صرف یہ کرنا ہو گا کہ نوسربازوں اور پتے لگانے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اتنی کڑی کہ ووٹوں کی گنتی کرتے وقت ‘ کاری گری دکھانے والے '' ہنر مند‘‘ کا ہاتھ ہی نہیں‘ گردن بھی دبوچ لی جائے۔