سنا ہے کہ قومی معاملات میںاگر ایک جرم پر سزا دے دی جائے تو پھر اسی کی مثل‘ دیگر جتنے مقدمات پر فیصلے ہوئے‘ تو پہلے فیصلے کے بعد‘تمام مقدمات میں فیصلہ وہی ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈرمیاں‘ نوازشریف کو جس دفعہ کے تحت کوئی سزا دے دی گئی تواس کے بعد‘ خواجہ آصف کے پاس کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے مقدمے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔سمجھ نہیںآتی کہ مسلم لیگ(ن) کے رہنما جو کہ وزیراعظم بھی تھے‘ وہ خود صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر‘تاحیات قومی اسمبلی میں اپنی نشست سے محروم ہو چکے ہیں۔جن دفعات کے تحت میاں صاحب کو سیاسی منصب‘قومی اسمبلی کی رکنیت اور حکمران جماعت کی سربراہی سے محروم کیا گیا‘اس میں کسی اور کو بھی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ابھی تک ان کے رہنما متعدد الزامات میں آرٹیکل62ون ایف‘ کے تحت دیگر سزائوں کے ساتھ ‘اپنے متعدد عہدوں سے محروم ہو کر مقدمات لڑ رہے ہیں۔میاں صاحب انہی میں سے ایک ہیں۔لیکن خواجہ آصف نے بھی گہرے پانی کی خونخوار لہر وں کو‘ بانہوں میں دبوچ کر آخری لمحے تک نہیں چھوڑا۔حالانکہ پورے سیالکوٹ اور ملک بھر میں تیزی سے پھیلتی پی ٹی آئی کو یقین تھا کہ خواجہ صاحب اس الزام کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔جیسے ہی انتخابی نتائج کا اعلان ہوا‘ خواجہ آصف اپنے اعمال سے بری الذمہ ہو کر قومی اسمبلی کی رکنیت بچانے میں جت گئے اور آخر کار (یعنی آج) ناکام رہے۔
جیسے ہی انتخابی نتائج کا اعلان ہوا۔خواجہ آصف کے خلاف دھاندلی کامقدمہ دائر کر دیا گیا۔ مقابلے میں عثمان ڈار تھا۔ان دونوں نوجوانوں یعنی عثمان اور عمر ڈار کے والد کاروباری شخصیت کے مالک تھے۔ لیکن کبھی کبھی انہیں سیاسی سرگرمیوں میں کودنے کا شوق اٹھتا۔ ہمارا مشترکہ شوق سیاحت تھا۔ایک امتیاز ڈارتھے۔ لیدر کی مصنوعات دنیا بھر میں برآمد کرتے ۔ یہ سارے بھائیوں کا مشترکہ کاروبار تھا۔ایک موقع آیا کہ بھائیوں نے کاروبار سے امتیاز ڈار کو الگ کر دیا۔امتیازڈار سرجھکا کر دوبارہ مارکیٹ میں چمڑے کی مصنوعات برآمد کرنے میں منہمک ہو گئے ۔ سیالکوٹ میں یہی دونوں بچے عثمان اور عمرڈار فیکٹری کی ذمہ داریاں سنبھال کر‘ عالمی میعار کی مصنوعات تیار کر کے‘ بیرونی منڈیوں میں بھجوا دیتے ۔ ان کے والد صاحب سیر بھی کرتے اور اپنی برآمدات کی قیمت وصول کر کے بنکوں کے ذریعے‘ بیٹوں کو بھیج د یتے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے باپ بیٹوں کی انتھک محنت کے نتیجے میں‘قدرت نے ان پر مہربانی کی ۔ کاروبار پہلے سے بھی زیادہ چمک گیا۔امتیازڈارصاحب جب مالی مسائل سے بے فکر ہو گئے تو پتہ نہیں کب سے؟ وہ لیڈری کا شوق لئے بیٹھے تھے ؟جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تو میں انہیں چودھری پرویز الہٰی کے پاس لے گیا ‘ جو اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔چودھری صاحب نے انہیں سیالکوٹ کے بلدیاتی ڈھانچے کا ایک بڑا عہدہ دے دیا۔ڈار صاحب کے دونوں چھوٹے بچے ابھی تک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔عثمان اور عمرڈارکاروبار کو پوری طرح سنبھال چکے ہیں۔جس طرح سیاست‘ خدمت خلق کا نام ہے۔ امتیاز ڈار بھی اپنے بلدیاتی عہدے کے ذریعے‘عوام کی حقیقی خدمت کرنے لگے۔پہلے وہ غریب غربا کی مدد کر دیتے۔ جب سیالکوٹ بلدیہ کی انتظامیہ میں‘ انہیں سیکریٹری خزانہ کی ذمہ داری ملی تو یہ کام ڈار صاحب کے مزاج کے مطابق تھا۔انہوں نے تھوڑے ہی عرصے بعد‘ شہر میں اپنی مقبولیت کو اتنا بڑھا لیا کہ ساری پارٹیوں کی طرف سے‘ انہیںبڑے بڑے عہدے پیش ہونے لگے مگر یہ درویش صفت انسان‘ ضرورت مند کی خدمات انجام دینے میں بے حد خوش تھا۔
جب لوکل باڈیز انتخابات آئے تو میں ان کی انتخابی مہم میں شریک نہ ہو سکا۔ وہ دن رات اپنی سیاست کرتے رہے اور میں لکھنے کی مزدوری میں پھنسا رہا۔بہر حال ڈارصاحب ہر ایک دو ہفتے کے بعدمجھ سے خصوصی ملاقات ضرور کرتے۔ سیالکوٹ سے سیدھے ڈیفنس لاہور میں‘ اپنے شاندار گھر میں قیام کرتے۔مجھے انہوں نے کبھی نہیں بتایا کہ یہ گھر ان کا ذاتی تھا یاکرائے پر لیاہوا؟
ان دونوں بچوں سے میرا عمر میں بہت فرق تھا۔میں ان کے والد کی عمر کا تھا۔امتیازڈار صاحب اپنی سیاسی دلچسپیوں میں مصروف ہو گئے۔ وہ بیمار رہنے لگے اور جب سفر مشکل ہو گیا تو پھر کبھی کبھار لاہور آتے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ وہ سیالکوٹ سے سیدھے میرے گھر آتے اور ایک دو گھنٹے کی بیٹھک لگا کر واپس چلے جاتے۔مجھے امتیاز ڈار صاحب کے دونوں بیٹوں کی ترقی دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے اور مزہ تو اس کا آیا کہ خواجہ آصف کی سیاست میںآمد بھی میرے سامنے ہوئی۔ میں چودھری پرویز الہٰی کے دفتر میں بیٹھا تھا ۔ اچانک ایک نوجوان کمرے میں داخل ہو کراس طرح کھڑا ہو
گیا‘ جیسے نویں اور دسویں کلاس کے طالب علم‘ ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں آتے ہیں۔ان کے والد خواجہ صفدر‘ درویش منش سیاست دان تھے ۔چودھری ظہور الہٰی کے گھرانے میں انہیںاپنا بزرگ ہی سمجھا جاتا۔ تعلقات کا یہی پس منظر تھا جب چودھریوں کے خاندان نے‘ خواجہ آصف کی سرپرستی کی اورغالباً یہیںسے خواجہ آصف کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔خواجہ صاحب سینیٹ کی سیٹ مانگنے آئے تھے۔اس کے بعد کافی عرصہ وہ‘ چودھری برادران سے منسلک رہے۔چودھری صاحبان کا گھرچھوڑ کر وہ دوسرے سیاسی گروپ میں چلے گئے۔امتیاز ڈار کے دونوں فرزند اپنے بل بوتے پر سیاست میں آئے اور فرمانبردار چھوٹے بھائیوں کی طرح‘ عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے ۔ خان صاحب تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔2013ء کے الیکشن میں عمران خان نے‘ عثمان ڈار کوسیالکوٹ شہر میںقومی اسمبلی کی ایک نشست پر امیدوار بنا دیا۔ سامنے خواجہ آصف کھڑے تھے۔یہ دونوں لڑکے عثمان ڈار اور عمر ڈار‘ بہت ہی فرمانبردار اور انسان دوست ہیں۔ خواجہ آصف نے عثمان ڈار کو‘ بچہ سمجھ کر کسی کھاتے میں نہ سمجھا۔حقیقت یہ تھی کہ امتیاز ڈار مرحوم نے دیانت داری کی جو سیاست کی‘ اس کی طرز دونوں بیٹوں کو وراثت میں ملی۔عثمان ڈار جو خواجہ آصف کے مقابل قومی اسمبلی کا امیدوار بنا‘ا صل میں جیت اس کی ہوئی۔لگتا یوں ہے کہ ایک مدت کے بعد پاکستان کو‘ عمران خان جیسا لیڈر نصیب ہوا۔ جو قومی اور عالمی سیاست کو بھی اچھی طرح سمجھتا ہے ۔ نصیب سب کا الگ الگ ہوتا ہے لیکن عمران خان کو طویل جدوجہد کے بعد ‘ خدا نے وہی مقبولیت عطا فرمائی‘ جو شروع میں ذوالفقار علی بھٹو کوملی۔