تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-04-2018

ماہنامہ ’’سپوتنک‘‘ میں اقتدار جاوید

اس جریدے میں عام طور پر کوئی نثری کتاب شائع کی جاتی ہے لیکن اس دفعہ اس میں ہمارے دوست اور ممتاز نظم گو اقتدار جاوید کی نظموں کے تازہ ترین مجموعے ''عین سر پہ ستارہ‘‘ شائع کی گئی ہے۔ اس کا ایک اہم حصہ شاعر کے ذاتی کوائف پر مشتمل ہے جو آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔ اس لیے درج ذیل ہیں:
نام : اقتدار جاوید
قلمی نام : اقتدار جاوید
تاریخ پیدائش: یکم نومبر 1959ء 
مقام : بادشاہ پور‘ ضلع گجرات (حال ضلع منڈی بہائوالدین)
تعلیم : ایم اے سیاسیات DA\\IBP 
ملازمت : زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ لاہور
تفصیل کتب
ناموجود:(نظمیں‘ غزلیں)2007ء 
میں سانس توڑتا ہوں (نظمیں)2010ء
متن در متن موت (جدید عربی نظموں کا ترجمہ (نظمیں) 2013ء
ایک اور دُنیا : (نظمیں)2014ء
عین سر پہ ستارہ (نظمیں) 2017ء
زیرترتیب؍زیرطبع
پیئو دی وار (وار) (پنجابی)
قلعہ وار (غزلیں) اردو
خودنوشت
ہیکل (نظمیں)
سراج قادری (حیاتی دے کُل کلام دا ویروا (پنجابی)
نیل نظمیں (طویل عربی نظموں کا ترجمہ)
سُنب رڑی تے بولیا (غزلاں)
مضامین (منیر نیازی کی پنجابی شاعری)
وزیرآغا کی غزلیں
فرخ یار کی نظمیں
ادبی دوست
ظفر اقبال‘ وزیر آغا‘ آغا امیر حسین‘ فرخ یار‘ نصیراحمد ناصر
بیعت : سراج قادری (سلسلہ قادریہ) سراخ
ایمان : حضور کریم ﷺ
محبت : حضرت علی ؓ ،بی بی فاطمہ الزہرہ
پسندیدہ فلسفی : رُوسو
پسندیدہ ناول نگار : گورکی‘وستوفسکی‘ اناطول فرانسس‘ پائیلو کوئیلو
پسندیدہ ادبی شخصیت : وزیر آغا
پسندیدہ شعراء : مایا اینجلو‘ بدر شاکر السیاب‘ اقبال ادونس (شام) ٹیگور‘ محمد فضولی بغدادی‘ ظفر اقبال‘ فرخ یار۔
انتساب وزیر آغا کے نام ہے
اس کے بعد شاعر کی کل 130 نظمیں شائع کی گئی ہیں۔ ذاتی کوائف کے ساتھ شاعر کی تصویر شائع کی گئی ہے ۔کچھ نظمیں پیش خدمت ہیں‘ سب سے پہلے پیش لفظ کے طور پر درج کی گئی بلاعنوان یہ خوبصورت نظم :
یہ دریا ہے؍یا تیرے شاعر کا سینہ ہے؍جس میں مہارنگ موتی ہے؍اس گہرے دریا پہ؍کیسے؍ستاروں کی جھلمل ہے؍کس دودھیا روشنی کی طربناک لرزش ہے؍اندھی‘ اندھیروں بھری گہری پاتال میں؍اک اُبھرتا ہوا؍کیسا مہتاب ہے؍ تیرے شاعر کے شفاف لفظوں کی صورت؍اُفق کے سیہ رنگ سینے سے؍باہر نکلنے کو؍مہتاب بے تاب ہے!!
ترسیل:میں کوئی شے دوبارہ نہیں لکھ رہا؍صرف دُہرا رہا ہوں؍کوئی پیش‘ جزم اور زیر اور زبر تک؍بدلنے نہیں جا رہا؍یہ حکایت قدیمی ہے؍یگ ریت کے دانوں کی طرح اڑتے ہیں؍لیکن؍حکایت کہ ذرہ برابر بھی تبدیل ہوتی نہیں؍اس حکایت کا سننا سنانا؍زمانے کو دھکا لگانا ہے؍ (زمانے کو آگے بڑھانا ہے)؍رسیا وہی لوگ ہیں اس حکایت کے؍جو؍ اس کا معنی نیا اخذ کرنے پہ قادر ہیں؍لذت سے بھرپور اُن کی طبع؍پھلوں سے بھری ٹوکری ہے حکایت؍حکایت وہ رنگلا کبوتر ہے؍جو پیڑ کے شاخچوں پر نہیں بیٹھتا؍مزاروں پر اُڑتا ہے؍لوگوں سے جُڑتا ہے؍دریا ہے کوئی کہ؍جس نے پہاڑوں کو اور سبز میدانوں کو چیرتے ڈیلٹے میں؍اُترنا ہے؍رنگوں کا معمورہ ہے یہ حکایت؍حکایت کا اک لفظ بھی جس کے اندر اُترتا ہے؍وہ اور رنگین ہوتا ہے؍رنگین تر ہونے والے کے اندر کوئی جین ہوتا ہے؍ جو کہ دوبارہ حکایت کی تشکیل کرتا ہے؍اور آنے والے زمانوں کی جانب حکایت کی ترسیل کرتا ہے!
یہ گھاٹ یہ سانس یہ دیومالا:دوگھاٹ ہیں /ایک دریا ہے؍اک پھانس ہے جو؍مرے باپ کے حلق سے نیچے اُتری نہیں تھی؍مرے حلق میں آ رُکی ہے؍ سمندر کا پانی زمانوں سے جاری ہے؍ساحل کی دہلیز صدیوں سے قائم ہے؍دائم ہے یہ گھاٹ‘ یہ سانس‘ یہ دیومالا؍جو زینے سے زینہ ملاتی ہے ؍ اس دیو مالا نے مجھ کو ملایا مرے باپ سے؍اور دکھایا مجھے؍شب کے کہرے میں سویا ہوا گھر؍بنایا مجھے؍صبح کاذب میں چُپ چاپ کھلتا ہوا پھول
صلیب:کہاں پہ وہ درخت ہے؍میں ماں کے ساتھ جا کر اس کو دیکھ لوں؍میں جان لوں؍کہ پنج آب کی زمینِ خشک پر؍اگا وہ کس طرح درخت ؍دیکھ لوں؍کہ کس سمے کی دھوپ میں بڑا ہوا؍کسی نے؍اشک بھر کے آنکھ میں لگا لیا؍کہ اس جگہ پہ خود اگ آیا تھا درخت وہ؍میں ماں کو کس طرح بتائوں گا؍کہ کٹ مروں گا حرمت قدیم پر؍میں من گیا ہوں‘ کس طرح اسے منائوں گا؍مٹا سکا/تو نظم مختنم کی لائنوں کو حذف کر سکوں گا؍ماں سے کہہ سکوں گا؍نظم مختنم کا اختتام وہ نہیں رہا؍کئی نشانیاں ظہور ہو چکیں؍بتائوں کس طرح اُسے؍کہ اس درخت سے میرا لگائو لازوال ہے؍مری طرح ہے پاک اس درخت کی جو چھال ہے؍میں اس کی گہری چھائوں‘ نرم پتوں‘ جال جیسے شاخچوں کا؍مدت مدید سے شکار ہوں؍لکیر/اس کے آس پاس کھینچ کر؍ اسے میں دھوپ سے بچائوں گا؍میں اس درخت کو عظیم ماں کے ساتھ مل کے؍چوم لوں؍کہ یہ درخت میرا ہم نصیب ہے؍کہ اس درخت میں چھپی مری صلیب ہے!!
آج کامقطع
ظفر‘ اس دل سے کوئی کام تو لینا ہی تھا ہم نے
یہی دیوار تھی جس کو سہارا کر رہے تھے ہم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved