صرف چند ہفتوں کے وقفے سے سیٹھ احمد سے میں ملنے آیا تھااور سچ تو یہ ہے کہ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ اتنے سے وقت میں وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ جب کہ اس سے پہلے وہ کامیابی اورقوت کا ایک جگمگاتا ہوااستعارہ تھا۔ جب کھانے کا وقت آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک ایک نوالہ وہ گن کے کھا رہا تھا ۔مجھے اس پہ ترس آیا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ کس چیز نے اس کا یہ حال کیا ہے ۔ اس نے کہا، میرے دوست میں میرنے والا ہوں بلکہ مرنے سے پہلے ہی مر چکا ہوں ۔ زندگی میں پہلی بار اس قدر مایوسی کی بات اس کے منہ سے میں نے سنی تھی ۔ پھر اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ اس نے کہا ، ایک اجنبی شخص میری زندگی میں بہار بن کے آیا تھا۔ وہ ایک ایسا شخص تھا، جس کے پاس مستقبل کا علم تھا۔ پہلی ملاقات میں اس نے سیٹھ سے یہ کہا تھا کہ جس گاڑی سے تم اترے ہو، اس کا لوہا ٹوٹنے والا ہے ۔اس نے کہا : یہ بات طے ہو چکی ہے ۔ اس کی باتیں ، اس کا انداز بہت عجیب تھا ۔ تین روز بعد اس گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا ۔ وہ صابن دانی کی طرح پچک کے رہ گئی ۔ سیٹھ احمد نے کلمہ ء شکر ادا کیا کہ اس وقت وہ اس میں سوار نہ تھا۔
وہ اس شخص کا احسان مند تھا لیکن اسے تو جیسے زمین کھا گئی تھی ۔ پھر ایک روز وہ اسے دوبارہ نظر آیا ۔ سیٹھ احمد اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لپکا۔ اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے یہ کہا : اس نے کہا :اس کمپنی سے سرمایہ نکال لو۔ یہ ڈوبنے والی ہے اور یہ بات طے ہو چکی ہے ۔ سیٹھ کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی ۔ اس سے تفصیلات پوچھنے کی کوشش کی۔ اس نے کہا : میرے پاس اتنا وقت نہیں ۔ یہ کمپنی ڈوب جائے گی ۔ یہ بات طے ہو چکی ہے ۔
جس شخص نے اسے موت سے بچایا تھا، اس کی بات وہ کیسے نہ مانتا ۔ اس نے اپنا سارا سرمایہ اس میں سے نکال لیا۔ چند ہفتے بعد اس کا زوال شروع ہوااور کچھ مہینوں میں وہ ڈوب کے رہ گئی ۔ یہ شخص ایک فرشتے کی طرح اس کی زندگی میں آیا تھا۔
گاہے سیٹھ احمد کو وہ نظر آتا رہا ۔ پہلے وہ اسے نقصان سے بچایا کرتا تھا۔ اب فائدے کی باتیں بھی بتانے لگا۔ سیٹھ احمد نے خود فیصلہ سازی ختم کر دی تھی ۔ وہ اندھے بہرے کی طرح اس کے احکامات پر عمل کرنے لگا تھا ۔ یہ وہ برس تھے، دنیا جب سیٹھ احمد کا عروج دیکھ رہی تھی ۔ اس پہ ہن برس رہا تھا۔ اسے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ صرف وہ اس شخص سے اتنا پوچھا کرتا کہ کیا طے پایا ہے ؟ اس کی جائیداد پھیلتی چلی جا رہی تھی ۔ بینکوں کے بینک دولت سے بھر چکے تھے ۔
یہ سلسلہ سات سال تک چلتا رہا ۔پھر ایک دن وہ سیٹھ کو ایک ویرانے میں ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت میں لے گیا۔ اس نے ایک کمرے کا قفل کھولا۔ اندر اناج کے کچھ تھیلے پڑے تھے۔ کچھ کیمیکل بھی ۔سیٹھ حیرت سے اس کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس نے کہا، یہ تمہارا رزق ہے ، باقی کا رزق جسے تم نے استعمال کرنا ہے ۔ اس کے بعد تم نے مر جانا ہے ۔
سیٹھ کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی ۔ یہ تو گنی چنی چند بوریاں تھیں۔ اس نے التجا کی کہ اس کا محسن ایسا مذاق نہ کرے ۔ ''یہ مذا ق نہیں ہے ‘‘اجنبی نے غصے سے کہا '' یہ تو طے ہو چکا ہے ‘‘
سیٹھ کے جسم سے جان نکل گئی ۔ آج تک ایسا نہ ہوا تھا کہ جس بات کو اجنبی نے طے شدہ قرار دیا ہو، کبھی وہ پوری نہ ہوئی ہو۔ اس نے شمار کرنا شروع کیا تو وہ کل 18تھیلے تھے ۔ اس نے پوچھا کہ ان اٹھارہ تھیلوں کے لیے تو نے مجھے امارت کی بلندیوں پر پہنچایا؟ بینکوں کے بینک میرے سرمایے سے بھرے ہیں ۔ میری زمین مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ہے ۔
اجنبی نے کہا : وہ تیرا مال نہیں ہے ۔ وہ تیری زمین نہیں ہے ۔اس زمین میں اگنے والا سارا اناج تیرا تونہیں ہے ۔ پھر اس نے جیب سے فہرستیں نکالنا شروع کیں۔ اس نے کہا کہ جو کچھ تو نے جمع کیا ہوا ہے ۔ اس سے 13ہزار پانچ سواٹھارہ بندوں کا رزق شامل ہے ۔ کچھ کو تیری موت کے فوراً بعد مل جائے گا، کچھ کو بعد میں ملتا رہے گا۔ اس میں تیری اولاد ،پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں ، ملازم ، دکان والے ، بینک والے ، ڈرائیور ، مالی سب شامل ہیں ۔زیادہ مال تیرے بیٹے شجاع کے ہاتھ آنا ہے لیکن شجاع نے 8سال بعد مر جانا ہے ۔ پھر آگے اس کی اولاد کو ملے گا۔ اٹھارہ لاکھ روپے تو مجتبیٰ نے لے جانے ہیں ۔
''مجتبیٰ کون ہے ؟ ‘‘رنجیدہ سیٹھ نے پوچھا: کینسر کا معالج۔ اس نے دبئی میں تیرا علاج کرنا ہے ۔ ''لیکن مجھے تو کینسر نہیں ‘‘۔ اس نے کہا '' ہے، تجھے کینسر ہے لیکن اس کا علم نہیں ہے ۔ یہ جو کیمیکل پڑا ہے ، یہ ادویات ہیں ، جو تو نے کھانی ہیں ۔اب کل سے علاج شروع کر ادینا لیکن 81دن ہی باقی بچے ہیں ۔ سب کچھ طے ہو چکا ہے ۔
سیٹھ نے کہا : میرے دوست یہ تو نے میرے ساتھ کیا کیا۔ ہر قدم پر نقصان سے بچاتے بچاتے ایک دن اچانک تو نے مجھے قبر میں دھکا دے دیا۔ تیرے مشوروں سے جو دولت میں نے کمائی ، اس کا مجھے کیا فائدہ ہوا؟ اس نے کہا :جو بھی پیدا ہوا ، اسے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ وہ مال تیرا نہیں ۔ وہ 13ہزار پانچ سو اٹھارہ بندوں کا مال ہے ۔
سیٹھ نے کہا : میری اولاد ۔ شجاع سے اسے بہت محبت تھی ۔ شجاع کے بیٹے کریم سے اس سے بھی زیادہ ۔ اس نے کہا : نہ شجاع تیرا ہے ، نہ کریم۔ تیرے دل میں ان کی محبت ڈالی گئی ہے تاکہ وہ تیرے مال سے فائدہ اٹھاتے رہیںوگرنہ تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ٹہر ، یہ دیکھ۔ اس نے سیٹھ احمد کے دل پہ ہاتھ رکھا۔ پھر اس نے کہا، اب سوچ شجاع اور کریم کے بارے میں ۔ سیٹھ کو ایسا لگا ، جیسے وہ اجنبیوں کے بارے میں سوچ رہا ہے بلکہ اسے یہ سوچ کر غصہ آنے لگا کہ اس کے مال کا ایک بڑا حصہ شجاع لے جائے گا ۔ پھر اجنبی نے دوبارہ دل پہ ہاتھ رکھا۔ شجاع اور کریم کی محبت لوٹ آئی ۔
سیٹھ احمد نے کہا: میں ایک ایک نوالہ گن کے کھا رہا ہوں ۔ پھر بھی صرف 6تھیلے باقی ہیں ۔ ہر چیز گن دی گئی ہے ۔ جس دانہ ء گندم کو میں نے کھانا ہے ۔ مٹی کے جس ذرے سے بنی ہوئی جس اینٹ والی جس عمارت میں مجھے سونا ہے ۔ تیل کا جو ذرہ میری گاڑی کے انجن میں جلنا ہے اور لوہے کے جس ذرے سے یہ گاڑی بنی ہے۔ یہ دنیاتو ایک سرائے ہے ، انسان کو جس سے گزرکر ایک منزل تک پہنچنا ہوتاہے لیکن وہ بیچ میں ہی کھیل تماشے میں مگن ہو جاتاہے ۔
پھر اس نے کہا : وہاں کمرے ہی کمرے تھے۔وہاں سب کے تھیلے گن کر رکھ دیے گئے تھے ۔اس سے پہلے کہ وہ مجھے میرے تھیلوں کے بارے میں بتاتا ، میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ میں موت سے پہلے مرنا نہیں چاہتا تھا۔