یہ آئینی ترمیم کرنے والے کون لوگ تھے؟ جب نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے تصور کو آئین کا حصہ بنایا جا رہا تھا‘ تو اس کے حق میں ووٹ دینے والے کون تھے؟ نگران حکومتوں کا عظیم خیال‘ پیش کرنے والے کون تھے؟ پلٹ کر دیکھئے تو یہ وہی تھے‘ جنہوں نے نگرانوں کی مٹی پلید کر کے رکھ دی۔ کل جب میں یہ لکھ رہا تھا کہ نگران وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کے لئے جن شخصیتوں کے نام تجویز کئے جا رہے ہیں‘ وہ مجھے قابلِ رحم نظر آتی ہیں‘ تو مجھے اندازہ ضرور تھا کہ ان سب کی کردار کشی کے بعد آخر کار انہیں‘ دفتری مخلوق کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔مگر اتنا بھی اندازہ نہیں تھا کہ واقعی ایسا ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ آخر کار 18 کروڑ عوام کا منتخب کیا ہوا نمائندہ ادارہ ہوتا ہے۔ اس میں قوم کے بہترین اذہان اور شخصیتیں بیٹھی ہوتی ہیں۔ جنہیں آئینی ترامیم اور قانون سازی کا اختیار دیا جاتا ہے اور جو فیصلہ پارلیمنٹ میں ہوتا ہے‘ وہ ملک اور قوم کی تقدیر کو بنابھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ جب نگران حکومتوں کے تصور کو آئین میں شامل کیا گیا‘ تو ہم سب کا خیال تھا کہ پاکستانی سیاست کو قبائلی تعصبات‘ ہٹ دھرمی اور ضد کی روایتی بیماریوں سے نجات دلا کر مہذب طرز سیاست کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ کتنا خوبصورت خیال تھا کہ آئندہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں اتفاق رائے سے نگران حکومتیں قائم کریں گے‘ جو ہر لحاظ سے غیرجانبدار ہوں گی۔ حکومتوں کی سربراہی پاکستان کے 18 کروڑ عوام میں سے چنے گئے اور آزمودہ لوگ کریں گے۔ ان کی اہلیت‘ دیانت اور غیر جانبداری پر کسی کو شک نہ ہوگا اور اتفاق رائے سے چنے گئے نگران حکومتوں کے سربراہ ‘ سب کے لئے قابل احترام ہوں گے‘ قابل عزت ہوں گے اور ان کی دیانت و امانت پر پورے ملک میں کوئی بھی شک نہیں کر سکے گا۔ کیا اتفاق رائے سے نگران حکومتوں کے تصور میں کسی بھی طرح کی خرابی نظر آتی ہے؟ سچی بات ہے‘ اہلِ نظر نے شروع میں ہی یہ خرابی دیکھ لی تھی۔ وہ کیا کہتے تھے؟ وہ یہ کہتے تھے کہ نگران حکومتوں کا سہارا وہ لیتے ہیں‘ جنہیں اپنے آپ پر شک ہو۔ جو یہ سوچتے ہوں کہ ہمارے اندر غیرجانبدارانہ انتظامیہ چلانے کی صلاحیت نہیں۔ ہم ڈنڈی مار سکتے ہیں۔ ہم دیانتداری سے کام نہیں لے سکتے۔ ہم اپنے مخالفین کو انتظامیہ کی طاقت سے زیرکرنے سے باز نہیں آ سکتے۔ اگر اعترافات کی کیفیت یہی تھی‘ اگر اپنے آپ پر بے اعتباری کا حال یہی تھا‘ اگر اپنے آپ پر بھروسے کی کیفیت یہی تھی‘ تو پھر یہ نتیجہ نکالنا ہر لحاظ سے منطقی اور قابلِ فہم تھا۔ جن لوگوں کو اپنے آپ سے ایمانداری اور دیانت کی امید نہ ہو‘ وہ اسی طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کیا کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو انتظامی ذمہ داریاں سونپی جائیں‘ ان کے پاس بے ایمانی یا جانبداری کی گنجائش ہی نہ رہے۔ اتفاق رائے سے تیسرے فریق کو ذمہ داری دینے کا‘ یہی جواز ہوتا ہے۔ جن ملکوں میں اقتدار کے کھلاڑی اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے پر بھروسہ بھی ہوتا ہے کہ وہ حکومت میں رہ کر غیرجانبدارانہ انتخابات کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ انہیں ایسے انتظامات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ دنیا کی تمام مثالی جمہوریتوں کے طریقہ کار کا جائزہ لے کر دیکھ لیں‘ بیشتر ملکوں میں برسرِاقتدار حکومت ہی انتخابی عمل کی نگرانی کرتی ہے۔ بھارت کی مثال دینا اچھا نہیں لگتا۔ مگر کیا کریں؟ ہمارے پڑوس میںسب سے بڑی جمہوریت وہیں پائی جاتی ہے۔ دشمنی برطرف۔ بھارت کے سیاستدان اپنے عوام کے ساتھ جو رشتہ رکھتے ہیں‘ وہ ہمارے سیاستدانوں نے اپنے عوام سے استوار نہیں کیا اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد‘ اخلاق اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کا رشتہ بھی نہیں بنایا۔ ورنہ بھارت والوں میں ایسی کیا امتیازی خصوصیت ہے کہ ان کے ہاں انتخابات کے لئے نگران حکومت کی ضرورت آج تک محسوس نہیں کی گئی؟ وہاں پیشہ ورانہ اخلاقیات پر یقین کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی حزب اختلاف نے یہ نہیں کہا کہ برسرِاقتدار حکومت کو انتخابی عمل کی نگرانی کرنے کا حق نہیں۔ امریکہ میں بھی برسرِمنصب صدر کے دورِاقتدار میں ‘ انتخابات ہوتے ہیں۔ یہی کیفیت برطانیہ میں ہے۔ فرانس میں ہے۔ اٹلی میں ہے۔ آسٹریلیا میں ہے۔ جرمنی میں ہے۔ کس کس جمہوری ملک کا نام لوں؟ جمہوریت ایک مہذب طرزِ سیاست کو جنم دیتی ہے اور جب آپ جمہوریت کو اپنا لیتے ہیں‘ تو پھر بے اصولی اور بددیانتی کی خرابیوں سے نکل کر ‘ پیشہ ورانہ اصول پرستی ‘ اختیار کر لیتے ہیں اور سیاست کا پہلا پیشہ ورانہ اصول یہ ہے کہ جب عوام سے مینڈیٹ لینے کے لئے انتخابات کا انعقاد کیا جائے‘ تو جو پارٹی بھی برسراقتدار ہو‘ وہ عوام کی مرضی کو مسخ کرنے کے گناہ سے حتی الامکان اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ یہ جو ہم نے نگران حکومت کا ٹوٹکا دریافت کیا ہے‘ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو نہ تو اپنے آپ پر اعتبار ہے اور نہ ایک دوسرے پر۔ ان کا طرزِعمل ان چوروں جیسا ہے‘ جو چوری کے مال کی تقسیم کرتے وقت بھی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اور پھر یہ سارے چورمل کر‘ فیصلہ کر لیں کہ ہم مل جل کر ایک ایسا منصف منتخب کریں گے‘ جو سب کو انصاف دے سکے۔ اس میں لطیفہ یہ ہے کہ جب چور‘ خود ہی منصف کا انتخاب کریں گے‘ تو وہ دیانتدار کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر چور اپنی اپنی پسند کا بندہ ڈھونڈ کر کہے گا کہ’’ اسے منصف بنایا جائے۔‘‘ چوروں کا چنا ہوا منصف غیرجانبدار کیسے ہو سکتا ہے؟ جھگڑا ہونا لازم ہے۔ جو کہ ہو کر رہتا ہے۔ چوروں کے باہمی رشتے جوں کے توں رہتے ہیں۔ نہ ان کی عملی زندگی میں انصاف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی منصفانہ انتظام پر متفق ہو سکتے ہیں۔ یہی کچھ تو ہم کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے سیاستدانوں کو خود پر اور اپنے حریفوں پر بھروسہ ہو‘ تو نگران حکومت کا پنگا لینے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ پنگا تو اسی خیال کے تحت لیا گیا کہ ہم یا ہمارا حریف‘ منصفانہ انتخابات کرانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ ہم ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم اتفاق رائے سے انتخابات کی خاطر ایک غیرجانبدارانہ اتھارٹی قائم کریں اور وہ ہمارے لئے منصفانہ انتخابات کا انتظام کرے۔ لیکن انتخابات کرانے کے لئے جو چیف الیکشن کمشنر ہو‘ اسے بھی ہم باہمی اتفاق رائے سے منتخب کریں۔ وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں بھی ہم اتفاق رائے سے قائم کریں اور اس اتفاق رائے کا اختیار‘ قائدِ ایوان اور قائدِ حزب اختلاف کو دے دیا جائے۔ دیکھنے میں کیسا شاندار انتظام ہے؟ لیکن چوروں کے مابین ‘ اتفاق رائے سے منصفانہ نظام لایا کیسے جا سکتا ہے؟ نہ کبھی ایسا ہو گا۔ نہ ایسا ہو سکتا ہے۔ نہ ہو رہا ہے۔ ایک فریق اپنے بندے پیش کر کے کہتا ہے کہ انہیں منصف مان لو اور دوسرا فریق اپنے بندے سامنے لا کر اصرار کرتا ہے کہ انہیں منصف تسلیم کرو اور دونوں اصرار کرتے ہیں کہ ہمارے حامی کو غیرجانبدار مان کر انتخابات کا نگران بنا دو۔ ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں تھا اور ممکن نہیں ہوا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے پیش کردہ نامزدگان کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ ان کی ایسی کردارکشی کی گئی کہ مجھے بھی سارے نامزدگان پر رحم آنے لگا۔ وہ بیچارے آرام سے گھروں میںبیٹھے سکون کی زندگی گزار رہے تھے کہ انہیں اچانک میدانِ اقتدار میں دھکا دیتے ہوئے‘ اعلیٰ عہدوں کے لئے نامزد کر دیا گیا اور پھر وہی ہوا‘ جو لاہور کے ایک قدیم محلے کی عورتیں‘ آپس کی لڑائی میں‘ گلی سے گزرنے والے ایک راہ گیر کو ہدف بنا کر اس کے ساتھ کرتی ہیں اور اس بیچارے کو سمجھ نہیں آتی کہ ایک دوسرے کی لڑائی میں‘ معزز خواتین نے اسے ہدفِ دشنام کیوں بنا لیا ہے؟ اگر ہمارے ملک میں عزتِ نفس نام کی کوئی چیز ہوتی‘ تو اپنے بارے میں دونوں سیاسی فریقوں کے الزامات دیکھ کر‘ نامزدگان خود ہی توبہ کر لیتے اور التجا کرتے کہ ہم اس عزت افزائی کے قابل نہیں۔ آپ ہمیں اپنا امیدوار بنانے کے اعزاز سے محروم ہی رکھیں تو اچھا ہے۔ لیکن یہ پاکستان ہے پیارے۔ جسے نگران وزیراعظم بنایا جائے گا‘ اس کے بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے اسے مسترد کر کے دفتریوں کے برآمدے میں دھکیل دیا ہے۔ دفتری جس کو بھی چنیں گے‘ وہ دونوں بڑے سیاسی فریقوں کا مسترد کیا ہوا شخص ہو گا۔ اسے ہم نگران وزیراعظم کہیں گے۔ حقیقت میں اس کی نامزدگی‘ ایک پارٹی نے کی ہو گی یا دوسری نے۔ وہ جو بھی ہو گا کسی ایک پارٹی کا ہو گا۔اگر یہی ہونا تھا‘ تو آئینی ترمیم کی کیا ضرورت تھی؟ بہتر ہوتا کہ برسراقتدار حکومت کو ہی انتخابات کی نگرانی کا اختیار دے دیا جاتا اور کچھ نہیں تو وہ اخلاقی طور پر ہی غیرجانبدار رہنے کی کوشش کرتی۔ جس طرح ہم نگران کو چن رہے ہیں‘ ایسے نگران پرتو اخلاقی پابندی نہیں ہو گی ۔ کوئی بھی صاحبِ فہم ایسے الیکشن کے نتائج پر یقین نہیں کر پائے گا۔اس الیکشن کی ترکیب میں ہی مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved