تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     24-03-2013

بڑھکیں ہی بڑھکیں

حسب وعدہ انیس (19) سال پرانا کالم پیشِ خدمت ہے جو 18 جنوری 1994ء کو شائع ہوا تھا۔ بدقسمتی کی انتہا ملاحظہ ہوکہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 19 سال پہلے کھڑے تھے منیر نیازی سچ کہتے ہیں منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ خدا کرے آئندہ الیکشن میں پاکستان ہر آسیب سے نجات پاسکے اور عوام کو ’’تبدیلی‘‘ نصیب ہو۔کالم نوشِ جاں فرمائیں:۔ ’’کھلوتا رئیں اوئے مظلوما! میں انصاف نوں تیری دہلیز تے لمیا پادیاں گا۔‘‘ ’’آئومیرے نال! کرپشن دا کریا کرم کردیاں گے۔‘‘ ’’غم نہ کر اوئے بے روزگارا! تینوں بے روزگاری الائونس ملے گا۔‘‘ ٭ ’’ چپ کر جا کڑیئے! بیت المال ترا جہیز لے کے ٹرپیا ای۔‘‘ ’’تگڑا ہوجا اوئے رشوت خورا! سوں رب دی۔۔۔ میں تیرے کولوں ایک ایک کوٹھی، اک اک فیکٹری تے اک اک کروڑ دا حساب لواں گا۔‘‘ ’’لوڈشیڈنگ دیاں وکھیاں بھن دیاں گے۔‘‘ ’’گھوڑیاں تے کاٹھیاں پالوئو تے لینڈ کروزراں تے جھنڈے سجالوئو‘ جوانو! اکیویں صدی نوں چک کے لے آواں گے۔‘‘ ’’بچ نی غربتے‘ جہالتے تے بیماریئے۔۔۔ تہانوں نچا نچا تے ہفا ہفا کے مکادیاں گے۔‘‘ ’’سن لے اوئے جاگیردارا! تیرا جڑیا ہویا پنڈا وکھو وکھ کردیاں گے۔‘‘ ’’تگڑا ہوجا اوئے تھانیدارا! نوے دن دے اندر اندر توں بندہ ناں بنیا تے۔۔۔ اک تے میں آپ شینہ، اتوں چودھریاں دا پتر۔‘‘ ’’توں وی سن لے اوئے ٹیکس چورا! تیری لاش نوں وی مچھیاں ای کھان گئیاں۔‘‘ ’’کن کھول کے سن لے جیلر! قیدیاں دا مال کھادا یا ظلم کیتا تے میں اخیر کردیاں گا۔۔۔ ہنیر پا دیاں گا اوئے۔‘‘ ’’سن لے اوئے بل کلنٹنا تے جان میجرا! اسیں اپنے پیراں تے کھلوگئے آں۔‘‘ ’’بار نکل اُوئے نرسیمیا! توں کشمیر اچ ات چکی ہوئی اے‘ تے میں تیرا مکو ٹھپ دیاں گا۔‘‘ ’’سن لوئو اوئے نادہندیو تے درندیو! میں تہانوں نتھ پادیاں گا۔‘‘ سچ سچ بتائیں۔۔۔ کیا آپ کو یہ ساری باتیں‘ یہ ساری بڑھکیں سنی سنائی نہیں لگتیں بلکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی میری طرح یہ سب کچھ ازبر ہوگیا ہوگا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ گنتی کے چند لوگ‘ گنتی کی چند باتیں کئے جارہے ہیں‘ چند مخصوص بڑھکیں لگائے جارہے ہیں۔ نہ ایکٹر بدلے ہیں‘ نہ سکرپٹ بدلا ہے اور نہ ہی ’’سچویشن‘‘ میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے۔ ہر طرف مولا جٹوں اور نوری نتوں کا زور شور ہے۔ سارے مولے جٹ اور نوری نت یہ ساری گھسی پٹی باتیں اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں اصل مسائل کا اچھی طرح علم ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ سستے انصاف کے بغیر اور پولیس تشدد کے ساتھ۔۔۔ ڈگری کے ساتھ اور روزگار کے بغیر کیا گزرتی ہے؟ کیا بھائو پڑتی ہے اور انہیں یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ انہوں نے کرنا کرانا کچھ نہیں یا شاید انہیں یہ یقین ہوتا ہوکہ ہونا ہوانا کچھ نہیں تو پھر یہ باتیں کیوں کرتے ہیں؟؟؟ یہ لوریاں اور تھپکیاں ہیں۔ سوجا راج دلارے سوجا!!! سوجا ظلم کے مارے سوجا۔ سوجا بھوک کے مارے سوجا۔ سوجا۔۔۔سوجا۔۔۔سوجا۔۔۔سوجا۔ امیدیں کھائو اور آسیں پہنو۔۔۔شاید یہی کچھ کردے‘ شاید یہ کچھ کر گزرے‘ شاید یہی سچا ہو‘ شاید یہی سنجیدہ ہو لیکن یقین کریں اگر کوئی اچھا‘ سچا اور سنجیدہ ہوگا بھی۔۔۔ تب بھی کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ان حالات میں کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک ہی طبقے‘ مزاج اور موڈ کے لوگ آمنے سامنے‘ اقتدار اور اختلاف میں ہوتے ہیں جن کے درمیان ایک خاموش سمجھوتہ خاموشی سے چل رہا ہوتا ہے‘ ان کے درمیان ایک ان لکھا معاہدہ ہوتا ہے کہ جتنی بھی لڑائی ہو زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کی ٹانگوں بلکہ گٹوں تک رہیں گے‘ آگے نہیں جائیں گے۔۔۔ ورنہ اتنے سال ہوگئے‘ اتنے حکمران گزر گئے‘ احتساب کے اتنے شور اٹھے‘ کبھی کسی کا احتساب بھی ہوا؟ حساب بھی ہوا؟ ’’چور ہیں‘ چور ہیں‘‘ کا کتنا شور مچتا ہے۔۔۔کبھی چوروں‘ڈاکوئوں اور لٹیروں کا کوئی گروہ پکڑا بھی گیا؟ بتائیں کبھی اس ملک کی تاریخ میں کوئی ایک راشی افسر پکڑا گیا ہو؟ جب خبر آتی ہے کسی منشی، اہلکار، پٹواری یا کانسٹیبل کی رشوت خوری کی آتی ہے۔ آج تک کبھی کوئی ایک مچھندر یا مگر مچھ نہیں پکڑاگیا اور محکمہ انسداد رشوت ستانی بھی چل رہا ہے۔ ایجنسیاں در ایجنسیاں موجود ہیں لیکن یہ سب اشک شوئی ہے ورنہ کوئی تو ان کی Output کا حساب بھی لگاتا۔ اوپر سے نیچے تک۔۔۔ دائیں سے بائیں تک یہ ایک مکمل طور پر کرپٹ نظام ہے جس میں کبھی کبھار دکھاوے کے لیے پیچ ورک کیا جاتا ہے۔ لباس چند جگہ سے تار تار ہوتو رفوگری ہوسکتی ہے لیکن لیروں کے ڈھیر کو سینا اور بوسیدہ چیتھڑوں کی رفوگری کرنا تو دھاگے اور آنکھوں کا زیاں ہے۔۔۔ جو اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کوئی اسے مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ہمت‘ جرأت اور ذہانت نہ رکھتا ہو۔ تب تک بیانوں پر زندہ رہیں۔ اور بڑھکیں سن سن کر بغلیں بجائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved