یہ بات اپنی جگہ ایک لطیفہ معلوم ہوتی ہے کہ جس حکومت کی عمر محض ایک ماہ رہ گئی ہے، جسے آئندہ ماہ کی آخری تاریخ کو رخصت ہو جانا ہے، وہ پورے سال کا بجٹ پیش کر گزری ہے، لیکن پاکستانی سیاست میں اس طرح کے لطائف سرزد ہوتے رہتے ہیں، اس لیے اس پر شاہ محمود قریشی اور (ان کے بالکے) مراد سعید کو ''کچیچیاں‘‘ وٹنے، غصہ کھانے، بازو چڑھانے یا چڑھ دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، انہیں بھی مسکراتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کر دینا چاہیے کہ تین سو بیالیس کے ایوان میں تیس عدد جیالے جو بھی منطق بگھار رہے ہوں، وہ عملاً بے وزن قرار پاتی ہے کہ جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں، بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ تولنے کا معاملہ ہوتا تو گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ہو جانے والے شاہ محمود قریشی ہی کافی تھے۔ وہ ماشاء اللہ مخدوم بہائوالحق زکریا ملتانی کے باقاعدہ سجادہ نشین ہیں، اور ان کے روحانی بوجھ کے ساتھ ساتھ اگر وہاں سے ملنے والے نقد نذرانوں کے جسمانی بوجھ کو یکجا کر دیا جائے تو سینکڑوں ارکان ہلکے پڑ جائیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نہ صرف بجٹ پیش کر دیا، بلکہ اس کے پیش کار مفتاح اسماعیل کو سینیٹر یا رکن قومی اسمبلی ہوئے بغیر وزارت کا تاج بھی پہنا دیا۔ اس پر میرے جیسے ''دستوریے‘‘ بھی چونکے بغیر نہ رہ سکے، لیکن جب برادرم عرفان صدیقی نے دستور کی دفعہ 91 پڑھ کر سنائی تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ سمجھا یہی جا رہا تھا کہ یہ شق ساقط ہو چکی ہے۔ 1956ء کے دستور اور اس سے پہلے نافذ 1935ء کے ایکٹ سے برآمد شدہ عبوری دستور کے مطابق تو اسمبلی کا رکن ہوئے بغیر وزیر اعظم بھی بنایا جا سکتا تھا، بشرطیکہ چھ مہینے کے اندر اندر رکنیت کا انتخاب لڑ لیا جائے۔ اول اول تو قومی اسمبلی (دستوریہ) صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے منتخب ہوتی تھی، اس لیے کوئی بھی نشست خالی کرا کر کسی بھی شخص کو منتخب کرایا جا سکتا تھا۔ مسلم لیگ ہائی کمان کا سکّہ بلا شرکت غیرے چل رہا تھا۔ لیکن بعد میں یہ دروازہ بند کر دیا گیا، 1973ء کے دستور کے تحت وزیر اعظم کو قومی اسمبلی باقاعدہ منتخب کرتی تھی۔ یوں وزیر اعظم کی نامزدگی میں صدر کا عمل دخل بھی سو فیصد ختم کر دیا گیا۔ لیکن غیر منتخب شخص کو چھ ماہ کے لئے وزیر بنانے کی اجازت ابھی تک موجود ہے۔ یہ اور بات کہ اس سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ دستور نے مقررہ تعداد میں مشیر مقرر کرنے کی جو سہولت دے رکھی ہے، اس سے فائدہ اٹھا کر ٹیکنوکریٹ حضرات مشیر بنا کر خزانے (اور خارجی امور) کے انچارج بنائے جاتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایک دور میں وی اے جعفری اسی طرح وزارت خزانہ کے انچارج مقرر ہوئے تھے۔ وزیر اعظم عباسی نے پہلی بار غیر منتخب وزیر مقرر کرنے کا تجربہ کیا کہ اب تو حکومت کی مدت ایک ماہ رہ گئی ہے، مفتاح اسماعیل کو کسی انتخابی تجربے سے گزرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ وہ اپنا نام تاریخ میں لکھوا کر فاتحانہ اپنے حریفوں کو تاکتے رہیں گے۔
قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے یہ کہہ کہ سورج کو چراغ دکھانے کی کوشش کی کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنا ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ جھٹلا دیا ہے۔ ایک غیر منتخب شخص کو بجٹ پیش کرتے دیکھنا، خورشید شاہی کو منظور نہیں تھا، اس لیے وہ واک آئوٹ کر گئے، حالانکہ جس دستور نے شاہ صاحب کو ایوان میں داخلے کا حق عطا کیا ہے، اُسی نے مفتاح اسماعیل پر بھی دروازہ کھولا تھا، اس لیے ان پر اعتراض بے معنی، بلکہ لا یعنی تھا۔
مفتاح اسماعیل نے دھڑلے سے اپنا بجٹ پیش کر دیا، اس کے ذریعے تنخواہ یافتہ اور کاروباری طبقے کو بیک وقت مٹھی میں کر لیا۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے ساتھ ساتھ 12 لاکھ روپے تک کی تنخواہ کو ٹیکس فری کرنے کا جو مژدہ سنایا گیا اس نے تنخواہ پر گزارہ کرنے والوںکی آمدن میں بھرپور اضافہ کر دیا۔ اس مجبور و مقہور طبقے کی ایسی شنوائی شاید ہی پہلے کبھی دیکھنے میں آئی ہو، کاروباری طبقوں کے لیے بھی ٹیکس اور مراعات کی مد میں خوشی کا ڈھیروں سامان موجود تھا۔ اسحاق ڈار سے نالاں کاروباریوں نے نہ صرف اطمینان کا سانس لیا، بلکہ کہیں کہیں تالیاں بھی بجا دیں۔ بلا شبہ یہ ایک انتخابی کرشماتی بجٹ ہے، جس نے اَن گنت لوگوں کے بوجھ میں کمی کی ہے۔
بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے، حکومت کے حامی اور مخالف اس میں سے اپنے مطلب کا لوازمہ نکال کر اپنے اپنے حلقوں کو ہنساتے اور ڈراتے رہتے ہیں، لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ معیشت کی شرح نمو 5.8 فیصد رہی، اور اسے تیرہ سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح قرار دیا جا رہا ہے۔ قرضوں میں اضافے کا رونا بآواز بلند رویا جا سکتا ہے، لیکن جی ڈی پی کے تناسب سے یہ 60 فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ مقدار میں اضافے کے باوجود تناسب کے لحاظ سے کمی ہوئی ہے کہ ایک لاکھ کی آمدنی والے پر اگر بیس ہزار کا قرض ہو تو دو لاکھ کی آمدنی پر تیس ہزار کے قرض کو بوجھ میں اضافے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
ہماری معیشت کا سب سے بڑا چیلنج برآمدات میں اضافہ ہے، جب تک ایسا نہیں ہو گا اور بیرونی سرمایہ کاری میں بھی تیزی نہیں آئے گی، ہمارے زرِ مبادلہ پر دبائو برقرار رہے گا، مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ ڈالر کی قدر میں کمی سے برآمدات میں اضافے کا دروازہ کھل گیا ہے اور عنقریب کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ حد میں آ جائے گا۔ خدا کرے، ایسا ہی ہو، لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ معیشت کو پھلنے پھولنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر پالیسیوں میں تسلسل نہ رہے، بے یقینی کے سائے منڈلاتے رہیں، چور دروازوں سے تبدیلی کے خواب دیکھنے والے دندناتے پائے جائیں تو پھر ترقی کا خواب بھی ادھورا رہے گا... پٹڑی اکھاڑ کر، گاڑی الٹائی تو جا سکتی ہے، چلائی نہیں جا سکتی۔
خواجہ آصف کی نااہلی
وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نااہلی نے مسلم لیگ نون کو ایک اور صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ اگرچہ وہ اور ان کے رفیقِ سیاست منشااللہ بٹ مطمئن ہیں کہ ردِ عمل ان کے حق میں ہو گا‘ اور وہ شخص با آسانی ان کی جگہ منتخب ہو جائے گا‘ جس کے سر پر ان کا سایہ ہو گا کہ وہ اب ہما بن چکے ہیں۔ عثمان ڈار اپنی جگہ گرج رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے راستے کا ہمالہ پاش پاش ہو چکا‘ اب سیالکوٹ کے عوام کو ان سے دل بہلانا ہو گا۔ نتیجہ جو بھی ہو‘ پاکستانی سیاست کے ساتھ کوئی اچھا معاملہ نہیں ہو رہا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے بھی اپنے بقول فیصلہ بوجھل دل سے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کو اپنے ارکان کے اوصاف و شرائط خود طے کرنے چاہئیں۔ گویا انہیں عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑنا بھی ایک طرح کی بے رحمی ہے۔ عدالت عالیہ کے یہ ریمارکس توجہ طلب ہیں‘ لیکن یہ عرض کرنا بھی غلط نہ ہو گا کہ نااہلی کو تاحیات بنا کر معاملات کو پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ اہلِ سیاست کو اس طرح ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے‘ جس میں دروازہ تو کجا کھڑکی کھولنا بھی ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ نہ وہ ایک دوسرے کو معاف کریں گے‘ اور نہ ہی تاریخ ان کو معاف کرے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)