تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-04-2018

لیاقت پوسٹ تک

گیارہ ستمبر 2017ء کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہیڈ کوارٹر گاندھی نگر میں بھارت کی وزیر دفاع نرملا سدھارتھ نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا: سرکریک چونکہ گجرات جیسی اہم ترین سرحدوں سے منسلک ہے اس لئے ہم نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ بی جے پی گجرات کی سکیورٹی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ بھارتی وزیر دفاع نرملا نے اس وقت کہا تھا: میں سرکریک کے ان اہم حصوں میں جائوں گی‘ جہاں ہماری ڈیفنس فورسز تعینات ہیں تاکہ اندازہ کر سکوں کہ یہ لوگ کن حالات میں وہاں رہ رہے ہیں۔ بھارت کی وزیر دفاع سرکریک کے اگلے مورچوں پر گئی یا نہیں لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنی بحریہ کے جوانوں کو سمندر کی وسعتوں، سرکریک کی گزرگاہوں اور اس کی آخری لیاقت پوسٹ پر دفاعِ وطن میں مگن دیکھا ہے۔ زہریلے سانپوں سے اٹے ایک چھوٹے سے اور بے آباد جزیرے پر قائم پاک بحریہ کی سرکریک کی آخری لیاقت پوسٹ پر تعینات افسروں اور جوانوں کو موسم کی بے پناہ سختیوں کے باوجود اپنے فرائض تندہی سے سرانجام دیتے دیکھا تو لگا کہ یہ گوشت پوست کے انسان نہیں بلکہ روبوٹ ہیں لیکن نیوی کی ربڑ بوٹ سے ساحلی تختے پر قدم رکھا اور ان کی پُر جوش مسکراہٹ اور مضبوط ہاتھوں کو تھاما تو ان کے انسانی وجود کا احساس ہوا۔
لیاقت پوسٹ پاکستان نیوی کی سرکریک پر واقع وہ آخری پوسٹ ہے جو 96 کلومیٹر طویل اس پٹی (Strip) میں دشمن کی کسی بھی نقل و حرکت کو روکے ہوئے ہے۔ یہ سرکریک کا وہ سمندری حصہ ہے جس پر بھارت کا غاصبانہ کنٹرول ہے۔ لیاقت پوسٹ کے ٹاور پر کھڑے ہو کر کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر بنی دشمن کی پوسٹ دیکھتے ہوئے احساس ہوا کہ ہم تو چند گھنٹوں بعد کراچی واپس چلے جائیں گے لیکن یہ جانباز‘ جن کے چاروں جانب زہریلے سانپ‘ سمندر کی دن رات شور مچاتی لہریں اور رات بھر گیدڑوں کی خوفناک چیخ و پکار جاری رہتی ہے اور جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی... اپنے شب و روز کس طرح گزارتے ہوں گے۔ لیاقت پوسٹ کے جوانوں کے ہاتھوںکی بنی ہوئی کڑک اور مزیدار چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے اپنی وردی، کیپ اور ٹاور پر لہراتے ہوئے سبز اور سفید پاکستانی پرچم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا '' سرکریک، سیاچن، لائن آف کنٹرول اور وزیرستان میں بیٹھے سب جوانوں کو سختیوں اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیاقت پوسٹ میں چند فرلانگ کے فاصلے پر موجود مکار دشمن کے وجود کے سامنے چہروں پر اطمینان اور مسکراہٹ لئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مگن ان مجاہدوں کو دیکھ کر گمان ہو رہا تھا کہ یہ وہی ہیں جن کے جذبوں نے قیصر و کسریٰ کے غرور کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا۔ کسی بھی ادارے کے لوگ اسی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں جو ان کے کمانڈر اور افسران کے عزم اور ارادوں کا مظہر ہوتا ہے اور یہی کچھ گوادر، اورمارہ، سجاول اور شاہ بندر میں دیکھنے کو مل رہا تھا ۔ پاکستان اور بھارت کے اب تک سرکریک پر9 بار مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن نتیجہ وہی جس کا اظہار بھارت کی وزیر دفاع نے گاندھی نگر میں کیا تھا۔ میں سرکریک پر متعدد لیکچرز اور پروگرام دیکھ اور سن چکا تھا لیکن ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کیلئے شاہ بندر سے پاک نیوی کی موٹر بوٹ میں بیٹھ کر جس طرح سرکریک کی لیاقت پوسٹ تک پہنچے اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ذرا تصور کیجئے‘ آپ کے چاروں جانب وسیع و عریض سمندر اور کچھ فاصلے پر دشمن کی موجو دگی جسے کسی قاعدے قانون اور اخلاقیات کی پروا نہیں۔ کشمیر، سیاچن، راوی‘ ستلج، بیاس کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والے چناب اور جہلم جیسے بڑے دریائوں کے پانیوں کو بھی چھیننے کی کوششیں کرنے والا بھارت سرکریک میں اقوام متحدہ کی تمام پابندیوں اور احکامات کو پائوں تلے روندتے ہوئے پاکستانی حصے پر جبری قبضہ کئے ہوئے ہے۔ اسے شاید معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے اس سمندری علاقے میں تیل اور قدرتی گیس کے کئی کنویں ہیں۔ یہ سرکریک کا وہ حصہ ہے جہاں بھارت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل اور گیس کی تلاش کے منصوبے پر کام شروع کرنے کی سوچ رکھتا ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق گجرات حکومت بھارتی بحریہ کی مکمل معاونت اور تکنیکی مشاورت سے ایسی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کی جانب سے کہا یہ جا رہا ہے کہ اس طرح سمندری راستوں سے انسانی اور اسلحہ کی سمگلنگ کو روکا جا سکے گا۔ اس کام کیلئے بھارتی حکومت کی دعوت پر جن دو کمپنیوں کو اس غیر قانونی کام کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے ان میں بھارت کی نیشنل بلڈنگ کنسٹرکشن کارپوریشن اور سینٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ یہ کمپنیاںسر کریک کے گرد 75 کلومیٹر طویل باڑ نصب کریں گی۔ زیر تصفیہ سرکریک میں لگائی جانے والی اس باڑ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ وہی GABION BOX طرز کی باڑ ہو گی جو بھارت نے ممبئی کی بندر گاہ کے گرد نصب کر رکھی ہے ۔ 2012ء میں بھارتی میڈیا کی سرکریک میں مقناطیسی باڑ کے بارے میں پھیلائی گئی یہ خبر ابھی تک خبر سے آگے نہیں بڑھی‘ لیکن پاک بحریہ کا عزم ہے کہ بھارت نے اگر سرکریک کے ان متنازعہ حصوں میں یہ باڑیں لگانے کی کوشش کی تو کسی بھی صورت میں اس کی اجا زت نہیں دی جائے گی۔ اس مقناطیسی باڑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر موسم میں حفاظتی دیواروں کا کام دیتی ہے اور ہر قسم کے حالات میں ان میں مقناطیسی طاقت کی صلاحیت رہتی ہے۔ دسمبر2012ء میں من موہن سنگھ حکومت کے دوران جب بھارت کے وزیر دفاع اے کے انتھونی سے سرکریک میں باڑ لگانے کی خبروں پر سوال کیا گیا تو انہوں نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہم تو پاکستان کے ساتھ سر کریک پر مثبت بات چیت کے لئے ہر وقت تیار ہیں اور بہت جلد کسی قابل قبول حل کی طرف بڑھیں گے۔ بھارت کی اب تک کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کے بارے میں دوستی یا تصفیہ طلب معاملات کے بارے میں جو کچھ وہ میڈیا پر کہتا ہے اس پر کبھی بھی اس نے عمل نہیں کیا۔ 
سر کریک کا پہلا نام بان گنگا تھا لیکن انگریزی دور میں ممبئی پریذیڈنسی نے اسے سر کریک کا نام دے دیا۔ 1908ء میں رائو حکمران اور سندھ حکومت میں سمندر کے اس حصے پر تنازعہ ''جلانے کیلئے لکڑی کے حصول‘‘ پر ابھرا تھا۔ دوسرا تنازعہ 1914ء میں ابھرا‘ جو بمبئی (اب ممبئی) حکومت کے معاہدے کے تحت حل کیا گیا۔ اس معاہدہ کے پیرا 9 اور 10 کے تحت یہ علاقہ آج پاکستان کا حصہ بنتا ہے۔ اس قرارداد کی توثیق کرتے ہوئے حکومت سندھ اور رن آف کچھ کے مہاراجہ نے اس پر باقاعدہ دستخط کئے تھے ۔ تیسرا تنازعہ اپریل1965ء میں اس وقت سامنے آیا جب رن آف کچھ میں پاکستان اور بھارت کی جھڑپیں شروع ہوئی تھیں۔ اس پر اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن نے مداخلت کرتے ہوئے ٹربیونل قائم کیا تھا۔ چوتھا تنازعہ فروری1968ء میں شروع ہوا تو اس وقت انٹرنیشنل ٹربیونل کی یہ رپورٹ سامنے آئی کہ سرکریک کا صرف10 فیصد حصہ پاکستان استعمال کر رہا ہے اور باقی پر بھارت جبری قبضہ کئے بیٹھا ہے۔ اس علاقے کی حساسیت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اور سرکریک کے مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں اقوام متحدہ اپنے حصے کا کردار ادا کرے اور سرکریک‘ جو پاکستان کا حصہ ہے‘ اسے واپس دلائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved