اس دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ دوسروں کو سیدھی راہ دکھانے کے مشن پر نکلتے ہیں وہ ایک مرحلے پر پہنچنے کے بعد یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سیدھی راہ پر چلنا اُن کے لیے فرض کا درجہ نہیں رکھتا! دنیا بھر میں عوام کو سیدھا راستہ دکھانے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرنے والے بہت سے فرائض کو اپنی ذات پر اطلاق پذیر ہونے سے روک دیتے ہیں۔ اپنی چرب زبانی اور شعلہ بیانی سے وہ ایک ایسی فضا تیار کرتے ہیں جس میں اُن کے بیشتر معتقدین یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ علم و فضل اور ''تزکیۂ نفس‘‘ کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کے بعد بہت سے افعالِ خبیثہ کے حوالے سے اُن کے گرو کو ''استثنائ‘‘ مل چکا ہے!
بھارت میں اصلاحِ نفس کے نام پر کئی ایسے مسلک ابھرے ہیں جنہوں نے ہندو اِزم کے مرکزی دھارے سے ہٹ کر لوگوں کو کسی اور ہی راستے پر ڈال دیا۔ بھگوان رجنیش عرف اوشو کا معاملہ اس حوالے سے بہت نمایاں ہے۔ اُس نے ایک ایسا مسلک پیش کیا جس میں شخصی آزادی کا انتہائی تصور عمل پذیر ہوا۔ اوشو کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اُسے ہر معاملے میں مکمل، بلکہ مادر پدر آزادی میسر ہونی چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ اوشو کے معتقدین کی اکثریت اُس کی ''روحانی تعلیمات‘‘ کو ''جسمانی تعبیرات‘‘ کی منزل تک لا کر اُس تھوڑی بہت شرم و حیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی جو اوشو کا معتقد ہونے سے قبل اُن کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی! اوشو کی ''تعلیمات‘‘ نے ہزاروں نہیں، لاکھوں افراد کو شدید جہالت سے دوچار کیا۔ وہ اصلاحِ نفس کے نام پر خالص مادر پدر آزاد جنسی روابط کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا رہا اور پھر وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے۔ کئی عورتوں نے منظر عام پر آکر زیادتی کا الزام عائد کیا۔
پانچ سال قبل گجرات، راجستھان اور ہریانہ میں آشرم رکھنے والے دھرم گرو آسا (آشا) رام باپو کا کیس سامنے آیا۔ ایک لڑکی نے اُس پر زیادتی کا الزام عائد کیا اور دھمکائے جانے پر بھی میدان چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اِس لڑکی نے گواہ اور ثبوت پیش کیے۔ اُس کا کہنا تھا کہ جو لڑکیاں تزکیۂ نفس اور اصلاحِ وجود کے لیے آسا رام باپو کے آشرم میں آتی اور سکونت اختیار کرتی تھیں اُن سے زیادتی کی جاتی تھی۔ بیشتر لڑکیاں بدنامی کے ڈر سے منہ بند رکھتی تھیں اور بہت سی ایسی تھیں جنہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر منہ بند رکھنے پر مجبور کیا جاتا تھا!
آسا رام باپو کے معتقدین نے بہت ہنگامہ آرائی کی مگر لڑکی کی طرح عدالتی نظام بھی ڈٹا رہا اور کسی بھی طرح کے عواقب کی پروا کیے بغیر اب اس باپو کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
آسا رام باپو جیسے نہ جانے کتنے ہی درندے ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح لڑکیوں کی آبرو سے کھلواڑ کرتے آئے ہیں۔ 453 صفحات کے فیصلے میں آسا رام باپو کے ایک سابق معتقد یا پیروکار راہل کمار سَچر کا خاصا مفصّل بیان بھی شامل ہے۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کو سیدھا راستہ دکھانے کا دعویٰ کرنے والے یہ خدائی فوجدار کردار کے اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں۔
راہل سَچر کی رسائی آسا رام باپو کی ''کٹیا‘‘ تک تھی۔ یہ کٹیا کیا تھی، محل تھا محل۔ زمانے بھر کی آسائشوں سے مزیّن اِس کٹیا میں آسا رام باپو راجہ اندر کی صورت رہتا تھا۔ راہل سَچر کے بیان کے مطابق اس عالی شان کٹیا میں آسا رام باپو آشرم میں آنے والی لڑکیوں کو ''روحانی بالیدگی‘‘ کے نام پر ہوس کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔ راہل سَچر چونکہ آسا رام باپو کا غیر معمولی معتقد تھا اس لیے اُسے بہت آگے تک رسائی حاصل تھی۔ اُس نے اپنے بیان میں کہا ہے ''میں نے ایک بار آسا رام باپو اور ایک جوان لڑکی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا۔ یہ سب کچھ میرے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔ میں نے آسا رام باپو کو خط لکھا۔ خط کا کوئی جواب نہ آیا۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ دیکھا تو پھر خط لکھا مگر اس خط کا بھی کوئی جواب نہ آیا۔ پھر میں نے آسا رام باپو سے براہِ راست پوچھا کہ یہ سب کیا ہے۔ اُس کا جواب تھا 'جو بھگوان کی راہ پر چلتے ہیں یعنی 'برہم گیانی‘ ہوتے ہیں اُن کے لیے کسی کی عزت سے کھیلنا کوئی گناہ ہے ہی نہیں! باپو کا اصل جملہ یوں تھا کہ برہم گیانی کو یہ سب کرنے سے پاپ نہیں لگتا!‘ میرے لیے یہ جملہ انتہائی حیران کن اور افسوسناک تھا۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ آسا رام باپو سے کیا کہوں، کیا نہ کہوں۔ جب میں نے بحث کرنے کی کوشش کی تو آسا رام باپو نے اپنے گارڈز کو بلا کر مجھے آشرم سے باہر پِھنکوا دیا۔‘‘
راہل سَچر نے مزید کہا ''آسا رام باپو نے پُشکر (راجستھان)، بھوانی (ہریانہ) اور احمد آباد (گجرات) میں آشرم بنائے۔ اپنی ہوس کا دھندا چلتا رکھنے کے لیے آسام رام باپو نے تین لڑکیاں رکھی ہوئی تھیں جو شکار کو گھیرنے میں معاونت کرتی تھیں۔ آسا رام باپو آشرم میں گھوم پھر کر اپنے لیے کوئی لڑکی منتخب کرتا تھا۔ یہ تینوں لڑکیاں اُسے آسا رام باپو کے کمرے تک پہنچاتی تھیں۔ اور پھر یہی تینوں لڑکیاں اُس لڑکی کو اسقاطِ حمل کے مرحلے سے بھی گزارا کرتی تھیں!‘‘
آسا رام باپو جیسے لوگ روحانیت کا ڈھونگ رچا کر ''جسمانیت‘‘ کی دکان چلاتے ہیں۔ شرمناک جہالت کا معاملہ کچھ بھارت تک محدود نہیں۔ یہ پورا خطہ ہی اندھی عقیدت کے نام پر جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسے ڈھونگی، پاکھنڈی اور ہوس پرست جعلی پیر پائے جاتے ہیں جو مشکلات میں گِھرے ہوئے سادہ لوح لوگوں، بالخصوص خواتین کو شیشے میں اُتار کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اِن کی طرف لپکنے والوں کی تعداد اس لیے زیادہ ہے کہ لوگ شارٹ کٹ چاہتے ہیں۔ اور اللہ کی رضا کے لیے کام کرنے والے ہدایت یافتہ بندے کسی شارٹ کٹ کی گارنٹی نہیں دیتے!
جو کچھ آسا رام باپو نے کیا وہ شرمناک ہے مگر لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ کسی کے جھانسے میں کیوں آیا جائے۔ ہمارے ہاں بھی بہت سی خواتین اولاد کے حصول یا کسی دوسرے مقصد کی خاطر کسی جعلی پیر کے جھانسے میں آ کر آبرو سے محروم ہو جاتی ہیں۔ میڈیا پر اس حوالے سے بہت کچھ آ چکا ہے۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ بہت کچھ جان کر بھی لوگ جعلی پیروں اور ڈھونگی عاملوں کے اثرات سے پوری طرح آزاد نہیں ہو پائے۔
آسا رام باپو نے خود کو ''برہم گیانی‘‘ قرار دے کر گناہ کو بھی اپنے لیے درست عمل قرار دے لیا۔ کسی بھی حرام کو اپنے لیے حلال ٹھہرانے والے اندھوں کی ہمارے ہاں بھی کمی نہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اندھوں کو راہ نُما بنانے والے بھی اندھے نہ کہلائیں تو اور کیا کہلائیں!
حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کے کسی بھی معاشرے میں عام آدمی اخلاق و کردار کے اعتبار سے نام نہاد عاملوں اور جعلی پیروں سے خاصا بہتر ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ اللہ کی رضا کا حصول یقینی بنانے کے بجائے وہ اُن کے نقوشِ قدم کے پیچھے چلے جن کی اپنی چال درست نہیں اور کردار کا کوئی ٹھکانا نہیں! خطرناک ترین نکتہ یہ ہے کہ جو لوگ کسی بھی فعلِ قبیح کو اخلاق اور کردار کے اعتبار سے کسی بھی درجے میں بُرا سمجھتے ہی نہیں وہ کسی کو روحانی بالیدگی سے کیا ہم کنار کریں گے؟