تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     24-03-2013

… اور سسی کا شہر لٹ گیا!

ہم فہمیدہ مرزا کی لوٹ مار کا رونا رو رہے تھے، ان کے ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی تو چھپے رستم نکلے۔ کنڈی سب کو مات دے گئے ہیں۔ اگر فہمیدہ مرزا نے پانچ برسوں میں پچاس کروڑ روپے قرضہ معاف کرایا اور تاحیات بھاری مراعات لے لیں تو اُن کے ڈپٹی کنڈی نے سات ارب روپے کا پلازہ سی ڈی اے سے ہتھیا لیا اور چلتے بنے۔ بڑے بڑے استاد دنگ رہ گئے ہیں۔ کنڈی کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے جو کچھ جمعہ کے روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں بتایا گیا اس سے مجھے یاد آیا کہ اس نوجوان سے پہلا تعارف لندن میں ہوا تھا۔ 2007 ء کا ذکر ہے۔ لندن کا یہ تعلیم یافتہ نوجوان اُن دنوں یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنمائوں کے آگے پیچھے دوڑتا نظر آتا تھا۔ وہ پی پی پی کے ٹکٹ کا خواہش مند تھا۔ یوسف رضا گیلانی کے کہنے پر فیصل کریم کنڈی لندن میں آموں کی پیٹیاں کمر پر لاد کر ایک ایک گھر جا کر دے آتا اور ساتھ میں وزٹنگ کارڈ بھی۔ وہیں فیصل کریم کنڈی سے آشنائی ہوئی۔ پتہ چلا کہ وہ بھی لندن میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے ہم وطنوں کے لیے کچھ کرنے کو بے تاب ہے۔ میں نے اپنے قلم سے اس کی حمایت شروع کی کہ ملک کو نئی پڑھی لکھی قیادت کی ضرورت ہے۔ وہ مولانا فضل الرحمٰن کو الیکشن ہرا کر اسلام آباد لوٹا تو پتہ چلا کہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے ہی زرداری ہائوس میں ڈیرے جما چکے ہیں۔ وزارتیں مخالفوں میں بٹ رہی تھیں۔ کنڈی کے حق میں رپورٹیں لکھیں کہ جس نے مولانا کو ہرایا تھا اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ زرداری صاحب نے ڈپٹی سپیکر کا عہدہ دے دیا اور پھرکنڈی نے وہ’’کنڈی‘‘ لگائی کہ اب پتہ چلا ہے کنڈی برادرز سی ڈی اے کا سات ارب روپے کا پلازہ صرف 36 کروڑ روپے میں ہتھیا کر لے گئے۔ یہ بے نامی ٹرانزیکشن اپنے ایک کزن کے نام پر کرائی اور اس کے پیسے قسطوں میں ادا کرنے ہیں۔ سی ڈی اے نے ایک ہی دن میں یہ سب کام کر کے پلازے کی چابیاں عزت مآب کنڈی کے ہاتھ میں تھما دیں۔ سینٹ کی کمیٹی نے یہ معاملہ اٹھانا چاہا تو وکیل کے ذریعے رکوانے کی کوشش کی۔ خیر سینٹرز نے ہمت دکھائی اور کارروائی سنی، ریکارڈ دیکھا تو پتہ چلا کہ سسی کا شہر لٹ چُکا ہے۔ موصوف لوٹ مار کر کے اپنے گھر لوٹ چکے ہیں۔ اب ملک رہے یا نہ رہے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ لندن میں گیلانی کی آموں کی پیٹیاں بانٹنے کا معاوضہ ملک و قوم سے وصول کر لیا ہے کہ اب سات ارب روپے سے واقعی سات نسلیں سنور جائیں گی۔ پانچ سال فہمیدہ مرزا اور فیصل کنڈی اٹھارہ کروڑ لوگوں کے منتخب کردہ نمائندوں سے کئی فٹ اونچی کرسی پر قائد اعظم کے پورٹریٹ اور چھت پر تحریر قرآن پاک کی آیتوں کے نیچے بیٹھ کر سب کو بھاشن دیتے رہے اور آخر میں کروڑں روپے کے بنک قرضے اور سات ارب روپے کے پلازے لے کر چلتے بنے۔ اُنہیں عزت سے زیادہ دولت سے پیار تھا۔ دونوں نے نہیں سوچا کہ خدا نے انہیں کس اونچے مقام پر بٹھایا تھا اور انہوں نے کیا کر دیا۔ کئی دنوں تک حکومت کے آخری دنوں کی لوٹ مار کی کہانیاں لکھ لکھ کر تھک سا گیا ہوں۔ روزانہ دل پر بھاری پتھر رکھ کر کوئی نئی دستاویز کھولتا ہوں جہاں بربادی اور لوٹ مار کی ایک نئی کہانی میری منتظر ہوتی ہے۔ کابینہ کے آخری اجلاس کی دستاویزات ہوں یا پھر کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے خفیہ منٹس، سب کچھ لوٹ لیا گیا ہے اور کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ سب کو حصہ مل گیا تھا۔ جب مال ختم ہوا تو فیصلہ کیا گیا کہ وہ اربوں روپے بھی نکال لو جو بڑے بڑے ڈیموں اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ وہ بھی خرچ ہوگئے تو حکم ہوا لوگوں کی پنشن اور بچت کا پیسہ پڑا ہے وہ اٹھا کر ارکان پارلیمنٹ کو دے دو۔ یوں بائیس ارب روپے ڈیموں اور سیونگز کے منصوبوں سے نکال کر ان سیاستدانوں نے آپس میں بانٹ لیے۔ ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں سے بھی کٹوتی کر کے سیاستدانوں کے لیے بجٹ بنایا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ ق نے بھی اپنے ارکان کو ڈھائی ارب روپے حکومت ختم ہونے سے پہلے لے کر دیے۔ ابھی ایک اور سکینڈل کے دستاویزات ڈھونڈ کر لایا ہوں کہ سندھ کی غربت اور محرومیوں کا رونا رونے والے کس کس سندھی سینٹر نے اپنے کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کو خیبر پختون خوا کے ٹھیکیداروں کے ہاتھ بیچا۔ سندھ کی ترقی ہوتی رہے گی پہلے خیبر پختون خوا میں پریشر پمپ لگوانے کے نام پر مال کھا لیا جائے۔ دوہری شہریت پر نااہل ہونے والی ایک خاتون ایم این اے کے لیے کیسے راجہ پرویز اشرف نے رولز ریلیکس کیے کہ اسے بتیس لاکھ روپے مل جائیں۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس نے اپنے گھر کی بجلی لگوانی ہے۔ اپنے فارم ہائوس تک بجلی لے جانے کو بھی سرکاری سکیم قرار دے دیا گیا۔ سب پیٹتے رہ گئے کہ یہ ممکن نہیں لیکن راجہ صاحب نے کہا کہ ممکن بنائیں اور ممکن بنا دیا گیا۔ فہمیدہ مرزا نے کہا کہ وہ الیکشن ہار جائیں گی لہٰذا ان کے لیے وزیر اعظم نے رولز ریلیکس کر کے دس کروڑ روپے دلوائے۔ کہا گیا‘ سیلاب سے متاثرہ سڑک بنانی ہے۔ سیلاب دو سال قبل آیا تھا، سڑک کا خیال اب آیا ہے۔ سڑک بنے یا نہ بنے، الیکشن کا خرچہ یقیناً نکل آئے گا۔ جب ایم این ایز میں اربوں روپے ترقیاتی فنڈز پر بانٹے جا رہے تھے تو بتایا گیا سب سکیمیں صرف کاغذوں پر ہیں۔ بھلا کیسے تین ماہ میں 43 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ بعض سکیمیں ایسی تھیں جن پر تین سے چار کروڑ روپے خرچ ہونے تھے لیکن ایک ایک کروڑ روپے جاری کرا لیے گئے۔ جب بتایا گیا کہ جناب کام مکمل نہیں ہو گا اور ایک کروڑ روپے بھی ضائع ہو جائیں گے تو کہا گیا: ایک کروڑ جاری تو کرو۔ پہلے سے سب کچھ طے تھا کہ کس کو کتنا کمشن ملنا ہے۔ سب ملے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی اور افسران کا گٹھ جوڑ ہو چکا ہے اور لوٹ مار کر لی گئی۔ آڈیٹر جنرل نے راستہ روکنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی اور ایوان صدر بلا کر بڑے صاحب سے جھاڑ پلوائی گئی اور کچھ دھمکیاں بھی دی گئیں تاہم بلند اختر رانا کے اندر کا راجپوت جاگ گیا ۔ اورکچھ نہ ہو سکا تو راجہ پرویز اشرف نے رانا صاحب کو بیرون ملک جانے کے لیے این او سی نہیں دیا۔ ایک سرکاری دوست نے ایک ایسی بات کہی کہ دل دہل گیا۔ بولا بل گیٹس دولت کماتا ہے تو وہ مردان اور چارسدہ کے بچوں کی پولیو ویکسین کے لیے پیسے دیتا ہے اور ہمارے لیڈرز ہیں کہ حرام کی دولت کما کما کر تھکتے ہی نہیں، عطیات دینا تو دور کی بات ہے۔ کراچی اور پنڈی بم دھماکوں میں بہنے والے غریبوں کے لہو سے بننے والی حکومت کے آخری دنوں میں عاصم حسین، سلیم مانڈوی والا، فہمیدہ مرزا، فیصل کنڈی اور دو سو سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کی میرے پاس موجود سینکڑوں خفیہ سرکاری دستاویزات میں چھپی اربوں روپے کی لوٹ مار کی یہ خوفناک کہانیاں پڑھ کر خوبصورت گلوکار امجد پرویز کا اکیلے بیٹھ کر وہ گانا سننے کو جی چاہ رہا ہے۔ تیرا لُٹیا شہر بھمبھور، نی سسی اے بے خبرے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved