تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-04-2018

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے

پاکستان کی کشتی طوفان سے نکل آئی ہے جو ڈیڑھ عشرے سے درپیش تھا۔ مسائل اب بھی گمبھیر ہیں مگر تباہی کا خطرہ ٹل چکا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
تیزی سے ملک تبدیل ہو رہا ہے؛ اگرچہ منصوبہ بندی کا دخل اس میں کم اور فطری عوامل کا زیادہ ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شریف خاندان کی قسمت پہ مہر لگ چکی۔ نہ صرف یہ کہ اقتدار ان سے چھن جائے گا بلکہ طویل مدت کے لیے شاید انہیں طوفان میں بسر کرنی پڑے۔ شہری سندھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الطاف حسین کے ہاتھ سے نکل گیا اور واپس نہیں جا سکتا۔ اب وہ ایک درماندہ اور بیمار آدمی ہے۔ مکمل طور پر وہ بے نقاب ہو چکا اور احمقوں کے سوا‘ جن کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے‘ کوئی اس کی سننے والا نہیں۔ زندگی کے جو ماہ و سال باقی ہیں‘ اسے وہ رسوائی میں بسر کرنے ہیں۔ الیکشن 2018ء میں کراچی اور حیدر آباد اس طرح منقسم ہوتے نظر آتے ہیں‘ جس طرح ماضی اور آج کا بلوچستان۔ 
دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ ان کے پشت پناہ‘ بھارت اور افغانستان اسی طرح تلے کھڑے ہیں۔ اب انہیں انکل سام کی زیادہ پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ افغان سرزمین کو بھارت کی طرف سے تخریب کاری کے لیے استعمال کرتے ہوئے دیکھتا تو صرف نظر کرتا۔ اب حوصلہ افزائی فرماتا ہے۔ اس کے باوجود تخریب کاری میں 90 فیصد کمی آئی ہے۔ انتہا پسند مذہبی گروہ اب بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ریاست اور عوام میں تصادم کے لیے‘ نفرت پھیلانے والے لسانی گروہ اب بھی بروئے کار ہیں۔ محمود اچکزئی کے بعد ایک اور تنظیم بھی‘ مگر ان کا کھیل آشکار ہو چکا۔ اتوار کے جلسۂ عام میں انہوں نے ایک شخص کو پاکستان کا جھنڈا لہرانے سے روک دیا۔ یہ الطاف حسین کا سا طرزِ عمل ہے۔ نتائج بھی مختلف نہیں ہوں گے۔ نفرت پر اٹھنے والی تحریکیں اپنی ابتدا میں بہت غیر معمولی توانائی کی حامل ہوتی ہیں‘ ایم کیو ایم کے علاوہ پختونستان اور جئے سندھ۔ 1970ء کے عشرے میں عبدالغفار خان کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ درہ خیبر سے اٹک تک کے علاقے کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عینی شاہدوں کے مطابق ان کا خیال تھا کہ اسے افغانستان میں شامل کرنے کے بعد ایک نئی ریاست وجود میں آئے گی‘ جس پر عبدالولی خاں سمیت نسل در نسل ان کی اولاد حکومت کرے گی۔ پختون زلمے نام کی تنظیم کے نوجوان افغانستان میں تخریب کاری کی تربیت پا رہے تھے۔ بھارت پانی کی طرح پیسہ بہا رہا تھا اور عبدالولی خاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح انگریزوں کے ایجنٹ تھے۔ ایسے بھونڈے دلائل کہ مبارک علی ایسے قائد اعظم بیزار شخص کو بھی انہیں مضحکہ خیز قرار دینا پڑا۔ اجمل خٹک‘ محمود اچکزئی اور خیر بخش مری سمیت روس اور بھارت سے رہ و رسم رکھنے والے بعض لیڈروں کو کامیابی کا اس قدر یقین تھا کہ وہ کابل میں جا بیٹھے تھے۔ خیر بخش مری تو اپنے لڑاکا مرغ بھی ساتھ لے گئے تھے۔ بھٹو کی مخالف سیاسی قوتیں اس قدر ان سے خوف زدہ اور بد گمان تھیں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ولی خان کی پارٹی کو غدّار قرار دیئے جانے کے باوجود‘ جماعت اسلامی تک‘ ان کی صفائی پیش کرتی۔ 1980ء کے عشرے میں عبدالولی خاں ارشاد فرمایا کرتے کہ روسی چاہیں تو ٹینکوں کی بجائے مرسڈیز کاروں میں بیٹھ کر کراچی پہنچ سکتے ہیں۔ اللہ نے ان سب کو رسوا کیا۔ پاکستانی عوام پہ ستم ڈھانے اور غدّاری کا ارتکاب کرنے والے‘ دونوں کو۔ 
پاکستانی فوج فرشتوں پر مشتمل نہیں۔ فرشتے کیا معنی‘ پہاڑ ایسی غلطیاں انہوں نے کیں۔ ایوب خان کی مرکزیت پسندی نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے لیے میدان ہموار کیا۔ بھارتی پشت پناہی سے بڑھتی پھیلتی بنگالی قوم پرستی میں‘ فضا پہلے ہی جس کے لیے سازگار ہوتی جا رہی تھی۔ پھر شیخ مجیب‘ ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان کے درمیان اقتدار کی کشمکش نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اونٹ کی پیٹھ پر یہ آخری تنکا ثابت ہوا۔ 
جنرل محمد ضیاء الحق محبِ وطن تھے‘ دیانتدار اور ہوش مند۔ مگر قوم کی سیاسی تربیت اور عوام کو شریکِ اقتدار کرنے کا کوئی تصور نہ رکھتے تھے۔ عام طور پر انہیں ایک مذہبی آدمی سمجھا جاتا ہے۔ تھے بھی مگر اسلام کی روح کو سمجھ نہ سکے‘ جو عام آدمی کو علم اور آزادی عطا کرکے جو قوموں کو رفعت و بالیدگی عطا کرتا ہے۔ سب سے بڑا جرم ان کا یہ ہے کہ ملک پر شریف خاندان اور مولویوں کو مسلط کر دیا۔ 
جنرل پرویز مشرف ابھی کل کا قصہ ہیں۔ ذہین آدمی مگر یہ نہ سمجھ سکا کہ تختِ اقتدار پر بیٹھ کر کسی قوم کے مزاج کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کے اجتماعی لاشعور (Collective Subconscious) کو۔ ایوب خان اور جنرل محمد ضیاء الحق کی طرح ملکی معیشت کو انہوں نے بہتر بنایا۔ کرپشن کم ہو گئی اور غیر ملکی قرض کم ہوا۔ اس کے نتیجے میں مجبوروں اور محروموں کی تعداد میں کمی آئی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ آزاد میڈیا چینل ہیں۔ اخبار نویسوں کا سامنا کرنے کی وہ ہمت رکھتے تھے۔ محنتی آدمی مگر ان کی بعض اصلاحات مضحکہ خیز تھیں مثلاً پارلیمنٹ میں خواتین کی 33 فیصد نمائندگی۔ سیاست میں اس طرح کے اقدامات سے بہتری نہیں سطحیت آتی ہے۔ چودھری شجاعت حسین بڑبڑاتے رہے کہ یہ ہمارے معاشرے کو سازگار نہیں مگر وہ اپنی سی کر گزرے۔ پھر اس خچر کی طرح جس نے دستی بم کو لات مار دی تھی‘ انہوں نے چیف جسٹس کو برطرف کر دیا۔ باقی تاریخ ہے۔ 
عسکری قیادت کے موجودہ سب اقدامات اور ہر طرز عمل کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ امر واقعہ مگر یہ ہے کہ یہ فوج ہے جس نے ملک کو متحد رکھا ہے۔ سیاست دان تو ایسے کج رو اور بدعنوان تھے کہ اسے فروخت ہی کر ڈالتے۔ میکیاولی نے کہا تھا: ''تاجر اگر بادشاہ بن جائے تو ہر چیز وہ بیچ ڈالے گا۔ جو بیچ نہ سکے‘ برباد کر دے گا‘‘۔ ہندوستان کے جلیل القدر بادشاہ بلبن نے ایک کروڑ روپے نذرانے کی پیشکش کے باوجود‘ ایک ہندو سیٹھ کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ یہ ایک کروڑ آج کے سو‘ پچاس ارب کے برابر ہوں گے۔ بادشاہ کا کہنا یہ تھا کہ تاجر کبھی خسارے کا سودا نہیں کرتا‘ یقینا وہ اس سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور ظاہر ہے کہ سلطنت سے۔ 
فوج پہ تنقید میں کوئی اعتراض نہ ہونا چاہیے۔ بعض اوقات تو یہ بہت ضروری ہوتی ہے۔ یہاں معاملہ کچھ مختلف ہے۔ پاکستان کو برباد کرنے کی آرزومند مقامی اور بین الاقوامی قوتیں اس نکتے کو خوب سمجھتی ہیں کہ مضبوط فوج کے ہوتے‘ ملک توڑا نہیں جا سکتا۔ بھارت کا باجگزار بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ وہ حیرت انگیز پیشہ ورانہ مہارت کی حامل ہے۔ اس کے جوان اور افسر غیر معمولی تربیت اور عزم میں گندھے ہیں۔ میاں نواز شریف اس حد تک چلے گئے کہ گجرات اور کشمیر میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر بھی نریندر مودی کی مذمت نہیں کرتے۔ یہاں تک وہ تو ارشاد فرما چکے کہ پاکستانی فوج نے کشمیریوں پر بھارت سے زیادہ ظلم ڈھائے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بھارتی اور امریکی ایجنڈے سے اتفاق کر چکے کہ پاکستان کو سکم اور بھوٹان یا زیادہ سے زیادہ بنگلہ دیش بنا دیا جائے۔ اس آدمی کے راستے میں پاکستانی فوج مزاحم ہو گئی جو بھارت کی خاطر پشاور سے کابل تک ریلوے لائن بچھانے کا آرزومند تھا۔ 
مقامی اور بین الاقوامی مخالفین نے‘ جن میں ملّا‘ ملحد اور این جی اوز والے لبرل سبھی شامل ہیں‘ پاکستانی فوج کو سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کی۔ وہ قومی سالمیت کے ساتھ اس کی والہانہ وابستگی کا ادراک نہیں کر سکے۔ انسان کی پوری تاریخ اور دنیا کے ہر سماج میں کارفرما اس بنیادی اصول کو وہ پا نہ سکے کہ آدمی اتنے ہی بلند ہو جاتے ہیں جتنا کہ انہیں درپیش چیلنج ہو۔ اللہ جانے ساحل سے کب ہمکنار ہو‘ پاکستان کی کشتی طوفان سے بہر حال نکل آئی ہے جو ڈیڑھ عشرے سے درپیش تھا۔ مسائل اب بھی گمبھیر ہیں مگر تباہی کا خطرہ ٹل چکا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved