بھارت ایک طرف جہاں ملک کے اندر کئی بڑے سیاسی مسائل سے دوچارہے‘ وہاں بعض پڑوسی ملکوں کے داخلی مسائل بھی اس کے لیے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ سری لنکا کے تملوں کا معاملہ ان میں سے ایک ہے۔اسی مسئلہ پر پچھلے ہفتے وزیر اعظم من موہن سنگھ حکومت سے اسکی سب سے بڑی حلیف جماعت جنوبی بھارت کی ڈی ایم کے نہ صرف علیحدہ ہوگئی بلکہ اس نے مخلوط حکومت سے حمایت کی واپسی کا بھی اعلان کردیا۔ ڈی ایم کے اور دوسری تامل پارٹیوں کا مطالبہ تھا کہ بھارت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کونسل (UNHRC) میں سری لنکا کے خلاف سخت موقف اختیار کرے۔ ویسے تو بھارت واحد ایشائی ملک تھا جس نے سری لنکا کے خلاف امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا؛ تاہم اب مزے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے بھارت امریکی اہلکاروں کو باور کرا رہا ہے کہ اس قرارداد کا متن نرم رکھا جا ئے تاکہ داخلی سیاست کی وجہ سے اگر بھارت ووٹ بھی کرے تو اسکا اثر سری لنکا کے ساتھ اسکے تعلقات پر نہ پڑے۔امریکیوں نے بھارت کے کہنے پر قرارداد میں سری لنکا کے لیے سخت الفاظ حذف کر دیے مگر تامل پارٹیوں کی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی کے بعد بھارت پھر امریکہ سے کہہ رہا ہے کہ متن کو دوبارہ سخت کیا جائے، جسے امریکہ نے آخری وقت پر مسترد کر دیا۔بھارتی مندوب نے اپنے بیان میں تامل علاقوں سے فوجی انخلا اور سیاسی عمل کی بحالی کا مطالبہ تو کیا مگر تامل ناڈو کی پارٹیوں نے اس کو برائے نام اور خانہ پری کرنے والا قدم قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ حال ہی میں ایک نجی محفل میں سینئر بھارتی اہلکار نے راقم الحروف کو بتایا کہ ماضی میں نئی دہلی نے یقینا سری لنکا میں تملوں کی فوجی اور سیاسی مدد کی مگر بدلے ہوئے حالات میں اب ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں سری لنکا کو ناراض کرنے کی گنجائش نہیں جب چینی بحری بیڑہ بھارت کے جنوبی ساحلوں پر دستک دے رہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ سری لنکا چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کے باعث بھارت کے لیے دوسرا پاکستان نہ بن جائے؛ تاہم اس اہلکار کا کہنا تھا کہ فی الحال موجودہ صدر راج پکشا حکومت نے بھارتی مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے چین کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھاہے اور کوئی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے جس سے بھارت کو تشویش لاحق ہو سکتی ہو۔ ٰٰٓٓتمل جنگجو تنظیم ایل ٹی ٹی ای کا صفایا ہوجانے کے بعد بھارت کی شدید خواہش تھی کہ سری لنکا حکومت اپنے شمال اورمشرقی صوبوں میں رہنے والے تملوں کے لیے جلد از جلد ایک سیاسی پیکج نافذ کرے ۔بھارت سری لنکا پر اس بات کے لیے دبائوبھی ڈال رہا ہے لیکن کولمبو نے بھارت کو آئینہ دکھانا شروع کردیا ہے ۔ وہ شورش اور انتہاپسندی سے نمٹنے اور متاثرین کے لیے پیکیج کا اعلان کرنے میںبھارت کو اسکا ٹریک ریکارڈ یاد دلا رہا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے میں بھارت کا ریکارڈ قابل تعریف نہیں رہا۔ بھارتی حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ سری لنکا کے داخلی حالات کا تمل ناڈو ریاست پربراہ راست سیاسی اثر دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ اگرچہ سری لنکا کی فورس علیحدگی پسندی کا جنگجو چہرہ سمجھے جانے والے ایل ٹی ٹی ای کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیا ب رہی ہے لیکن علیحدگی پسند ذہنیت ‘ خودمختار ی کی خواہش اور اپنے نسلی تشخص کو برقرار رکھنے کا جذبہ شمال او رمشرقی علاقے میں رہنے والے تملوں کے ذہن و دماغ میں اب بھی رچا بسا ہے۔جنگجوئیت کے خاتمے کے بعد تملوں کے سیاسی مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے ‘ ان کی شناخت کو محفوظ بنانے اوران کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت تھی‘ لیکن اس کے بجائے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کولمبو حکومت ان کی نسلی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور انہیں کسی طرح کی سیاسی خود مختاری یا اٹانومی دینے کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کررہی۔ دراصل بھارت کی مصیبت یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں اس کا اپنا ریکارڈ اچھا نہیں رہا اور یہی بات اس کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔یہ بات سری لنکا کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ ہندوستان نے انتہاپسندی اورعلیحدگی پسندی کی تحریکوں سے نمٹنے کے دوران اور اس کے بعد کیا کردار ادا کیا۔ گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران بھارت نے انتہاپسندی‘جنگجوئیت اور علیحدگی پسندی کی کئی تحریکوں کا مقابلہ کیا ہے۔ 1950ء میں شیخ محمد عبداللہ اور جواہرلال نہرو کے درمیان دہلی معاہدہ ہو‘ 1975ء کا اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ معاہدہ اور 1986ء کا راجیو گاندھی‘ ہرچندسنگھ لونگوال معاہدہ یا شمال مشرقی ریاستوںمیںانتہاپسند گروپوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے‘ حکومت ہند نے شاذ و نادر ہی اپنے وعدے پورے کیے ہیں۔بھارت اس ’’مشہور‘‘ اصول پر کاربند رہا کہ چیخ و پکار‘ شورش‘ انتہاپسندی کو ختم ہوجانے دو اور پھر صرف اس معاملے کو ہی نہیں بلکہ سب کچھ بھول جائو۔لیکن یہ خطرناک ذہنیت آنے والے نسلوں کے اندر مسئلے کوزندہ رکھنے اور بھڑکانے کے لیے کافی ہے۔ سری لنکا کے ایک چوٹی کے سفارت کارکا کہنا ہے کہ ان کا ملک مفاہمت اور آبادکاری کو اوّلین ترجیح دے رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ مفاہمت کمیشن کا قیام عمل میں آچکا ہے جوتقسیم کرنے کے بجائے جوڑنے کا کام کررہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وحشیانہ جرائم اور قتل عام میں ملوث فوجی اہلکاروں کو سرزنش کی جائے گی اور انصاف کے کٹہرے سے بھاگنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔سری لنکا کا کہنا ہے کہ وہ خودسپردگی کرنے والے ایل ٹی ٹی ای کے کارکنوں کی دوبارہ آبادکاری میں پوری طرح مخلص ہے۔ اب تک 11260 ایل ٹی ٹی ای کارکنوں نے خود کو سپرد کیا ہے جن میں سے 6500کی ازسرنو آبادکاری کی جاچکی ہے۔تمل قوم پرستی کے جذبے کو کم کرنے کے لیے حکومت اقتصادی سرگرمیوں پر زور دے رہی ہے۔ سر ی لنکا کے سفارتکار کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے سلسلے میں 1995ء میں پی وی نرسمہا رائو نے جو موقف اختیار کیا تھا ان کی حکومت اسی پر عمل کررہی ہے یعنی علیحدگی کے علاوہ سب کچھ قابل قبول ہے۔ لیکن بھارتی حکومت کی طرح سری لنکا بھی اپنے پتے کھولنے اور سیاسی پیکج کو پارلیمانی بحث و تمحیص کا حصہ بنانے سے گریز کررہی ہے۔ گو سری لنکا کے حکام نے آئندہ ستمبر میں جنوبی علاقے میں صوبائی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے لیکن اس نے نئی دہلی کو واضح لفظوں میں بتا دیا ہے کہ اس کے لیے مرکز‘ ریاست تعلقات کے حوالے سے بھارتی نظریہ قابل قبول نہیں۔ وہ مرکز میں تملوں کی نمائندگی میں اضافہ کرنے کے لیے تو تیا رہے لیکن تمل اکثریتی علاقے کو کسی بھی صورت میں خودمختاری نہیں دی جائے گی۔ سری لنکا کے تمل نیشنل الائنس کے ترجمان اور ممبر پارلیمنٹ سریش پریم چندرن کا بھی کہنا ہے کہ ’’ بھارت نے سیاسی مصالحت کی کوئی تجویز پیش نہیں کی صرف تملوں کو ’’سری لنکا میں ایک باوقار اور محفوظ زندگی گزارنے ‘‘کے ان کے مطالبے کی مکمل حمایت کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جو ناکافی ہے۔ کیونکہ تنازعہ کی جڑ سیاسی ہے جسے حل کیے بغیر دیرپا امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved