تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     30-04-2018

شارٹ کٹ کوئی نہیں

جو نوجوان پڑھ لکھ کر یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد اب فکرِ روزگار کا شکار ہیں، وہ یہ کالم ضرور پڑھیں۔ بہت سوں کو یہ ان کی اپنی آپ بیتی لگے گی۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ ڈھونڈنے کی بجائے محنت اور عقل سے راستہ ڈھونڈنے کی اہمیت واضح ہو۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ ایک نامور صحافی یا جنرل کے صاحبزادے ہیں تو زندگی لازماً آپ پہ مہربان ہو گی؛ حالانکہ یہ قطعاً ضروری نہیں۔ سولہ برس پہلے میں میٹرک کا طالبِ علم تھا۔ ہم دوستوں میں ایک دوسرے کو شکست دینے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ جب رزلٹ آیا تو 80 فیصد نمبروں کے ساتھ میں دوسرے نمبر پر تھا۔
شروع ہی سے میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتا تھا، جو پہلے کسی نے نہ کیا ہو لیکن کوئی سمت مجھے سمجھ نہ آتی تھی۔ دو سال بعد جب انٹر کا رزلٹ آیا تو کالج میں سب سے زیادہ نمبر میرے ہی تھے۔ میری عمر بیس سال ہو چکی تھی اور یہ گریجویشن کا زمانہ تھا، جب مجھے حفظ کرنے کا شوق ہوا۔ دس ماہ میں بھرپور محنت سے اٹھارہ سیپارے میں نے حفظ کیے۔ گریجویشن بھی امتیازی نمبروں سے پاس کی۔ ان دنوں جب میں مختلف ٹی وی چینلوں پر اینکر پرسنز کو دیکھتا تو صحافت کا شوق اٹھتا۔ اس دور میں جسٹس افتخار چوہدری نے پرویز مشرف کا ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ کبھی میں جج بننے کی سوچتا۔ کوئی کارنامہ سرانجام دینے کی خواہش دل و دماغ پہ حاوی ہو چکی تھی۔
اس وقت میری عمر اکیس برس تھی، جب میری زندگی میں ناکامیوں کا دور شروع ہوا۔ میں نے سی اے میں داخلہ لیا تھا لیکن ذہنی طور پر میں مطمئن نہیں تھا۔ ذہن یہ سوچتا رہتا کہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ بن کر زندگی میں کیا میں وہ سب کچھ کر سکوں گا، جو میں کرنا چاہتا تھا۔ میں بہت زیادہ over ambitious ہو چکا تھا۔ زیادہ سے زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرنے کی خواہش پریشانی کا روپ دھار چکی تھی۔ بیس اکیس سال کی یہ عمر ایک طرح سے teen age میں ہی شمار ہوتی ہے۔ میں پہلے ہی دبلا پتلا تھا۔ میرا وزن گر رہا تھا اور 55 کلو سے گرتے گرتے یہ 48 کلو تک آپہنچا۔ ملنے جلنے والا ہر شخص گرتے ہوئے وزن پر تبصرہ کر رہا تھا۔ اپنی بھرپور کوشش کے باوجود میں دو بار سی اے میں فیل ہوا۔ 
زندگی میں یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ بھرپور کوشش کے باوجود میں ناکام ہو رہا تھا ۔ یہ ناکامی کسی طور مجھے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ ان دنوں میں اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ عمرہ کرنے گیا۔ سعودی عرب میں گزرے ہوئے وہ دن آج تک مجھے یاد ہیں۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دعا میں کیا مانگوں۔ زندگی بند گلی میں تھی اور چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ ایک ناکام انسان کی دنیا میں کیا حیثیت ہوتی ہے، یہ مجھے بخوبی معلوم تھا۔ 
انہی دنوں میں پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس گیا۔ ان سے علم میں اضافے کی دعائیں مانگیں۔ ہاتھ پائوں چلاتے چلاتے میں تھک گیا تھا۔ اب مجھے آرام کی ضرورت تھی۔ میں نے سی اے چھوڑ دیا اور ماسٹرز کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہ وہ مضامین تھے، جو کسی خاص محنت کے بغیر پاس کیے جا سکتے تھے۔ دل میں یہ خیال تھا کہ کم از کم ماسٹرزکر کے تعلیم مکمل کر سکوں۔
زندگی میں پہلی بار بغیر کسی خاص محنت کے، کم نمبروں کے ساتھ میں مضامین پاس کرتا چلا جا رہا تھا۔ یونیورسٹی میں میرے ساتھ جو لڑکے پڑھتے تھے، ان کا خیال یہی تھا کہ ہارون الرشید صاحب کے صاحبزادے نے صرف ڈگری مکمل کرنی ہے۔ اس کے بعد ایک شاندار نوکری اس کے انتظار میں ہو گی۔ انہی دنوں میں نے لکھنے کی کوشش شروع کی۔ لکھ کر والد صاحب سے اصلاح کرواتا۔ لاہور کے ایک چھوٹے سے اخبار میں کچھ مہینے کالم لکھا۔ والد صاحب کے کالم کمپوز کرتا۔ پھر انہیں کالم کا پرنٹ نکال کر دیتا۔ تین تین دفعہ وہ اپنے لکھے کی اصلاح کرتے۔ یوں کافی حد تک مجھے لکھنے کی سمجھ آ گئی۔ دنیا اخبار شروع ہوئے پورا سال ہو چکا تھا۔ آخر ایک دن میں نے اپنے والد کو موبائل پر پیغام بھیجا۔ میں نے کہا کہ ساری دنیا اپنی اپنی اولاد کا کچھ کر لے گی، بس آپ نے کچھ نہیں کرنا۔ یوں زندگی میں پہلی بار وہ میری سفارش کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آنے والے برسوں میں والد صاحب کو اسسٹ کرنے کی ذمہ داری میری تھی۔ میں ہی ان کا ڈرائیور تھا، میں ہی ریسرچر اور میں ہی کمپوزر۔ استاد کا سایہ میرے سر پہ تھا۔ مجھے بھرپور پذیرائی حاصل ہونے لگی تھی۔ 
اس کے باوجود معاشی طور پر میں پوری طرح اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکا تھا۔ ان چند برسوں میں، کئی بار میں نے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کرنے کی کوشش کی۔ کوٹ ادو میں ایک دوست کے ساتھ مل کر بکروں کا فارم بنایا۔ پھر نواحِ اسلام آباد میں۔ میرا بڑا بھائی کنسٹرکشن کا کاروبار کر رہا تھا۔ میں نے اس سے یہ بات طے کی کہ میں اپنا مکان بنوانے کے خواہش مندوں اور کنسٹرکشن میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو لے کر آئوں گا۔ منافعے میں سے جتنا مجھے دینا چاہو، دے دینا۔ بیس پچیس لوگوں نے گھر بنوانے کے لیے رابطہ کیا، بعد میں سب کے سب غائب ہو گئے۔ انہی دنوں میں، میں نے کالم نگاری چھوڑنے کا اعلان کیا۔ بہت سے فیصلے غلط بھی ہوئے لیکن فیصلہ سازی میں تاخیر کبھی بھی نہیں ہوئی۔ 
میری شادی ہو چکی تھی، وزن بڑھتے بڑھتے 80 کلو تک پہنچ چکا تھا۔ میں نے کھانا نصف کر دیا۔ دوڑ بھی لگاتا رہا۔ یوں میں نے 9 کلو وزن کم کیا۔ اضافی وزن شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض سمیت مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ دوڑ لگانے سے جب دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے تو یہ جسم اور دماغ کے لیے انتہائی مفید ہوتا ہے۔ 
میں سوچتا رہا۔ مختلف منصوبے بناتا اور ان پر عمل درآمد کرتا رہا۔ کوئی بھی چیز منصوبے کے مطابق نہیں ہو رہی تھی۔ کسی دانشور کا یہ قول مجھے یاد آرہا تھا کہ اگر تم خدا کو ہنسانا چاہتے ہو تو اسے اپنے منصوبے سنائو۔ اس کے باوجود ان کوششوں کے دوران ایسے لوگوں سے مجھے واسطہ پڑا، جن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ہمیشہ میں نے انتہائی حد تک رسک مول لیا۔ دو تین بار، جب میں مکمل ناکامی اور مایوسی کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایسی مدد فراہم ہوئی، جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ 
آج میں یہ سوچتا ہوں کہ کتنا اچھا ہوا کہ میں سی اے پاس نہیں کر سکا۔ اس لیے کہ مجھے جتنا کچھ سیکھنے کا موقع ملا، وہ وہاں نہیں مل سکتا تھا۔ حالات کتنے ہی خراب ہوں، وہ 2007ء جتنے خراب نہیں۔ زندگی اب بند گلی میں نہیں اور نہ چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے۔ پائلو کوہلہو نے کہا تھا Be brave, take risks, nothing can sbstitute experience۔ زندگی میں جو بھی راستہ، جو بھی جہت سمجھ آتی ہے، اس سمت اپنی بھرپور کوشش کرتے رہئے۔ یہی آج تک میں نے کیا ہے اور مستقبل میں بھی یہی ارادہ ہے۔ دو لوگ ایسے تھے، جنہوں نے میری کوششوں سے متاثر ہو کر کوئی کام شرو ع کیا۔ وہ کامیابی تک پہنچ بھی چکے ہیں۔ میں ابھی تک نہیں پہنچ سکا۔ اس کے باوجود ہتھیار ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہاں، ذہن میں ایک خواہش اور منصوبہ ضرور ہے، جس سے معاشی طور پر مستحکم ہونے کے بعد اپنے ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا ارادہ ہے۔ آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved