تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-05-2018

افتادگانِ خاک

امام زین العابدینؒ کا قول ایک بار پھر دہراتا ہوں: ہم اس طرح سیرتِ رسولؐ پڑھا کرتے‘ جس طرح قرآن پڑھا جاتا ہے۔ علم اور ادراک ہی نہیں درد بھی لازم ہے اور اس کے لیے درد مندوں کی صحبت میں رہنا چاہیے۔ ان کے تذکروں میں‘ ان کی یاد میں۔
دل گیا رونقِ حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
ان ساری خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود‘ دانشوروں نے جن کا ذکر کیا ہے‘ یہ ایک شاہکار خطاب تھا۔ سب سے زیادہ اہم یہ کہ پہلی بار کسی لیڈر نے‘ ایک عظیم عوامی اجتماع میں مستقبل کا پروگرام پیش کیا۔ ان پر نہ جائیے جو یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ اب کی بار مینار پاکستان پہ سامعین کی تعداد 30 اکتوبر 2011ء سے کم تھی۔ یہ حسد کے مارے لوگ ہیں۔ وہ جو محاورہ ہے ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ تو وہ انہی کے باب میں ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ''کیڑے ڈالنے‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہو گی۔ غور تو فرمائیے کہ طلال چوہدری بھی کسی کو لوٹا کہیں۔
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے
رہے میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کے فرامین‘ شکست خوردگی‘ ان کے چہروں اور لہجوں میں لکھی ہے۔ کہیں بھی تو اس کے سوا وہ کیا کہیں؟ کیا وہ اعتراف کریں کہ خلقت امڈ کر آئی۔ کیا وہ تسلیم کریں کہ لاہور کی تاریخ میں‘ اس سے بڑا جلسہ کبھی ہوا ہی نہیں۔
دانشوروں کا یہ اعتراض درست ہے کہ اس کا خطاب ضرورت سے کہیں زیادہ طویل تھا۔ اس کے سوا مگر وہ کیا کرتا؟ وہ ایک جذباتی وجود ہے۔ ایک سیاسی مقرر کے طور پر اس کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں۔ ہرگز وہ ایک فصیح آدمی نہیں۔ طولِ کلام کا شکار بھی ہوتا ہے۔ اصول یہی ہے کہ موزوں ترین الفاظ کا انتخاب کیا جائے۔ بات کو دہرایا نہ جائے۔ موضوع سے گریز نہ کیا جائے۔ جو بات شروع کی جائے‘ اوّل اسے مکمل کیا جائے‘ پھر دوسری بات۔ بے مقصد جملوں سے اجتناب کیا جائے‘ مثلاً یہ کہ ''سنو‘ یہ بڑی اہم بات ہے‘‘۔ کسی نکتے پر زور دینے کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے‘ گاہے دھیمی یا ایک ذرا سا وقفہ دیا جاتا ہے۔ ایسی چابک دستی کا مظاہرہ وہی کر سکتا ہے‘ جس نے اعلیٰ ادب کا مطالعہ کیا ہو۔ ان چیزوں کی اہمیت سے جو آشنا ہو۔ وہ محمد علی جناحؒ تھے‘ وہ چرچل تھے۔ قائد اعظم لندن کا کلاسیکل تھیٹر دیکھنے جایا کرتے اور چرچل بھی۔
قائد اعظم اور چرچل نہیں‘ محمد علی جوہر اور نہرو نہیں‘ وہ عمران خان ہے۔ وہ ایسا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ یہی غنیمت ہے کہ اب روانی سے وہ بات کرتا ہے۔ نواز شریف کی طرح کاغذ کے پرزوں اور شہباز شریف کی طرح پرویز رشید کے جملے رٹنے اور بلاول بھٹو کی طرح لکھی ہوئی تقریر پڑھنے سے گریز کرتا ہے۔ اگرچہ اس بات کا وہ برا مانتا ہے لیکن وہ کوئی صاحبِ علم آدمی نہیں۔ آکسفرڈ یونیورسٹی سے سیاست کی تعلیم پانے کے باوجود‘ نہ وہ سیاست کا اچھا طالب علم ہے اور نہ تاریخ کا۔ باایں ہمہ اپنے حریفوں کے برعکس‘ وہ محض ایک شعبدہ باز اور نعرہ فروش نہیں۔ اس کی رائے غلط ہو سکتی ہے‘ دعویٰ اور تجزیہ بھی کہ حد سے زیادہ اعتماد کا شکار رہتا ہے‘ قدرے نرگسیت کا بھی۔ اس کے باوجود‘ بنیادی طور پر وہ فریب دہی کا ارادہ لے کر نہیں اٹھتا‘ جس طرح کہ کچھ دوسرے لوگ۔ اقتدار کا متلاشی ضرور ہے‘ دولت کے انبار جمع کرنے کا نہیں۔ اس ذرا سی خود پسندی کے طفیل‘ جس سے شاید کبھی وہ آزاد نہ ہو سکے‘ اپنے بارے میں‘ اس کا گمان بہت اچھا ہے۔ اگر وہ اپنی ذاتی زندگی کے واقعات نہ سناتا تو اور کیا کرتا۔
دانشوروں سے اتفاق نہیں کہ تقریر 30 منٹ سے زیادہ نہ ہونی چاہیے تھی‘ پچاس پچپن منٹ تو لازماً اسے خطاب کرنا تھا۔ دور دور سے لاکھوں لوگ اسے دیکھنے اور اس کی بات سننے آئے تھے۔ یہ ایک شخصیت پرست قوم ہے‘ کسی سے امید وابستہ کر لے تو دنیا جہان کے امکانات‘ اس کے اندر انہیں دکھائی دینے لگتے ہیں۔ زندگی کی تمام دانائی اور کائنات کی ساری وسعت۔
والدہ کی علالت اور گڑھی شاہو والے واقعات سنانے میں کوئی حرج نہ تھا مگر چند الفاظ میں سمیٹے جا سکتے تھے۔ ''تھکا ہارا میں مسجد میں گیا‘ یہ سوچتا ہوا کہ بیچارے غریب کیا دے سکتے ہیں لیکن پھر ان کے خلوص نے مجھے حیرت زدہ کر دیا‘‘۔ سوچ سمجھ کر بہت بہتر الفاظ بھی کہے جا سکتے ہیں۔ عرب کہا کرتے تھے: ''بہترین کلام وہ ہوتا ہے‘ جو مختصر اور مدلّل ہو‘‘۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ محض اپنی مثال دینا‘ حسن ذوق کے خلاف ہے۔ عظیم رہنمائوں کا ذکر اسے کرنا چاہیے تھا۔ ان کی روشن زندگیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ دیتا۔ ان کے کچھ واقعات سناتا۔
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
اپنا ہی ذکر کرتے چلے جانا‘ صحت مند اندازِ فکر کی علامت نہیں۔ یہ انداز فکر نواز شریف اور شہباز شریف کو زیبا ہے۔ کرکٹ کا عالمی کپ جیتنے‘ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی تعمیر کرنے والے کو نہیں۔ لیکن ایسا تو وہ تبھی کر سکتا‘ اہل علم کی صحبت کا اگر خوگر ہوتا۔ یہ بات کبھی اس کی سمجھ میں آ ہی نہ سکی کہ خود سے زیادہ جاننے والوں سے ملتے رہنا کس قدر ضروری ہے۔ ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنا کس قدر ضروری ہے۔ دن رات خوشامدیوں میں گھرا رہتا ہے۔
اس کے باوجود میں نے یہ کیوں عرض کیا کہ یہ ایک شاہکار خطاب تھا۔ اس لیے کہ پہلی بار کسی لیڈر نے‘ اقتدار ملنے کا جسے امکان ہے‘ 50 لاکھ چھوٹے مکان تعمیر کرنے کا وعدہ کیا۔Health Emergency کی بات کی۔ زراعت ہی نہیں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو بہتر بنانے کا پیمان کیا۔ گنّے کے مجروح اور محروم کاشتکاروں کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا۔ ایک سال میں مقدمات کا فیصلہ‘ خواتین کے الگ پولیس سٹیشن‘ پولیس اور پٹوار کی اصلاح‘ جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ‘ ٹیکس وصولی کے لیے ایف بی آر کی تشکیل نو۔ کہنے کو یہ بات دوسرے بھی کہہ سکتے ہیں مگر ان کا اعتبار کیا۔ ہزار بار انہوں نے دعوے کیے اور ہزار بار ہی توڑ ڈالے۔
اگر تمہید وہ نہ باندھتا‘ اگر ذاتی زندگی کے واقعات دراز نہ کرتا تو اہم نکات کی تفصیل بیان کر سکتا۔ عوامی خطابت میں سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ خلقِ خدا کی دلچسپی قائم رہے۔ ایک بڑی اور مستقل خامی یہ ہے کہ خطاب کے ہنگام درمیانہ اور بالائی درمیانہ طبقہ اس کے ذہن میں ہوتا ہے‘ پچھڑا اور کچلا ہوا عام آدمی نہیں۔ صدیوں کے ستائے‘ ان لوگوں کے بارے میں اسے سوچنا چاہیے‘ سوچتے رہنا چاہیے۔ ان کے دکھ درد اور اذیّتوں کے بارے میں۔ آس اور امید سے تہی‘ ان زندگیوں کے بارے میں‘ ریگِ صحرا کی طرح جو بے معنی ہو گئی ہیں۔ وہ دوسروں جیسے انسان ہیں۔ دوسروں ایسی صلاحیتوں اور امکانات سے بہرہ ور۔ عظیم رہنمائوں‘ مصلحین اور پیغمبران عظام نے انہی کے بل پر انقلابات برپا کیے۔ ان کے درد کو سمجھا۔ انہیں تعلیم دی‘ ان کی تربیت کی اور دنیا کو بدل ڈالا۔ قریش کے جلیل القدر سردار‘ جناب ابوبکر صدیق ؓ‘ عمرؓ ابن خطاب اور خالد بن ولیدؓ، سرکارؐ کو عزیز تھے تو بلالِ حبشی‘ اپنا آزاد کردہ غلام زیدؓ اور ان کے فرزند اسامہؓ بھی۔ زیدؓ کو لشکروں کی سرداری بخشی گئی اور اسامہؓ کو بھی۔ جب وہ تربیت پا چکے‘ جب وہ نکھر چکے۔ معاشرہ عامیوں کو سرفراز کرنے سے ثمربار ہوتا ہے‘ فقط سرداروں کو نہیں‘ ہمارے لیڈروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ان کے دلوں اور روحوں کو چھو لے۔ گداز قلب سے محروم رکھے گئے لوگ!
امام زین العابدینؒ کا قول ایک بار پھر دہراتا ہوں: ہم اس طرح سیرتِ رسولؐ پڑھا کرتے‘ جس طرح قرآن پڑھا جاتا ہے۔ علم اور ادراک ہی نہیں درد بھی لازم ہے اور اس کے لیے درد مندوں کی صحبت میں رہنا چاہیے۔ ان کے تذکروں میں‘ ان کی یاد میں۔
دل گیا رونقِ حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved