ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے تبدیلی
کے نعرے لگا رہے ہیں: نواز شریف
مستقل نااہل اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے تبدیلی کے نعرے لگا رہے ہیں ‘‘ اور میرا اعتراض ریموٹ کنٹرول والوں پر ہے جنہوں نے ہم سے یہ ریموٹ چھین کر دوسروں کو دے دیا ہے جبکہ تبدیلی کا نعرہ بھی غلط ہے کیونکہ میں نے ملک کو جن اندھیروں میں دھکیل دیا ہے کوئی مائی کا لعل اسے وہاں سے نہیں نکال سکتا کہ قرضے ہی اتنے ہم نے لے کر اِدھر اُدھر کر دیئے ہیں کہ مخالفوں کی حکومت جو آنے والی ہے انہیں ادا ہی نہیں کر سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم کسی مہرے کے جھانسے میں نہیں آئے گی ‘‘ کیونکہ پہلے ہمارے جھانسے سے نکل کر تو دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک و قوم کے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ‘‘ جو اب تک ہم خود ہی اٹھاتے رہے ہیں جبکہ ملک و قوم کو ان مفادات کی عادت ہی ہم نے نہیں پڑنے دی اور اپنے مفادات ہی کو بجا طور پر ملک و قوم کے مفادات سمجھتے رہے اور یہی بات کسی کو ہضم نہیں ہو رہی، آپ اگلے روز جاتی امرا میں گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستانیوں نے کبھی مایوس نہیں کیا : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ ''پاکستانیوں نے کبھی مایوس نہیں کیا ‘‘ اور جب بھی میں چندہ لینے کیلئے ان کے پاس گیا ہوں، مایوس نہیں ہوا، لیکن ووٹ دیتے وقت پتہ نہیں انہیں کیا ہو جاتا ہے۔ اس لئے آئندہ میں چندہ ہی سمجھ کر ووٹ مانگا کروں گا کہ اس سے سیاسی کینسر ہسپتال بنانا ہے کیونکہ ملک میں ایک بھی سیاسی کینسر ہسپتال نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ '' ملک میں آج کرپٹ لوگوں کی حکومت ہے ‘‘ اس لئے ہماری حکومت سے بھی کوئی خیر کی امید نہ رکھے کہ آخر ہم بھی بندے بشر ہیں اور عوام کو کرپشن کی عادت بھی پڑی ہوئی ہے، نیز میرے ساتھ کچھ بزرگ ایسے بھی ہیں اس سلسلے میں جن کی شہرت کچھ ایسی قابل رشک نہیں ہے اور کچھ لوگوں کو بکنے کی بھی عادت پڑ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''خون کے آخری قطرے تک عوام کیلئے لڑوں گا‘‘ اور عوام کے لئے لڑ کر باقی عمر اسی آخری قطرے سے ہی گزارنے کی کوشش کروں گا، آپ اگلی شب مینار پاکستان پر ایک بڑے جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
شریف برادران ہمیشہ کراچی کا خون چوستے رہے: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''شریف برادران ہمیشہ کراچی کا خون چوستے رہے‘‘ حالانکہ انہیں پنجاب کے خون پر ہی اکتفا کرنا چاہئے تھا اور کراچی کا خون ہمارے لئے چھوڑ دینا چاہئے تھا، تاہم ہم نے بھی اپنی بساط کے مطابق کچھ دال دلیا کر ہی لیا تھا جو کہ باقی کسر ہم نے اندرون سندھ سے ہی نکال لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''مستقل قومی مصیبت سے آزاد کرائیں گے‘‘ اگرچہ بعض ہمیں ہی قومی مصیبت قرار دے رہے ہیں حالانکہ پاکستان کی حکومت ہمیں مل گئی تو ہمیں اس لقب سے یاد کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''الطاف مافیا کا خاتمہ کیا، عمران کو بھی شکست دیں گے‘‘ بشرطیکہ کچھ قوتوں نے ہم پر واقعی اعتماد کر لیا، اول تو ان لوگوں کی یاد داشت کافی کمزور ہوتی ہے اور اینٹ سے اینٹ بجانے والی بات انہیں بھول چکی ہوگی۔ آپ اگلے روز لیاقت آباد میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
یہ ہم جو ساحلوں پر چل رہے ہیں
خبر رکھتے ہیں غرقابی کہاں ہے (شعیب زماں)
خود کشی تک حرام ہے‘یعنی
یہ بھی ممکن نہیں کہ مر جائیں (انور شعور)
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملناتو ہاتھ بھی نہ ملا (بشیر بدر‘ بھارت)
مری داستاں تری داستاں سے نہیں ملی
کبھی یہ زمیں کسی آسماں سے نہیں ملی (اسد عباس خاں)
اس کے نزدیک پہنچ کر مجھے معلوم ہوا
وہ کسی دوسرے دریا کا کنارہ تھا کوئی
کل رات میں شکستِ ستمگر سے خوش ہوا
وہ رو پڑا تو دل مرا اندر سے خوش ہوا
دریا تھا‘ چاند رات تھی‘ اور اس کا ساتھ بھی
لیکن میں ایک اور ہی منظر سے خوش ہوا
میں اس کے ہمسفر سے ملا اس تپاک سے
اندر سے جل کے رہ گیا، باہر سے خوش ہوا (جمال احسانی)
یاد کو ساتھ لیا‘ ہاتھ پہ دریا رکھا
یوں قدم ہم نے ترے ہجر میں پہلا رکھا (ندیم اجمل عدیم)
اک ڈائری پرانی مرے ہاتھ کیا لگی
یادوں کے زرد پیڑ یکا یک مرے ہوئے (بلقیس خان)
ہم ایسے نصف نصیبوں کو مل بھی سکتی ہے
بہشت جس میں میسر ہوں گھر کرائے پر (ڈاکٹر کبیر اطہر)
کنجِ تاریک سے اٹھایا گیا
پھر کہیں روشنی میں لایا گیا
آگ، پانی، ہوا ہوں، مٹی ہوں
اس سے آگے نہیں بتایا گیا
مجھ کو پھینکا ہے آب سرکش میں
تیرنا بھی نہیں سکھایا گیا (طارق اسد)
اونچے پربت مرے کھلونے تھے
گھرے کی دیوار سے گرا ہوں میں( عاصم تنہا)
آج کامطلع
اِدھر بیٹھتا یا اُدھر بیٹھتا ہوں
کوئی کام اُلٹا ہی کر بیٹھتا ہوں