تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     02-05-2018

چین اور بھارت میں بڑھتی ہوئی قربت

شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے صدور کے درمیان انتہائی غیر متوقع اور اہم ملاقات کے بعد دنیا بھر کے نیوز چینل پر جزیرہ نما کوریا سے آنے والی خبریں اور ان پر ماہرانہ تبصرے چھائے ہوئے ہیں‘ حالانکہ اس کے ساتھ ہی ایشیا کے دو بڑے ممالک چین اور بھارت کے تعلقات میں بھی ایک ایسی تبدیلی آ رہی ہے، جو ایشیا میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی سیاست بدل کر رکھ دے گی۔ چین کے شہر وومان میں صدر ژی جن پنگ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان حال ہی میں ایک اہم ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کو اگرچہ ایک غیر رسمی ملاقات قرار دیا جا رہا ہے لیکن جن امور پر دونوں رہنمائوں کے درمیان بات چیت ہوئی ہے اور ملاقات کے بعد جو اعلانات جاری کئے گئے ہیں ان کے پیش نظر یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ایشیا کے ان دو بڑے ملکوں کے باہمی تعلقات ایک اہم کروٹ لے رہے ہیں۔ اور جب اس تبدیلی کو ہم ان مسائل اور جھگڑوں یا اختلافات کی روشنی میں دیکھتے ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان ابھی تک موجود ہیں تو اور بھی حیرانی ہوتی ہے‘ مثلاً چین اور بھارت کے درمیان تقریباً 50 سالہ پرانا سرحدی جھگڑا اب بھی موجود ہے۔ اسی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان 1962ء میں سرحدی جنگ بھی ہوئی تھی۔ یہ جھگڑا دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث چلا آ رہا ہے۔ یہ کشیدگی کبھی کبھی سنگین صورتحال بھی اختیار کر جاتی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ موسم گرما میں بھوٹان اور چین کی آپس میں ملنے والی سرحد پر ایک مقام ڈوکلم پر چین اور بھارت کی فوجوں کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں چین اور جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک مثلاً نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا کے درمیان تعلقات میں جو پیش رفت ہوئی ہے بھارت اسے سخت تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ چین ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا کر بھارت کے گرد گھیرا ڈالنا چاہتا ہے لیکن چین کی طرف سے اس الزام کو بے بنیاد کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے اور اس کا موقف یہ ہے کہ چین جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون کیلئے دو طرفہ بنیادوں پر تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں چین خود بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کی مثال دیتا ہے جس کا گزشتہ برس یعنی 2017ء میں تجارتی کل حجم 85 ملین امریکی ڈالر تھا اور جس کی بدولت اس وقت چین بھارت کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے‘ لیکن اس کے باوجود چین کے بارے میں بھارت کے خدشات دور نہیں ہوئے اور وہ بحر ہند کے علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے امریکہ کے ساتھ دفاعی تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان دوسرا اہم اختلاف سی پیک کا منصوبہ ہے جس پر 2015ء میں پاکستان اور چین نے دستخط کئے تھے۔ چین نے قدیم شاہراہ ریشم کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے بیلٹ اور روڈ انیشی ایٹیو (BRI) کے نام سے جو بڑا منصوبہ شروع کیا ہے‘ سی پیک اس کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کی بنیاد پاکستان اور چین کے درمیان ایک دو طرفہ معاہدہ ہے‘ مگر اس میں دیگر ممالک خصوصاً جنوبی، مغربی اور وسطی ایشیا کے ممالک کی شمولیت کی نہ صرف گنجائش موجود ہے بلکہ اس منصوبے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لئے یہ ضروری بھی ہے۔ چین کی خواہش ہے کہ بھارت بھی اس میں شامل ہو بلکہ BRI کی گزشتہ برس مئی میں بیجنگ میں جو عالمی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی چین نے اس میں بھارت کو شرکت کی دعوت دی تھی، مگر بھارت نے اس میں شرکت نہیں کی تھی، حالانکہ ''سارک‘‘ کے باقی پانچ ممالک یعنی پاکستان، افغانستان، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ نے اس میں شرکت کی تھی۔ بھارت کی عدم شرکت کی بڑی وجہ سی پیک پر اس کا اعتراض ہے۔ چین میں بھارت کے سفیر گوتم بمبانوالہ نے حال ہی میں بھارت کے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک کا گزر ایسے علاقوں میں سے ہے جن کو بھارت اپنے دیش کا حصہ سمجھتا ہے‘ یعنی گلگت اور بلتستان کے علاقے۔ اسی بنا پر بھارتی سفیر نے دعویٰ کیا ہے کہ سی پیک بھارت کی علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے اور بھارت کے اس اعتراض کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ چین بھارت کے ساتھ سی پیک کے مسئلے پر بات چیت جاری رکھنا چاہتا ہے۔ متعلقہ ذرائع کے مطابق چین اور بھارت کے درمیان اس مسئلے پر مذاکرات کے کئی دور ہوئے ہیں لیکن تاحال بھارت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور بھارت چین کے BRI منصوبے کا حصہ بننے سے بدستور انکاری ہے۔
ان اختلافات کے باوجود ووہان ملاقات کے بعد چینی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان نہ صرف دو طرفہ تعلقات بلکہ علاقائی اور عالمی امور کے بارے میں بھی موقف کی جو یکسانیت سامنے آئی ہے وہ نہ صرف حیران کن بلکہ دور رس سیاسی مضمرات کی حامل ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اور چین شعوری طور پر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور باہمی اختلافات کی صورت میں جو رکاوٹیں اس راستے میں موجود ہیں ان کو ایک طرف رکھا جا رہا ہے۔ اس کا ایک نمایاں ثبوت بھارت میں موجود تبت کے مہاجرین بلکہ خود دلائی لامہ کی چین مخالف سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لئے بھارت کی طرف سے کئے گئے حالیہ اقدام بھی ہیں۔ اس کے باوجود کہ چین بھارت سرحدی تنازع ابھی تک حل طلب ہے اور BRI میں شمولیت پر بھارت ابھی تک آمادہ نہیں اور امریکہ کے ساتھ نریند مودی کی سرکار پینگیں بڑھا رہی ہے ووہان میں صدر ژی اور وزیر اعظم مودی کی ملاقات کے بعد جو اعلانات جاری کئے گئے ہیں ان سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں نے نہ صرف تجارت اور اقتصادی تعاون کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ اس سے آگے علاقائی سطح پر انسدادِ دہشتگردی اور افغانستان جیسے مسائل پر مشترکہ کوششیں کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ چین اور بھارت افغانستان میں مشترکہ منصوبے شروع کریں گے اور اس کے لئے متعلقہ شعبوں کی نشان دہی کی جائے گی۔ افغانستان میں چین اور بھارت کے درمیان مشترکہ منصوبوں پر اتفاق پاکستان کے لئے بہت اہم خبر ہے۔ اس لئے کہ افغانستان میں تقریباً تین ٹریلین امریکی ڈالرز مالیت کی قیمتی معدنیات اور دھاتوں پر مشتمل ایک بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ اس دریافت نے افغانستان کے مسئلے کو ایک بالکل نیا رخ مہیا کر دیا ہے، کیونکہ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں‘ جن میں امریکہ، روس اور چین شامل ہیں، معدنیات کے اس ذخیرے سے استفادہ کرنا چاہتی ہیں۔ چین ان معدنیات کے ایک حصے کو زمین سے نکالنے اور صاف کرنے کے عمل کا پہلے ہی ایک ٹھیکہ حاصل کر چکا ہے۔ اگر اس میں بھارت کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے تو اس کا علاقائی سیاست پر بڑا گہرا اثر پڑے گا۔ عالمی سطح پر چین اور بھارت کے ایک دوسرے کے قریب آنے سے جو اثر پڑ سکتا ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک ہیں۔ ان کی مجموعی آبادی دو ارب 60 کروڑ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ابھرتی ہوئی معاشی قوتیں ہیں۔ اس وقت عالمی معیشت میں دونوں کے حصے کو اگر ملایا جائے تو 17.6 فیصد حصے سے زیادہ بنتا ہے۔ دونوں ممالک شنگائی تعاون تنظیم (SCO) کے ممبر بھی ہیں۔ نہ صرف دو طرفہ بنیادوں پر بلکہ کثیر جہتی سطح پر بھی چین اور بھارت کے درمیان تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کیلئے تبدیلی کا یہ عمل ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جس کے تمام مضمرات کا ادراک کرنے کے بعد اسے اپنی علاقائی پالیسی میں ضروری تبدیلیاں لانا ہوں گی تاکہ اس سارے عمل اور ان ساری تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے مفادات کو متاثر ہونے سے بچایا جا سکے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved