مصر کے صدر اور اسلامی تحریک کے رہنما محمد مرسی آئے تو ہندوستان لیکن ازرہِ التفات ہمارے ہاں بھی تشریف لائے۔اس سفر میں کہیں کشمیر کا ذکر ہوا نہ امت مسلمہ کے سلگتے مسائل کا۔اگر بات ہوئی تو اس پر کہ بھارت مصر کے اقتصادی بحران میں کیسے مددگار ہو سکتا ہے۔خواہش کی گئی تو یہ کہ 5.5بلین ڈالر کا تجارتی حجم کیسے دس بلین ڈالر تک پہنچے۔عالم اسلام کے روایتی حکمران تو ٹھہرے مفاد پرست اور عالمی طاقتوں کے ایجنٹ‘ ایک اسلامی تحریک کے قائد کو کیوںکشمیر کے مظلوموںکی صدا سنائی نہیں دی؟شہدا کی وہ لاشیں کیوں دکھائی نہ دیں جن سے کشمیر کے مقتل اور قبرستان آباد ہیں۔ یہ سوالات بہت تلخ ہیں ،لیکن کیا کیا جائے کہ ان کا سامنا کیے بغیر چارہ نہیں۔زمینی حقائق سے صرفِ نظر ممکن نہیں ہوتا۔حزب اختلاف کی سیاست تو بہت آسان ہوتی ہے ۔حکمرانوں کو امریکی ایجنٹ کہنا بھی آسان ہے لیکن اگر زمامِ کار آپ کے ہاتھ میں ہے توپھر آپ کا امتحان ہوتا ہے کہ آپ آئیڈیل ازم اور حقیقت پسندی میں کیسے تطبیق کرتے ہیں۔مصر میں اخوان کی حکومت ہے۔ابھی تک مصر اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات برقرار ہیں۔امریکہ کے ساتھ بھی قربت ہے۔اگر اخوان حکومت کے اس طرز عمل کو سید قطب کی تحریروں کو سامنے رکھتے ہوئے پرکھا جائے تو شاید وہی رائے قائم کرنا پڑے جو ہماری جماعت اسلامی صدر آصف زرداری کے بارے میں رکھتی ہے۔امریکی ہدایات سے اتنا انحراف تو آصف زرداری نے بھی کیا کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ آگے بڑھایا اور گوادر پورٹ کا انتظام چین کو دے دیا۔ سیاست ہو یا اقتصادیات ،زندگی کے فیصلے آئیڈیل ازم کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے رہنماؤں نے عوامی خواہشات کی سوداگری کی۔ہمیں ان تصورات کا اسیر رکھا جن کا زمین پر کوئی وجود نہیں تھا۔ان پیش واؤں نے آرزُو کو واقعہ بنا کر پیش کیا اور یہ تاثر دیا کہ آرزُو اور واقعہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہمارے حکمران ہیں۔ہمیں بتا یا گیا کہ مصر میں اگر اخوان کی حکومت قائم ہو جائے تو اسرائیل باقی رہے نہ امریکی اثرات۔یا پاکستان میں اسلامی تحریک کے لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائیں تو امریکا ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہو جائے اور یوں دنیا میں طاقت کا توازن یکسر تبدیل ہو جائے۔ اسرائیل کے باب میں صدر مرسی کے خیالات ہم سے مختلف نہیں۔مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھی میرا گمان ہے کہ ان کے جذبات وہی ہیں جوہمارے ہیں‘ لیکن اس وقت وہ مصر کے صدر ہیں ۔انہیں مصر کے مفادات عزیز ہیں اور وہ اُن کی ترجیح ہیں۔ مصر کے مفادات کا تقاضا ہے کہ بھارت میں کشمیر کے بارے میں کوئی گفتگو نہ کی جائے‘بھارت کی مذمت نہ کی جائے اور کشمیری اہل اسلام کے قاتلوں سے تجارتی معاہدے بھی کیے جائیں۔بظاہر یہ تضاد ہے لیکن اگرہم بطور سوال اسے صدر مرسی کے سامنے رکھیں گے تو وہ اس کا استدلال پیش کریں گے۔ استدلال وہی ہوگا جو پاکستان کے حکمران رکھتے ہیں۔ہم ایک استدلال قبول کر لیتے ہیں اور دوسرا نہیں۔فرق صرف گمان کاہے‘ ایک حُسنِ ظن اور دوسرا سُوئے ظن۔آخر ساری بدگمانی اپنے حکمرانوں کے لیے کیوں؟ واقعہ یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ آج ایک اسم ہے جس کا کوئی مسمٰی نہیں۔قومیںآج اوطان ہی سے بن رہی ہیں۔جغرافیہ ایک عملی حقیقت ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔اگر آج اربکان جیسا کوئی مخلص رہنما اُمّتِ مسلمہ کا احیاء کرنا چاہتا ہے تو اسے بھی جغرافیائی اکائیوں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔علامہ اقبال نے بھی اصلاً یہی بات کہی تھی کہ تمام مسلمان ممالک اپنی آزاد حیثیت میں بطور اکائی منظم ہوں۔اس کے بعد وہ لیگ آف نیشنز کی طرز پہ متحد ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی فکری اور سیاسی قیادت نے ہمیں حقائق سے دُور رکھا ہے۔انہوں نے صرف خواب بیچے ہیں اور جو کام انہیں کرنے تھے وہ نہیں کیے۔مجھے جب کسی ترقی یافتہ ملک جانے کا اتفاق ہوا تو میں ہمیشہ یہ دیکھ کر کڑھتا رہا کہ ہمارے سیاسی رہنما اکثر یہاں آتے ہیں ۔بعض تو وہیں پلے بڑھے۔کیا انہیں معلوم نہیں کہ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں؟کیا یہ نہیں جانتے کہ جو ممالک آج ترقی یافتہ شمار ہوتے ہیں،انہوں نے ترقی کا کیا منہاج اختیار کیا؟بے نظیر بھٹو اور عمران خان طویل عرصے تک برطانیہ میں زیر تعلیم رہے۔نواز شریف صاحب سے کیا چھپا ہوا ہے۔آخر یہ لوگ پاکستانی قوم کو کیوں نہیں بتاتے کہ ترقی کیسے کی جاتی ہے اور اس کے لیے سماجی رویوں میں کیا تبدیلی ناگزیر ہے۔ مذہبی قیادت کا مسئلہ تو اس زیادہ تشویش ناک ہے۔معاصر دنیا میں اسلامی انقلاب کے پانچ تجربات ہوئے۔سعودی عرب،سوڈان،افغانستان،ایران اور پاکستان۔ انہوں نے اپنی اپنی قوم اور پھر امتِ مسلمہ کو کیا دیا؟اس کے ساتھ وہ تجربات بھی ہیںجو ملائیشیا،ترکی اور اب مصر میں ہوئے۔ان سے کیا نتائج برآمد ہو رہے ہیں؟پاکستان میں ان کا کوئی سنجیدہ مطالعہ نہیں ہوا۔ہمارے ہاں جماعت اسلامی نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ ترکی کا اسلامی انقلاب وہی ہے ،جماعت پاکستان میں جس کی علم بردار ہے۔حالانکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اگر پاکستان میں جماعت اسلامی برسر اقتدار آ جائے توکیا وہ شراب خانہ کھو لنے کی اجازت دے گی؟کیا وہ لبرل طرز زندگی کو گوارا کرے گی؟یہ سب کچھ ترکی میں ہوا ہے اور اس کے ساتھ ’’اسلامی حکومت‘‘بھی ہے۔مصر میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ یہاں آج اسلامی تحریک کی حکومت ہے۔مصر کی اقتصادی ترقی اس کا مطمح نظر ہے ۔انہیں معلوم ہے کہ اگر انہیں وہاں کی سیاست میں زندہ رہنا ہے تو اس کے لیے لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا اور ان کے معاشی و اقتصادی مسائل حل کرنا ہوں گے۔ کشمیر کے معاملے میں صدر مرسی کی خاموشی میرے نزدیک اس بات کا اظہار ہے کہ قومیں کوئی اقدام محض جذبات کی بنیاد پر نہیں کرتیں۔ انہیں زمینی حقائق کے اعتراف ہی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ہمارے پاس بھی اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔افسوس یہ ہے کہ ہماری سیاسی اور مذہبی قیا دت کے منہ کو جذبات کا خون لگ گیا ہے۔وہ عوام کو حقیقت پسند نہیں بناتیں۔آج کوئی سیاسی اور مذہبی جماعت قوم کو یہ نہیں بتاتی کہ افغانستان اور کشمیر کے معاملے میں زمینی حقائق کا تقاضا کیا ہے؟دہشت گرد کون ہیں؟عام آدمی معصوم ہوتا ہے۔اسے جب پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان دے گی تو وہ مان لیتا ہے۔یہ سوال نہیں کرتا کہ چار بار آپ کی حکومت رہی‘ کیا یہ سب عوام کو مل سکا؟پاکستان کی اسلامی تحریکیں کیا عوام کوبتا سکتی ہیں کہ اخوان کے رہنما محمد مرسی نے بھارت جا کر کشمیر کی بات کیوں نہیں کی؟کیا انہوں نے امت مسلمہ کے تصور کو بھلا دیا؟کیا کشمیری مسلمان امت مسلمہ کا حصہ نہیں ہیں؟میں ایسا نہیں سمجھتا،اس لیے کہ میں آرزُو اور حقیقت کے مابین فرق کو جانتا ہوں۔ کاش ہمارے فکری و سیاسی رہنما قوم کی صحیح رہنمائی کر سکیں۔ انہیں خواہش اور حقیقت کا فرق بتا سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved