تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-05-2018

ڈرنا … اور مرنا لازم ہے نہ سُود مند!

دنیا کا ہر انسان تخلیقی جوہر سے متصف ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر معاشرے میں بیشتر افراد قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیے بغیر کیوں اِس دنیا سے چل دیتے ہیں۔ سوال بلا جواز یا غیر منطقی نہیں۔ کوئی بھی انسان صلاحیتوں کے بغیر پیدا نہیں ہوتا۔ سوال صرف یہ ہے کہ صلاحیتوں کو شناخت کرکے اُنہیں بروئے کار لانے کی تیاری کی جاتی ہے یا نہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کہیں قیمتی پتھر کا کوئی بڑا پہاڑ کھڑا ہے۔ یہ قیمتی پتھر اُسی وقت کام آسکتا ہے جب پہاڑ کو کاٹ کر پتھر نکالا جائے، اُسے پالش کرکے بہتر حالت میں لایا جائے اور پھر اُس سے مختلف اشیاء بنائی جائیں۔ 
کسی بھی معاشرے میں واضح اکثریت کچھ بھی نیا کرنے سے خوفزدہ رہتی ہے۔ لوگ لگی بندھی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ کچھ بھی نیا کرنے کے معاملے میں خوف ہوتا ضرور ہے مگر اِتنا زیادہ نہیں کہ آپ کچھ بھی نہ کرسکیں۔ خوف دراصل اتنا ہی ہوتا ہے جتنا آپ محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے کچھ کر دکھانے کا عزم کر رکھا ہے تو قدم قدم پر خوف آپ کی راہ میں دیواریں کھڑی کرے گا۔ یہ فطری امر ہے۔ ہم انسان ہونے کے ناطے بہت کچھ محسوس کرتے رہتے ہیں۔ جس طور ہم میں غیر معمولی جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے بالکل اُسی طور ہمارے دل و دماغ میں خوف کا پیدا ہونا بھی غیر فطری امر نہیں۔ یہ خوف ہمارے لیے منفی نتائج اُس وقت پیدا کرتا ہے جب ہم طے کرلیں کہ اِس کے زیر اثر ہوکر ایک طرف بیٹھ جانا ہے اور کچھ بھی نہیں کرنا۔ خوف کے ہاتھوں عمل سے گریز ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ 
ہم کچھ بھی نیا کرنے سے ڈرتے کیوں ہیں؟ یہ سوال ہر انسان کو اپنے آپ سے پوچھتے رہنا چاہیے۔ بات کچھ یوں ہے کہ لگی بندھی زندگی میں اعمال اور ان کے نتائج بھی لگے بندھے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بڑا خطرہ رونما نہیں ہوتا۔ کسی بھی کام کے نتائج توقعات اور اندازوں کے مطابق برآمد ہوتے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں اُس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ جب قیمت گھٹ رہی ہو نہ بڑھ رہی ہو تب وہ مستحکم کہلاتی ہے۔ معاشرے میں اکثریت ''مستحکم‘‘ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے یعنی ایسی حالت کو ترجیح دی جاتی ہے جس میں کوئی بڑی یا قابلِ ذکر تبدیلی رونما نہ ہو رہی ہو۔ بہت سوں کے نزدیک یہ بھی غنیمت ہے کہ اگر کوئی بہتری نہ آرہی ہو تو کوئی خرابی بھی رونما نہ ہو رہی ہو۔ جب معاملات جوں کے توں چل رہے ہوں تب زندگی میں کوئی بھی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی ہوتی۔ کچھ نیا ہاتھ نہ لگ رہا ہو تب بھی جو کچھ ہاتھ میں ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ یعنی عمومی اجتماعی ذہنیت یہ ہے کہ ناکامی سے محفوظ رہنے ہی کو کامیابی سمجھ لیا جائے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎ 
آئینِ نَو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا 
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں 
صرف قوموں کی نہیں، افراد کی یعنی انفرادی زندگی میں بھی یہی منزل سب سے کٹھن ہے۔ کچھ نیا کرنے سے بہت سے عوامل باز رکھتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ دوسروں پر بے جا تنقید کرنے اور حوصلہ شکنی کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ جو لوگ کوئی خواب دیکھیں مگر اُسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرنے میں ناکام رہیں وہ اپنی ناکامی یا مایوسی کو دبانے کے لیے دوسروں میں خامیاں اور خرابیاں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ خوف انسان کو کسی بھی تخلیقی کام سے دور کرکے محض ناقد بنادیتا ہے۔ اپنے خوف پر قابو پاکر کسی بھی نئے کام کے لیے نکلنا جب کسی کے بس میں نہیں ہوتا تب وہ ناقد بن جاتا ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنے میں اپنی جیب سے کیا جاتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی معاشرے میں غالب اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو کوئی بھی نیا کام کرنے سے ڈرتے ہیں اور دوسروں کے وجود یا کارکردگی میں کیڑے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرنے اور اُن کی کارکردگی میں خرابیاں تلاش کرنے کا بنیادی مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اُنہیں کوئی بھی نیا کام کرنے سے باز رکھا جائے۔ انسانی فطرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو کام خود سے نہ ہو پائے وہ کام اگر کوئی دوسرا کر رہا ہو تو انسان چاہتا ہے کہ اُسے روک دیا جائے۔ اپنی ناکامی پر افسوس ہوا ہے۔ 
ناقد کی حیثیت سے اوروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور مزے سے کوئی رائے دینا دنیا کے آسان ترین کاموں میں سے ہے۔ قدم قدم پر کچھ نیا کہنے اور کرنے سے ڈرنے والے دوسروں پر طعنہ زنی کے ذریعے اپنے دل کو سکون بخشتے ہیں۔ ڈرنے والوں کو اِس دنیا میں کچھ نہیں ملتا۔ نہ ڈرنے کا یہ مطلب نہیںکہ کوئی ہتھیار اٹھاکر میدان میں آئے۔ شجاعت کا مظاہرہ کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ کسی بھی نئی راہ پر گامزن ہونے سے مسائل تو پیدا ہوتے ہی ہیں۔ نئے سفر میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ زندگی کی راہ کا ہر فاصلہ اِسی طور طے کرنا ہوتا ہے۔ بہت کچھ حالات اور تقدیر پر بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ جب ہم پورے خلوصِ نیت کے ساتھ کچھ نیا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ہماری مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ نیت ہی کی بنیاد پر تو ملتا ہے۔ اگر کسی کام کو شروع کرتے وقت ذہن خدشات میں گِھرا ہوا ہو تو کام کرنے کی لگن دم توڑنے لگتی ہے اور اس کا اثر ممکنہ نتائج پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ 
اگر آپ کو مستقل بنیاد پر کسی کی طرف سے تنقید کا سامنا رہتا ہے تو ڈرنے، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ بات سیدھی سی ہے، جو ڈر جاتے ہیں وہ دوسروں کو بھی ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقصود صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو، ہم کچھ نہ کرسکے تو فلاں بھی کچھ نہ کرسکا! زندگی کے تلخ حقائق سے خوف کھا جانے والوں کے پاس اپنے وجود کو متوازن اور پرسکون رکھنے کا صرف ایک آپشن ہوتا ہے ... یہ کہ دوسروں کے جذبۂ عمل کی آگ پر پانی ڈالیں، سو طرح سے خوفزدہ کرکے اُنہیں باعمل اور بامقصد زندگی بسر کرنے کے قابل نہ چھوڑیں۔ بالی وڈ بلاک بسٹر ''شعلے‘‘ میں ولن گبّر سنگھ کی زبانی یہ مشہورِ زمانہ جملہ تو آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ جو ڈر گیا، سمجھو مرگیا۔ آپ کو سمجھنا پڑے گا کہ ڈرنا ہی موت ہے۔ خوف ذہن اور دل پر سوار ہو تو انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ قصہ مختصر، ڈرنے ... اور مرنے کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ ڈرنا ... اور مرنا لازم ہے نہ سُود مند۔ اگر کچھ نیا کرنا لازم ہے تو ضرور کیجیے۔ ہاں، مشاورت کے ذریعے ممکنہ خطرات کا گراف نیچے رکھنے پر بھی توجہ دیجیے تاکہ منفی نتائج سے محفوظ رہا جاسکے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved