تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     03-05-2018

ناظم یا لیڈر؟

پاکستان کو آج ایک لیڈر کی ضرورت ہے،کسی ناظم(manager) کی نہیں۔توکیا عمران خان کی تقریر ایک لیڈر کی تقریر تھی؟
لیڈر کون ہوتا ہے؟وہی جو وژن رکھتا ہو۔جس کا ذہنی تناظر وسیع ہو۔مستقبل بین ہو ۔ اسے ملک کو درپیش داخلی اور خارجی مسائل کا ادراک ہو۔یہی نہیں،ان کے حل کے لیے ایک لائحہ عمل بھی رکھتا ہو۔جو جانتا ہو کہ جدیدریاست میں طاقت کے مراکز کون کون سے ہیں اوران میں پرامن بقائے باہمی کیسے ممکن ہے۔جو امن اورا ستحکام کی اہمیت کو جانتا ہو اور جسے معلوم ہو کہ امن کی راہ کون سی ہے اور معاشرے استحکام سے کیسے ہم کنار ہوتے ہیں۔
یہ وژن کیسے جنم لیتا ہے؟ تناظرکیسے وسیع ہوتا ہے؟ اس کے دوہی طریقے ہیں:مطالعہ یا تجربہ ۔جو لوگ قوموں کے عروج وزوال اور تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں،وہ اُن عوامل کا کھوج لگا لیتے ہیں جوقوموں کے بناؤ اور بگاڑ میں بنیادی کردار اداکرتے ہیں۔وہ ماہرین ِسیاسیات وعمرانیات کے نظریات کو پڑھتے ہیں اور ان کے نتائجِ فکر سے سیکھتے ہیں۔یوں انہیں وہ مواد(Data) میسر آ تا ہے جس کا اطلاق کرتے ہوئے،وہ اپنی قوم کو درپیش مسائل کا تجزیہ اورحل پیش کر سکتے ہیں۔
دوسری صورت تجربہ ہے۔کچھ لوگ صاحبِ مطالعہ نہیں ہوتے مگر تاریخی عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔تاریخ کے بناؤ اور بگاڑ میں شریک ہوتے ہیں۔یہ ان کی محنت کا ثمر ہو تا ہے یا وقت کا جبر کہ تاریخ ان کے ہاتھوں سے بنتی ہے۔ کوئی صاحب ِ مطالعہ نہ ہو اور تجربے سے بھی تہی دامن ہو ،وہ خام کار تو ہو سکتا ہے ،نظریہ ساز نہیں۔ اس کے پاس وژن نہیں ہوتا۔یہ ممکن ہے کہ وہ مخلص ہو۔ہو سکتا ہے کہ ان تھک بھی ہو۔ان خوبیوں کے اپنے ثمرات ہیں لیکن یہ کسی طرح وژن کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔
اپنے قیام کے بعد،پاکستان کو ایک نئے وژن کی ضرورت تھی۔تحریکِ پاکستان کا بیانیہ،14 اگست1947ء کے بعد بڑی حد تک غیر متعلق ہو گیا تھا۔یہ بیانیہ در اصل ایک ایسی قوم کا مقدمہ تھا جسے اپنی منفردتہذیبی اورمذہبی شناخت پر اصرار تھا۔اسے بوجوہ یہ خدشہ تھا کہ اکثریت اپنی عددی برتری کی زعم میں،اس کی شناخت مٹانے کے درپے ہے۔اس مقدمے کو وسیع بنیاد پر عوامی تائید میسر آئی تو تقسیم ناگزیر ہو گئی۔
تقسیم کے بعد یہ خدشہ باقی نہیں رہا۔ایک دن میں اقلیت اکثریت میں بدل گئی۔اب لازم تھا کہ ایک نئے وژن کے ساتھ ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھی جاتی۔ایسا نہیں ہو سکا۔بہت جلد ایسے واقعات پیش آئے کہ نئی ریاست کے معاملات براہ راست فوج کے ہاتھ میں چلے گئے۔اس کے نتیجے میں جو وژن ریاستی پالیسی کی بنیاد بنا ،وہ ایک 'سکیورٹی سٹیٹ‘ کا وژن تھا ۔اس وژن کے تحت قوم کی نفسیاتی تشکیل ہوئی۔اسی کی روشنی میں نصاب ِ تعلیم ترتیب دیا گیا۔اسی کے مطابق خارجہ پالیسی بنی۔اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے،بجٹ کی تقسیم ہوئی۔یہی سکیورٹی سٹیٹ کا پیراڈائم ہے جوترجیحات طے کر تا ہے؟اس وژن میں سٹیٹ کا مفاد بنیادی ہوتا ہے اور شہری کا مفاد ضمنی۔اس میں ریاست اس لیے نہیں ہوتی کہ عوام کی پرورش کرے بلکہ عوام اس لیے ہوتے ہیں کہ ریاست کادفاع اور پرورش کریں۔
اس وژن کے تحت پاکستان کی سیاست آگے بڑھی ہے۔قومی مفاد کی تعریف عسکری ایوانوں میں طے ہوئی۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں بار بار مارشل لا نافذ ہوئے۔اسی کی وجہ سے قومی سیاسی جماعتیں پنپ نہ سکیں۔اسی کے سبب سے یہ ممکن نہ ہو سکا کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم اور صحت کے لیے مختص کیا جائے۔اسی کاثمر ہے کہ ریاست اور اس کی اکائیوں میں محاذآرائی کی کیفیت ہے۔اسی کاحاصل ہے کہ جمہوریت یہاں ثمر بار نہیں ہو سکی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سکیورٹی سٹیٹ کے پیراڈائم کا ناگزیر نتیجہ سول ملٹری کشمکش ہے۔ستر سالہ تجربات کا حاصل یہ ہے کہ جب تک ریاست کا بنیادی وژن تبدیل نہیں ہوتا یہ کشمکش ختم نہیں ہو گی اور پاکستان ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔
پاکستان کو آج ایسا لیڈر چاہیے جو اس تضاد کا ادراک رکھتا ہو اور یہ جانتاہو کہ اس کی کوکھ سے کون سے مسائل جنم لے رہے ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔سادہ الفاظ میں،ایک نیا وژن پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے۔لیڈر وہی ہو گا جو یہ وژن دے گا۔اس وژن کوچند نکات کی صورت میں بیان کیا جائے تووہ کچھ اس طرح ہوں گے:
1۔ریاست کے بنیادی وژن میں تبدیلی۔سادہ الفاظ میں سکیوریٹی سٹیٹ سے ایک ویلفیئر ریاست کی طرف رجوع۔
2۔طاقت کے مراکز،سادہ الفاظ میںسول ملٹری تعلقات میں توازن۔
3۔جمہوری عمل کا تسلسل۔اس کے لیے قومی سیاسی جماعتوں کی مضبوطی اور انتخابات کا شفاف نظام لازم ہیں۔ 
4۔ خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلی،بالخصوص امریکہ بھارت اور افغانستان کے باب میں ایک نئی حکمتِ عملی کی تلاش۔
5۔ بین الاقوامی سطح پرپاکستان کی اچھی شہرت کی بحالی۔یہ مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کی نئی تشکیل کے بغیر ممکن نہیں۔
6۔سماجی انصاف کا نیا نظام۔اس کے لیے پیری مریدی اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔
7۔سماجی تشکیلِ نو۔یہ کام مقامی ثقافت کے احیا اور فنونِ لطیفہ کو زندہ کیے بغیر ممکن نہیں۔
8۔تعلیمی اصلاحات۔یہ بنیادی تعلیم کی یک جائی اور جامعات کی سطح پر آزادانہ تحقیقی فضا قائم کیے بغیر ممکن نہیں۔
9۔معاشی انقلاب۔اس کے لیے ایک مضبوط اور جدید انفراسٹرکچرناگزیرہے۔
10۔ عدالتی نظام کی اصلاح۔عوام کو سستا اور فوری انصاف ملے اور احتساب کا ایک غیر سیاسی نظام قائم ہو۔
11۔ محراب و منبر اور میڈیا سمیت،تمام سماجی اداروں کی تشکیلِ نو۔
عمران خان کی تقریرسے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیںان امور کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ ہمیں دور دور تک کسی وژن کا سراغ نہیں ملتا۔تقریر سن کر یہ احساس ہوا کہ ان کے لیے ملک ایک میونسپل کارپوریشن کی طرح کا کوئی ادارہ ہے اور وزیر اعظم ان کے خیال میںایک میئر یا ناظم ہوتاہے۔مجھے حیرت ہے کہ جس تقریر کا اتنا چرچاتھا،اس کی تیاری پر کوئی محنت نہیں کی گئی۔عمران خان پر ایمان لانے والوں کا معاملہ دوسرا ہے لیکن ایک عام پاکستانی کے لیے اس میں کوئی کشش نہیں تھی۔ہر انتخابات سے پہلے اس سے ملتے جلتے منشور لوگ سامنے آتے ہیں اوراب اس کی حیثیت ایک سیاسی رسم سے زیادہ نہیں۔
ماضی میں عمران خان بعض اہم باتیں کہتے رہے ہیں۔اس تقریر میں ان کا بھی پوری طرح اظہارنہیں ہو سکا۔ مثال کے طورپر وہ نوازشریف صاحب کے منشور کے مقابلے میں انسانی ترقی پر اصرار کر تے رہے ہیں۔یہ ایک اہم نکتہ ہے مگر وہ بھی تقریر میں اچھی طرح نمایاں نہ ہو سکا۔تعلیم کو انہوں نے اپنی پہلی ترجیح بنایا لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ تعلیم کے لیے وہ پیسہ کہاں سے لائیں گے۔ اس وقت ہم بجٹ کاجو حصہ تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں وہ تین فی صد سے کم ہے۔ ایک سکیورٹی سٹیٹ میں ناگزیر ہے کہ دفاع پر زیادہ خرچ ہو۔ ریاست کی ساخت کو تبدیل کیے بغیر یہ ممکن نہیں کہ تعلیمی مصارف کے لیے زیادہ رقم مختص کی جا سکے۔اس تقریر میں انہیں اپنا وژن پیش کر نا اور یہ بتانا چاہیے تھا کہ نوازشریف کے مقابلے میں وہ کیا متبادل وژن رکھتے ہیں۔اوریہ کہ ان کا وژن کیسے ایک انتخابی منشور میں ڈھلے گا۔ 
اس تقریر میں صرف ایک بات قابلِ تعریف تھی۔ یہ تقریر فی الجملہ مثبت تھی۔عمران خان کواس کی اشدضرورت ہے۔ انتقام اور ہیجان نے ان کی شخصیت کو برباد کر دیا ہے۔ ان کو اگر لیڈر بننا ہے تو انہیں دونوں سے نجات حاصل کرنا ہے۔ ان کو اب پاپولزم سے بھی نکلنا ہے۔ ان کے پاس تجربہ نہیں۔ اس کمی کو وہ مطالعہ سے دور کر سکتے ہیں مگر کیا اب وہ اس کے لیے وقت نکال پائیں گے؟ یوں بھی کہتے ہیں کہ انسان اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved