تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     03-05-2018

بچے کی اصل بولی توماں بولی ہے!

پاکستان میں تبدیلی کا خواب بہت پرانا ہے۔ یہ خواب ستر برس پر محیط ہے۔ پاکستان کی پہلی نسل یہ خواب دیکھتے دیکھتے گزر کئی۔ اب دوسری نسل یہ خواب دیکھ رہی ہے۔ اس طویل عرصے میں کئی ایسے رہنما آئے ، جنہوں نے اس خواب کو تعبیر بخشنے کے وعدے کیے۔ ان میں سے کچھ پر عوام نے یقین بھی کیا۔ ان کے وعدوں کا اعتبار کیا۔ مگر عوام کی زندگی میں ہنوز وہ تبدیلی نہیں آئی جو محض ان کا خواب ہی نہیں، ضرورت بھی ہے۔ خوش کن بات مگر یہ ہے کہ اس تبدیلی کی بات تسلسل سے ہو رہی ہے۔ آج کل تو جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں، تبدیلی کی بات اور زیادہ زور و شور سے ہو رہی ہے۔ لاہور کے جلسۂ عام میں عمران خان نے تبدیلی کا جو نقشہ پیش کیا، وہ بڑا خوش کن ہے۔ اس میں پاکستان کے بڑے بڑے مسائل کی درست شناخت اور نشاندہی ہوئی ہے۔ مگر ان مسائل کے جو حل تجویز کیے گئے ان پر کئی سوالات اٹھتے ہیں، کچھ الجھائو ہیں، کچھ ابہام ہیں، جن کو واضح کیے بغیر اور جن کا جواب دئیے بغیر تبدیلی کا ناک نقشہ درست طریقے سے واضح نہیں ہوتا۔ 
عمران خان نے پاکستان میں طبقاتی نظامِ تعلیم کے گمبھیر مسئلے کو پہلی ترجیح قرار دیا۔ ان کی گفتگو سے لگا کہ وہ مسئلے کو پوری گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ مگر اس کا انہوں نے جو حل پیش کیا وہ شاید عملی طور پر اتنا آسان نہ ہو جتنا بظاہر لگتا ہے۔ انہوں نے بالکل درست فرمایا کہ پاکستان میں تین قسم کے سکول سسٹم پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ سکول جو سرکاری ہیں، اور ان میں کروڑوں کی تعداد میں بچے پڑھتے ہیں، جو غریب یا کم آمدنی والوں کے بچے ہیں، یا جن کے پاس نجی سکولوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہے۔ دوسرے وہ جو انگریزی میڈیم نجی سکول ہیں، جن میں ہزاروں بچے زیرِ تعلیم ہیں، جو نسبتاً خوشحال ہیں۔ اور تیسرے وہ سکول ہیں جنہیں ہم مدارس کہتے ہیں، اور ان میں بھی لاکھوں بچے پڑھتے ہیں۔ ان میں سے بعض بسا اوقات شاید ہمارے سماج کے سب سے غریب ترین بچے ہوتے ہیں۔ گویا ان تینوں قسم کے سکولوں میں الگ الگ معاشی اور سماجی پس منظر کے حامل بچے جاتے ہیں۔ یہ طبقاتی نظام تعلیم ہے ۔ اس کا عکس جا کر سماج میں ظاہر ہوتا ہے‘ جہاں سرکاری سکولوں اور مدارس سے آنے والے بچے ان بچوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو مہنگے نجی اداروں سے نکل کر آئے ہوتے ہیں۔ اس طبقاتی فرق کو مٹانے کا ان کے نزدیک طریقہ یہ ہے کہ سب بچوں کو یکساں نصاب تعلیم اور نظام تعلیم ملے۔ اور سب کو انگریزی زبان میں تعلیم دی جائے۔ یہ ان کی بہت ہی مثبت اور تعمیری سوچ ہے۔
انگریزی اس وقت دنیا میں ایک مراعات یافتہ اور عالمی اشرافیہ کی زبان ہے۔ دنیا بھر میں فن و ادب سے لے کر سائنس و ٹیکنالوجی تک سب سے زیادہ کام انگریزی میں ہو رہا ہے۔ تعلیم و تحقیق اسی زبان میں ہے۔ دنیا کے ہر موضوع پر سب سے زیادہ تصانیف انگریزی زبان میں سامنے آ رہی ہیں۔ یہ ایک اہم عالمی زبان ہے، جس کا سیکھنا اور جاننا اب دنیا کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے۔ اس لیے دنیا کے ہر بچے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس زبان میں مہارت حاصل کرے۔ اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ مشرق و مغرب میں انگریزی سیکھنے سکھانے کی ایک دوڑ ہے۔ چین اور جاپان جیسے ملک اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ ان ملکوں کے کونے کونے میں انگریزی سکھانے کے سکول کھل چکے ہیں۔ مگر عالمی سطح پر تسلیم شدہ اور بڑی زبانوں کے دانشوروں، نفسیات دانوں اور ماہرینِ تعلیم کا یہ شدید اصرار ہے کہ ہر بچے کو ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں ہی دی جانی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بچہ اپنی ماں کے ساتھ سندھی بولتا ہے، اسے اگر سندھی میں ہی تعلیم دی جائے تو بہتر ہے۔ جو بچہ گھر میں اپنی ماں سے پنجابی بولتا ہے، وہ اپنے پرائمری سکول میں پنجابی زبان میں ہی زیادہ آسانی اور تیز رفتاری سے سیکھ سکتا ہے۔ جو بچہ گھر میں پشتو بولتا ہے‘ پشتو میں ابتدائی علم حاصل کرنا اس کا حق ہے۔ اور یہی بات دنیا کی دیگر زبانوں پر صادق آتی ہے۔ امریکہ سے لے کر چین تک، اور جاپان سے لے کر سکنڈے نیویا تک، جن ملکوں نے حقیقی ترقی کی ان کے بچوں کو اپنی ماں بولی میں ہی تعلیم دی جاتی ہے۔ سکنڈے نیویا کے ملک، جن کا عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران دو بار بڑے رشک سے ذکر کیا، ان ملکوں کے اندر کئی چھوٹی چھوٹی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان کے پڑوس میں انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی جیسی شہرت یافتہ اور بڑی زبانیں ہیں، جن کے اندر دنیا کے علم و ادب کے خزانے دفن ہیں‘ لیکن سکنڈے نیویا کے ان چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اپنے بچوں کو اپنی چھوٹی چھوٹی مقامی اور مادری زبانوں میں تعلیم دی‘ حالانکہ یہ زبانیں ہماری نسبت انگریزی کے بہت قریب ہیں اور ان کے بچوں کے لیے انگریزی زبان سیکھنا نسبتاً بہت ہی آسان ہے۔ ان ملکوں نے بے پناہ ترقی کی اور دنیا کے سب سے زیادہ اور مثالی خوش حال، خوش باش اور انصاف پسند ملک بن گئے۔ انہوں نے اپنے تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان کو بھی مناسب جگہ دی، مناسب مقام دیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ بچوں کا ماں بولی میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنا ان کا باقاعدہ حق قرار دیا اور تسلیم کیا۔ اپنی مادری زبان میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے فوائد بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ ہمارے سامنے دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم، اور یونیسکو سمیت دنیا کے بڑے بڑے عالمی اداروں کے اس موضوع پر جمع کیے گئے اعداد و شمار موجود ہیں۔ کئی سرویز اور تحقیقی رپورٹوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ جن بچوں کو اپنی ماں بولی کے بجائے کسی دوسری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے ان کے سکول چھوڑنے یا فیل ہونے کی تعداد ان بچوں کی نسبت بہت زیادہ ہے جو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یونیسکو سال انیس سو تریپن سے اس بات پر مسلسل زور دے رہا ہے کے بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دینا ہی واحد درست راستہ ہے۔ یوینسکو کی اس موضوع پر سال دو ہزار آٹھ کی ایک معروف رپورٹ موجود ہے جس میں یونیسکو والوں نے سیکھنے کے لیے سب سے بہترین زبان ماں بولی ہی کو قرار دیا۔ یہ بنیادی طور ایک طویل بحث ہے، جس کا تعلق فلسفے، نفسیات اور تعلیم و لسانیات سے ہے۔ اس طویل بحث کی تفصیلات اہلِ فلسفہ، اہلِ نفسیات اور ماہرینِ تعلیم کے لیے ہی مناسب ہے۔ ہم اگر اس کا خلاصہ اور نچوڑ ہی دیکھ لیں تو یہ ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہو گا۔ ہمارے ہاں بے بنیاد اندیشوں اور خدشوں کی وجہ سے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی گئی۔ دوسری وجوہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں تعلیم کے پست معیار کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ طبقاتی نظامِ تعلیم ایک سنگین مسئلہ ہے۔ مہنگے نجی سکول سماج میں موجود طبقات اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کا مظہر ہیں۔ یہ سکول اشرافیہ اور دولت مند طبقات کی پسندیدہ جگہ ہیں۔ یہ سکول ان لوگوں سے بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں، مگر اس کے عوض سرکاری سکولوں سے بہتر ماحول اساتذہ اور تعلیم بھی فراہم کرتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم انگریزی زبان میں دینے سے طبقاتی فرق ہو سکتا ہے کچھ کم ہو، مگر یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتا۔ محض زبان بدلنے سے ایسا نہیں ہو گا۔ اس کے بعد طبقات بھی رہیں گے، اور نجی سکول بھی۔ ایک آزاد ملک میں دوسری چیزوں کی طرح تعلیم کو بھی خرید و فروخت سے نہیں روکا جا سکتا۔ مگر جاننے کی بات یہ ہے کہ انگریزی میں ابتدائی تعلیم والے بچے اپنی دھرتی، ثقافت اور ورثے سے اس طرح نہیں جڑ سکیں گے جو ان کا حق ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں ان کی مادری زبانیں اس دنیا سے معدوم ہو سکتی ہیں؛ چنانچہ اگر بچے کو ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں اور اس کے بعد کی ساری تعلیم انگریزی میں دی جائے تو بہتر ہو گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved