تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     24-03-2013

ہیروز‘ ولن اور دونوں کے بیچ کا درجہ

ہمارے سیل فون پرہمیں الیکشن کمشنر آف پاکستان کی جانب سے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہم اپنے شناختی کارڈ کی تصدیق کروائیں تاکہ ان کی ووٹرز لسٹ میں ہمارا اندراج یقینی ہوجائے۔ ایس ایم ایس کے جواب پر خرچہ دو روپے علاوہ ٹیکس ہے۔جسٹس (ر) فخرالدین ابراہیم جنہیں ہم نے ہمیشہ FGIکہا ہے، اس وقت ہیرو ہیں۔وہ ووٹروں سے براہِ راست رابطہ کر کے انہیں یاد دہانی کروا رہے ہیں کہ اگر وہ اپنے ووٹ کی اہمیت سمجھتے ہیں تو انہیں جواب ضرور دینا چاہئے۔ ان یاددہانیوں کا صاف مطلب یہ ہے کہ FGIاپنے کام کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ جب FGIنے الیکشن کمشنر کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا تو لوگوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ یہ کام موزوں ترین شخص کے ذمے آیا ہے۔ان کی ضعیف العمری پر اعتراض کے سوا ان کی اہلیت پر کسی کو شبہ نہیں۔ یہ باتیں اب بھی ہو رہی ہیں لیکن فی الوقت FGI (بوڑھے ہی سہی مگر) شیر ہیں اور ان کی دھاڑپورے ملک میں سنی جا رہی ہے۔ عمران خان کی پارٹی کے سوا باقی تمام سیاستدان حسبِ توقع ان کی دھاڑبند کروانے کے لئے یکجا ہو چکے ہیں۔ انہیں FGIکا لہجہ پسند ہے نہ ہی یہ بات کہ وہ ان کی ذاتی دولت، انکم ٹیکس کی ادائیگیوں، تعلیمی اسناد، بیرون ملک سفروں، دہری شہریتوں حتیٰ کہ قانون ساز ا داروں کے رکن کے طور پر ان کی (افسوسناک؟) کارکردگی کی بھی جانچ کر رہے ہیں۔ان کے اہلِ خانہ بھی جانچ پڑتال کے اس دائرے سے باہر نہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق سابق ارکان پارلیمنٹ بڑی تعداد نے انکم ٹیکس یا تو دیا ہی نہیں یا پھر بہت ہی معمولی رقم ادا کی۔ 2008ء کے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں میں سے انیس کے مقدمات ہائی کورٹوں میں زیرِ التوا ہیں۔ متعدد مقدمات زیریں عدالتوں کو بھی بھجوائے گئے ہیں جن پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ سٹیٹ بینک کے پاس قرض نا دہندگان کی فہرست میں مبینہ طور پر سیاستدانوں یا ان کے جیون ساتھیوں کے نام موجود ہیں لیکن یہ فہرست ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ FGI ان لوگوں کو جانچ پڑتال کے عمل کے ذریعے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ ٹی وی کے بعض اینکر صاحبان اس بنیاد پر بھی FGIپر نکتہ چینی کرتے ہیں کہ وہ کون ہوتے ہیںیہ سب کچھ کرنے والے! ان کی خدمات اس لئے حاصل کی گئی تھیں کہ وہ انتخابی عمل کی روانی کو یقینی بنائیں، اس لئے نہیں کہ وہ جاسوس بن بیٹھیں! بد قسمتی سے آئینی قوانین کے ماہر سینیٹر اعتزاز احسن بھی اسی رائے کے ساتھ آگے آئے ہیں۔ ان کی اہلیہ پارٹی ٹکٹ کی امیدوار ہیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ FGI کو انتخابی فارم چھپوانے سے پہلے زرداری صاحب کے جواب کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔ لیکن کیا اُن کے پاس انتظار کرنے کے لیے وقت تھا؟ گزشتہ پانچ برسوں میںسپریم کورٹ اور زرداری حکومت کے درمیان جو کھینچا تانی چل رہی تھی‘ اس کے بارے میں سوال یہ ہے کہ آیا جتنی توانائی اور وقت اس معاملے پر خرچ ہوا وہ اس قابل تھا بھی یا نہیں؟ عدالتِ عظمیٰ کو قوم کی حمایت حاصل رہی،عوام میں اس نے ایک امید جگائی، اخباروں میں شہ سرخیوں کے ساتھ اس کا ذکر ہوا، ٹی وی کے اینکرز نے چیف جسٹس کی بڑی واہ وا کی، مختصر یہ کہ انہیںایک قومی ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ لیکن پھر غلطی کہاں ہوئی؟وہ سارے خواب کہاں گئے؟سپریم کورٹ پر نظر رکھنے والے ابھی حوصلہ نہیں ہارے۔ مسعود مفتی سابق فیڈرل سیکرٹری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نتائج ضروردیکھیں گے، اس میں شاید وقت لگے لیکن یاد رکھئے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں سپریم کورٹ نے جو فیصلے دئیے ان کا نتیجہ ضرور برآمد ہوگا۔ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کی مزاحمت کامیابی کے ساتھ کرتی رہی۔ صدر زرداری کو صرف دو نقصانات اٹھانے پڑے۔ ایک تو انہوں نے اپنا وزیر اعظم کھویا لیکن ان وزیر اعظم صاحب کی سیاست کا ستارہ پہلے ہی سے زوال پذیر تھا۔ دوسرا نقصان ا نہیں امریکہ کے لئے اپنے سفیر حسین حقانی سے محرومی کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ ایوانِ صدر میں ان کے جانے پہ کسی کو کوئی غم نہیں تھا۔ اعزازت کی فہرست دیکھیں تو پاکستان ’’عرب سپرنگ‘‘ (الربیع العربی) کی راہ ہموار کرنے میں اس وقت اول ٹھہرا تھاجب یہ لفظ مقبول بھی نہیں ہوا تھا۔یعنی جب مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو برطرف کیا تو پورا پاکستان سڑکوں پر امڈ آیا تھا۔یہ ’’الربیع الپاکستانی‘‘ تھا جس کے پھل پھول ہم دیکھ نہیں پائے۔ چیف صاحب کی بحالی میں بنیادی کرداراعتزاز احسن کا بھی رہا جنہوں نے نہ صرف چیف صاحب کی گاڑی چلائی بلکہ ملک اور ملک سے باہر بھی ان کے مقصد کے لئے آواز بلند کی۔ پھر وہ بھی پی پی پی میں واپس چلے گئے۔ آج سپریم کورٹ بہت سے معاملات کی سماعت کر رہا ہے اور بالکل اس ٹرین کی مانند ہے جو پوری رفتار کے ساتھ دوڑی جار ہی ہے لیکن کسی سٹیشن پر رک کر یہ جائزہ نہیں لیتی کہ کتنا فاصلہ عبور کر چکی ہے۔ ایفی ڈرین کیس قارئین کو یاد ہو گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس سلسلے کی گمشدہ کڑی یعنی خوشنود لاشاری بیرون ملک اپنی خفیہ پناہ گاہ سے باہر آکر عدالت میں پیش ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ہمیں انہوں نے ایک ای میل بھیجی ہے جس میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنا بھر پور دفاع کریں گے۔ لاشاری صاحب وزیر اعظم گیلانی کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سول سروس مین سینتیس برس خدمات انجام دینے کے بعد اب وہ چند ہفتوں میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اپنی خدمات پوری قابلیت اور ایمان داری کے ساتھ انجام دی ہیں۔انہیں کبھی غلط کاری یا غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں پایا گیا لیکن پھر ایفی ڈرین کیس میں جب اس وقت کے ڈی جی ہیلتھ وعدہ معاف گواہ بنے تو فوج کے تحت کام کرنے والی اینٹی نارکوٹکس فورس نے انہیں اس کیس میں پھنسا لیا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق ایفی ڈرین ان منشیات میں استعمال ہوتی ہے جو ایران کے راستے یورپی ممالک کو سمگل کی جاتی ہیں۔اپنے دفاع میں لاشاری صاحب کہتے ہیں کہ انہیں میمو سکینڈل کے بعد کے حالات میںہدف کے طور پر استعمال کیا گیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ میمو کیس کے بعد سول اور فوجی ارباب اختیار میں لفظوں کی کیسی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ حسین حقانی صاحب کو بالآخر استعفیٰ دینا پڑا تھاجبکہ سیکر ٹری دفاع برطرف کر دئیے گئے تھے۔ حالات ایسے ہوگئے تھے کہ وزیر اعظم کو پارلیمان میں یہ کہنا پڑا کہ وہ ریاست کے اندر ریاست تسلیم نہیں کریں گے۔ چائنیز ٹی وی کو ایک انٹرویو میں گیلانی صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ (میمو کیس میں عدالت میں حلف نامے جمع کروا کر) جنرل پاشا اور جنرل کیانی غیر قانونی اور غیر آئینی عمل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ قارئین یقینا حیران ہو رہے ہوں گے کہ ایفی ڈرین کیس میں ملوث سیاستدانوں کو اگر کرپٹ بتایا جا رہا ہے تو پھر وزیر اعظم کا دفتر چلانے والے سینئر بیوروکریٹ کیوں کرپٹ نہیں؟ گزشتہ پانچ برسوں میں عدالتوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور اس میں اعلیٰ عدالتیں بھی شامل ہیں۔ ایفی ڈرین کیس جیسے مقدمات اعلیٰ عدالتوں کی تہہ میں کہیں گم ہو جاتے ہیںاور ایک دن یہ انصاف کے پورے سلسلے کے تعطل کا بھی باعث بن جائیں گے۔ اختتام ہم پروین رحمان شہید کے ذکر پر کریں گے۔ یہ چھپن سالہ خاتون جو اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر تھیں یقینا ایک قومی ہیرو ہیں۔چند دیگر سوشل ورکروں کے برعکس انہیں شہرت اور مقبولیت کی چاہ کبھی نہیں رہی اور نہ ہی ان کا نام کبھی کسی بھی سطح پر کرپشن میں آیا حالانکہ یہی باتیں آج بعض این جی اوز کی وجہ شہرت ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved