تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     03-05-2018

امانت میں خیانت

کہا تو یہی جاتا ہے کہ الفاظ ہمارے پاس ایسی امانت ہوتے ہیں جنہیں ہمیشہ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے لیکن اب تو جیسے سب سے زیادہ خیانت اِسی امانت میں کی جاتی ہے ،الفاظ وہ بھی ہوتے تھے جو قائد اعظم کے منہ سے نکلا کرتے تھے ، نہ کسی پر طنز نہ ہاتھوں کا زورو شور سے لہرانا اور نہ گلاپھاڑنا، سمجھ بھی بہت کم ہی سننے والوں کو آتی تھی لیکن یقین راسخ ہوتا تھا کہ بولنے والا سچ بول رہا ہے اور اب، اب تو سیاسی جلسوں میں تقاریر کرنے والوں کے منہ سے کف بھی اُڑتا ہے ،آستینیں بھی اوپر چڑھائی جاتی ہیں، جوش خطابت بھی خوب دکھایا جاتا ہے ، ایک غلغلہ بپا ہوتا ہے لیکن اِن پر یقین کیا جانا بہت ہی دشوار ہوتا ہے کہ کہنے والا سچ بول بھی رہا ہے یا نہیں،سو شو ختم ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے کپڑے جھاڑ اپنا راستہ ناپتے ہیں،گویا سنانے والے اپنے مخالفین پر الفاظ کے نشتر برساکر مزہ لیتے ہیں تو سننے والے بھی اِس سے لطف اُٹھاتے ہیں اور بھئی سچی بات تو یہ بھی ہے اب جس طرح کا چلن سیاست اور معاشرے میں عام ہوگیا ہے تو پھر بھلا ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نظر نہیں آتا،ملکی سیاست میں اِس چلن کی تاریخ تو کافی پرانی ہے، لیکن ماضی قریب میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورحکومت میں اِس کا کافی غلغلہ رہا، جب وہ عوامی جلسوں میں اصغر خان کو آلو خان یا پھر عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کے لقب سے نوازا تے تھے تو سننے والے خوش ہوتے تھے ، تالیاں بجاتے تھے تو اُن کے ووٹرز اور حمایتیوں کے لیے تفریح طبع کا اچھا خاصا سامان ہوجاتا تھا اور پھر جب وہ سیاست کی ڈھلوان پر پھسلتے ہوئے سیدھے کال کوٹھڑی میں جا پہنچے تو جنرل ضیاالحق اُن کی گفتگو کا نشانہ بنے رہے کیونکہ بھٹو صاحب کو یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ جس جنرل کو اُنہوں نے سات سینئر جرنیلوں پر فوقیت دیتے ہوئے آرمی چیف بنایا تھا ، وہ بھلا کیسے اُنہیں اقتدار سے محروم کرکے کال کوٹھڑی میں پھینک سکتا ہے ،،اُن کے نزدیک یہ سب کچھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا لیکن پھر اِسی خوش فہمی کے دوران 3 اپریل 1979 کی وہ شام بھی آگئی تھی جب پنڈی جیل کا سپرنٹنڈنٹ مسٹر بھٹو کو بلیک وارنٹ پڑھ کر سنا رہا تھا جسے سن کر بھٹو صاحب نے صرف اتنا سا شکوہ کیا کہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اُنہیں بروقت اطلاع نہیں دی گئی ،بلیک وارنٹ پر اتنا رسمی سا ردعمل شاید یہ بھی ظاہر کررہا تھا کہ اُنہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ اُنہیں پھانسی دی جاسکتی ہے لیکن پھر ایسا ہوگیا اور واقفان حال کے مطابق یہ سب کچھ ہونے میں جہاں بھٹو صاحب کی خوش فہمی اور اُن کے وکلا کا کمال رہا وہیں ضیاالحق کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کے خیالات نے بھی اہم کردار ادا کیا جو بھٹو صاحب کی طرف سے گاہے گاہے سامنے آتے رہتے تھے ۔
جنرل ضیاالحق بھی ایک سے زیادہ موقع پر سیاستدانوں کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار اِن الفاظ میں کرتے ملتے کہ اگر میں ایک اشارہ کروں تو سیاستدان دم ہلاتے چلے آئیں اور بتانے والے تو یہی بتاتے ہیں کہ جنرل صاحب کی ایسی باتیں سن کر سننے و الے لبوں پر مسکراہٹ سجائے اِن کا لطف اُٹھاتے تھے ، جنرل صاحب گاہے گاہے سیاستدانوں کے لیے اپنے پیار اور محبت کا اظہار دیگر پیرائے میں بھی کرتے رہتے تھے لیکن مجال ہے کسی سیاستدان کے ماتھے پر شکن بھی آتی ہو کیوں کہ زبان درازی کی سزا تو صرف سیاستدانوں کے لیے ہوتی ہے اور دوسرے اُن کی آشیر باد ہی کسی سیاستدان کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا سکتی تھی اور پھر ایسا ہوا بھی کہ آج جنرل ضیاالحق کے دور میں پنجاب کے وزیرخزانہ کی حیثیت سے اپنے سیاسی سفر کاآغاز کرنے والے میاں نواز شریف تیسری بار اپنی نامکمل وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو کر اب سیاسی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ،میاں نواز شریف کے لیے اِس صورت حال کی بظاہر تو دو ہی بڑی وجوہ دکھائی دے رہی ہیں ،،ایک تو یہ کہ عوامی مقبولیت کے زعم میں وہ خود کو حقیقی رہنما سمجھ بیٹھے تھے اور اِس زعم میں یہ بھول بیٹھے کہ جو لوگ سیاست کے پٹارے کو لیے بیٹھے ہیں ،
وہ اِس میں سے کسی بھی وقت کچھ بھی نکال سکتے ہیں،،چاہیں تو راتوں رات آئی جے آئی بنوا کر اُسے تب تک میدان میں رکھیں جب تک ملک کا منتخب وزیراعظم تختہ دار پر نہ جھول جائے ، یا پھر اِس پٹارے سے مسلم لیگ ج نکال لی جائے یا پھر نظریہ ضرورت کے تحت ق لیگ قائم کرکے اُسے اقتدار دلو ادیا جائے ، یہ بوجھ بن جائے تو حقیقی جمہوریت کے نام پر پیپلزپارٹی کو اقتدار کے ایوانوں میں داخل کردیا جائے اور جب بدلتے ہوئے حالات کے باعث اقتدار کا ہما ایک بار پھر نواز شریف کے سر پر بٹھانے کا فیصلہ کرلیا جائے تو صرف ایک اشارے پر عوام کے خدمت گار بڑی تعداد میں ن لیگ کا حصہ بن جائیں،اِس دوران جہاں بھی کسی نے خود کو حقیقی رہنما سمجھنے کی غلطی کی، اُسے اِس کا نتیجہ بھگتنا پڑا ، دوسرے میاں نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور نظریاتی ہونے کے دعویدار بھی ہیں جس کی کسی نہ کسی حد تک جھلک اُن کے تینوں وزارت عظمیٰ کے ادوار میں نظر بھی آتی ہے لیکن اِس مرتبہ معاملہ کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گیا تھا اور وہ یہ بات نظرانداز کرگئے کہ نظریہ الگ اور معروضی حقائق الگ چیز ہے اور یوں بھی کل پلٹ کر آتا ہی ہے۔کسی کے حال کو اُس کے ماضی سے الگ نہیں کیا جاسکتا،،نظریاتی ہونے کی دعویداری کے باوجود ، اِن کی طرف سے پیپلزپارٹی کی حکومت کے لیے پیدا کی جانے والی مشکلات کو کیونکر نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور آج اگر یہ کہا جارہا ہے کہ عدالتی نظام میں سقم ہیں تو یہ بھی یاد رکھا جانا چاہیے کہ پہلے افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے تحریک چلائی اور پھر اُنہیں کے ساتھ مل کر پیپلزپارٹی کی حکومت کے لیے بے شمار مشکلات پیدا کیں تو اب گلہ کس بات کا؟اِن تمام ادوار اور حالات کے دوران الفاظ کی امانت میں خیانت کا سلسلہ پوری شدومد سے جاری رہا لیکن اِس حوالے سے جو تیزی اب دیکھنے میں آرہی ہے وہ پہلے کم ہی دیکھی گئی ہے،، فیصلہ خلاف آنے کے بعد اِس کے خلاف احتجاج کے 
لیے جو الفاظ میاں نواز شریف نے چنے ، اُنہوں نے منصوبہ سازوں کا کام بہت ہی آسان کردیا ہے جبکہ یہ خدشات پوری طرح سے موجود ہیں کہ اُنہیں اِس انداز گفتگو کے مزید نتائج بھگتنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے ،اُن کے قریبی ساتھیوںکے پر تو کاٹے جاچکے ہیں، تو دیگرکے گرد بھی شکنجہ کسا جارہا ہے گویا بچنے کا اب کوئی امکان باقی نہیں رہااور اِس پر طرفین کی طرف سے گفتگو کے لیے چنے جانے والے الفاظ الاؤکو مزید بھڑکا رہے ہیں جس کی تازہ قسط پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا اللہ کی طرف سے ریلیز کی گئی ہے جن کے مطابق 29 اپریل کو مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے میں ٹھمکے لگانے والی خواتین کے بارے میں پتہ چل گیا ہے کہ وہ کہاں سے آئی ہیں کوئی پوچھے کہ اگر آپ اپنے اِن اقوال زریں کو کوئی اور جامہ پہنا لیتے تو کیا ہوتا لیکن پھر اُن کا بیان، ڈسکس ، کیسے ہوتا کیسے اِس پر عمران خان، شیریں مزاری اور پی ٹی آئی کے دوسرے رہنماؤں کا ردعمل سامنے آتا ،،خیر شہباز شریف ، آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر ملکی دولت واپس لانے کے دعوے کرتے رہے ،،نواز شریف قرار دیتے ہیں کہ ملک میں بدترین جوڈیشل مارشل لا نافذ ہے، عمران خان کہتے ہیں وہ ملکی دولت چرانے والوں کو اُلٹا لٹکائیں گے گویا کوئی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے تو بس یہی چلن عام ہے کہ دوران گفتگو مخالفین کے خوب لتے لو اور ایسی گفتگو کرو کہ سننے والوں کو مزہ ہی آجائے ، خود بھی گفتگو کے چسکے لودوسروں کو بھی مزے دواور اِس بات کو بالکل فراموش کردو کہ جب بادشاہ باغ سے ایک سیب بغیر اجازت کے توڑے گا تو اُس کی فوج بھلا پورا باغ ہی کیوں نہیں اُجاڑ دے گی، عوامی مسائل حل کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے عوام کے لیے مسائل پیدا کرکے ،ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے خوب صورت گریٹر اقبال پارک کا پی ٹی آئی کے جلسے نے جو حال کردیا ہے ،،تو اِسے اپنی سابقہ صورت میں ڈھالنے کے لیے اب نہ صرف کافی وقت بلکہ کافی سرمایہ بھی درکار ہوگا۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved