نہ تو میں انتہا پسند ہوں اور نہ ہی کسی بھی صورت اور شکل میں اس کی حمایت کرتا ہوں لیکن گزشتہ پندرہ برسوں سے میرے ملک پاکستان کا ایک ایک کونہ اور اس کی حفاظت کیلئے منتخب کئے گئے اﷲ کے جانباز بارودی سرنگوں، بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے سامنے خود کو قربان کر رہے ہیں اور یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری کبھی لشکر جھنگوی کبھی داعش تو کبھی تحریک طالبان پاکستان ، لشکر اسلام اور کبھی مختلف نا موں سے وجود میں لائی جانے والی ہمارے دشمنوں کی دیگر تنظیمیں پاکستان کے فوجی اور سول اداروں کے اندر تباہی اور بربادی پھیلانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ کوئٹہ ہو یا زیارت، تربت ہو یا گوادر ، کراچی ہو یا پشاور اور پارہ چنار لاہور ہو یا اسلام آباد میرے وطن اور وجود کا دشمن '' وار لارڈز‘‘ کی جھولیوں میںڈالروں کی بھر مار کرتے ہوئے کہیں قلم سے، کہیں سوشل میڈیا سے تو کہیں کسی کی لکھی گئی تحریروں سے تو کبھی گولی اور بارود سے ، کہیں بم دھماکے تو کبھی خود کش حملوں سے پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی پاسبانی پر متعین خاکی وردی کو نشانہ بنانے میں مصروف عمل ہے۔ جب کبھی یہ خبر دیکھتا اور سنتا ہوں کہ بھارت کے ایجنٹوں نے میرے وطن کے شہریوں اور فوج، پولیس اور رینجرز، ایف سی اور لیویز کے جوانوںاور افسروں کوخود کش دھماکے سے شہید کر ادیا ہے تو ۔۔۔ اس وقت سوچنے لگتا ہوں کہ اگر ان خود کش دھماکوں کا نصف سے بھی کم ہندوستان کے سول اداروں اور ہندوستانی فوج کو سامنا کرنا پڑجائے تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کی آدھی سے زیا دہ فوج اپنی بیرکوں اور یونٹوں سے باہر ہی نہ نکلے۔۔۔ اگر کبھی کسی ریکروٹنگ سینٹر پر خود کش حملہ ہو گیا ہوتا تو انڈیا کی فوجی چھائونیاں خالی ہونا شروع ہو جائیں گی، انڈیا کے نصف سے زائد صنعتی یونٹ بند ہو جائیں گے، تحریک طالبان پاکستان ، داعش، لشکر اسلام اور مولوی فضل اﷲ نے سوات اور خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں جس انتہا کی تباہی اور بربادی پھیلائی ہے اس طرح کے اگر چند واقعات بھی ہندوستان میں ہو گئے ہوتے تو اس سے ہندوستان کے تعلیمی ادارے ویران ہو جاتے۔۔۔تحریک طالبان پاکستان نے خودکش حملوں کے ذریعے جس قدر پاکستان کے فوجی جوانوں اور افسروں کو شہید کیا اگراس قسم کے دس بیس خود کش حملے ہندوستان کے فوجیوں پر کردیئے جاتے تو ہندومائیں اپنے بیٹوںکو بھارتی فوج میں بھرتی کرانا تو بہت دور کی بات ہے انہیں بھارتی فوج کے قریب جانے کی بھی اجا زت نہ دیتیں۔۔۔۔لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ وہ جو دین کے محافظ ہیں وہ جن میں سے بہت سوں نے حجر اسود کو بوسے دیئے، وہ جنہوں نے روضہ رسولؐ کی جالیوں سے چمٹ کر آنسو بہائے ہیں ان کے تو گلے کاٹے گئے ان کی آنکھیں نکالی گئیں ان کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلا گیا اور وہ جو خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ کے دشمن ہیں وہ جنہوں نے صرف ایک بابری مسجد نہیں بلکہ ہندوستان بھر کی مسجدوں کوگھوڑوں، گدھوں اور مویشیوں کے اصطبل میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے و ہ لشکر جھنگوی، لشکر اسلام اور تحریک طالبان پاکستان کے مذہبی وار لارڈز کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ یہ کیسے اسلام کے نام لیواہیں کہ کلمہ کا ورد کرنے والوں کواپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کے بعد قہقہے لگا تے تھے۔
اکثر سوچتا ہوں کہ تحریک طالبان سے متعلق زیا دہ نہیں تو کچھ لوگوں کو کبھی یہ خیال آتا توہو گا کہ جس مسجد میں جس عبادت گاہ میں ہم خود کش دھماکے کرنے جا رہے ہیںوہاں اﷲ کی مقدس کتاب قرآن پاک کے ایک نہیں بلکہ کئی مبارک نسخے موجود ہوں گے۔۔۔۔کیا تحریک طالبان یہ پسند کرے گی کہ قرآن پاک کی بے ادبی ہو؟۔ یقینا نہیں کرے گی۔۔۔اور ا س وقت جب خود کش حملوں اور بارودی دھماکوں سے پاکستان کی مسجدیں راکھ اور مٹی کا ڈھیر بن جاتی رہی ہیں تو اﷲ پاک کی مقدس کتاب قرآن پاک اور اس کے مقدس اوراق جلتے ہوئے اپنے بھیجنے والے رب سے اپنی بے ادبی پر کس قدر فریاد کرتے ہوں گے اور اس وقت یک دم یہ خیال آجاتا ہے کہ اگر یہی کچھ ہندوستان کے مندروں میں ہوتا‘ وہاں کے کسی بھی مندر میںکسی خود کش حملے اور بارودی دھماکے سے وہاں رکھے ہوئے درجنوں بت پاش پاش ہو جاتے ۔۔وہاں ان بتوں کو پوجنے کیلئے آئے ہوئوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر چاروں طرف اڑ جاتے تو یہ مورتیوں اور بتوں سے بھرے ہوئے مندر ویران ہو جاتے۔
تحریک طالبان یا لشکر جھنگوی سے متعلق لوگ اس بات سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے کہ پاکستان کی مارکیٹوں، با زاروں،دکانوں اور گھروں میں کہیں قرآن پاک کے نسخے ہوتے ہیں تو کہیں دیواروں پر شان والے اﷲ کی عظمت اور بڑائی والی آیت الکرسی اور دوسری آیات مبارکہ کو خوبصورت فریموں میں سجا کر لٹکایا ہوا ہوتا ہے اور جب کسی خود کش حملے یا دھماکے سے یہ گھر یہ بازار اور مارکیٹیں اڑائی جاتی ہیں ،جب یہ آگ کی نظر ہوتی ہیں تو ان دکانوں اور بازاروں میں قرآن پاک کے نسخے بھی جلنے لگتے ہیں اور بہت سی قرانی آیات بھی جل جاتی ہیں ۔۔۔کیا تحریک طالبان کے لوگ اس طرح ہونے والی مقدس آیات کی بے حرمتی کو برداشت کرلیتے ہوں گے؟۔۔اس وقت جب میں قرآن اور قرآنی آیات کو آگ اور دھوئیں میں جلتے دیکھتا ہوں تو ایسے ہی مجھے یہ خیال آنے لگتا ہے کہ ایسا اگر ہندوستان میں ہو تا تو اس کا کیا حا ل ہوتا؟۔ میریٹ اسلام آباد، آرمی پبلک سکول پشاور، چار سدہ یونیورسٹی جیسے دو چار واقعات اگر کلکتہ، ممبئی،نئی دہلی، بنگلور، احمد آباد، مدراس چنائے میں ہوجاتے تو یقیناََ ہندوستان کی آدھی سے زیا دہ مارکیٹیں اور بازار ویران ہوجاتے ان کے سینما گھر بند ہو جاتے اور جو دکانیں اور مارکیٹیں سخت سکیورٹی میں کھولی جاتیں وہاں خواتین اور مرد خریداری کرنے کے تصور سے ہی کانپ جاتے ۔
جیسا کہ میں نے شروع میں کہا ہے کہ میں انتہا پسندی کا قائل نہیں ہوں امن اور پر خلوص دوستی کا قائل ہوں لیکن جب پاکستان کی مسجدیں، سکول، بازار، سول اور فوجی گاڑیوں اور ان کے اداروں پر خود کش اور بارودی دھماکوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور انسانی جانوں جن میں بچے بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہوتی ہیں ان کی کٹنے مرنے اور جلنے کی خبریں دیکھتا اور سنتا ہوں تو اکثر یہ سوچ مجھے بہت دور کسی تصور یا مفروضے پر لے جاتی ہے کہ یہ سب کون کرا رہا ہے۔
نہ جانے کیوںسوچنے لگتا ہوں کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں بھارت نے پاکستان پر 289 خود کش دھماکے کرائے ہیں اور اگر ان میں سے صرف دس دھماکے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں اور ان کے سکیورٹی اداروں اور راء کے دفاتر پر ہو جاتے اور دس بھارت کے پانچ بڑے شہروں میں ہو گئے ہوتے تو آج کشمیر کی 80 ہزار مسلمان مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھارتی درندوں کی ہوس کا نشانہ نہ بنتیں‘ آج کشمیر کی پانچ لاکھ سے زائد مسلمان بیٹیاں بیوہ نہ ہوتیں آج پندرہ لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں یتیم نہ ہوتے‘آج پیلٹ گنوں سے تین سو سے زائد نوجوان لڑکے زندگی بھر کیلئے بینائی سے محروم نہ ہوتے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مذہب کا لبادہ اوڑھے بعض تنظیمیں اسلامی جمہوری ملک میں تباہی پھیلاتی رہیں اور بھارت جیسے ملک کو معاف کر دیا جس نے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو آگ وخون میں نہلا دیا۔