گرمی زیادہ ہے یا انتخابی گرما گرمی، فیصلہ کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ سُورج شدید اشتعال کی حالت میں ہے۔ اور اِدھر سیاست دان بھی آگ بگولا ہوئے جارہے ہیں۔ بات بات پر بھڑک اٹھنے اور سب کو لپیٹ میں لینے کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ دوستوں اور اتحادیوں کی تلاش جاری ہے۔ دشمنوں کو دل کی گہرائی سے معاف کرنے اور ضرورت کے مطابق دوست میں تبدیل کرنے کی رُت وارد ہوچکی ہے۔
کراچی میں معاملہ زیادہ الجھا ہوا ہے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ شہر کا مینڈیٹ فیصلہ کن حد تک کس کے ہاتھ رہے گا۔ اب تک کے حالات اس امر کی طرف اشارا کر رہے ہیں کہ کراچی میں مینڈیٹ بُری طرح تقسیم ہوکر رہے گا۔ مینڈیٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے ایم کیو ایم کے دھڑوں نے اپنی سی تگ و دَو شروع کردی ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ سیاسی سرگرمیوں کی گہما گہمی میں لوگ اب تک تذبذب کا شکار ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اِس بار ووٹ کا استعمال کس طور کریں کہ وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہے۔ یہ الجھن بلا جواز نہیں۔ دو سال کے دوران کراچی میں ایم کیو ایم کا جو معاملہ رہا ہے وہ ذہنوں کو خطرناک حد تک الجھانے کے لیے کافی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کی شکل میں ایم کیو ایم کا پہلا دھڑا بنا۔ اِس کے بعد کراچی پریس کلب پر الطاف حسین کی تقریر نے جو قیامت ڈھائی اُس کے نتیجے میں ایم کیو ایم دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی۔ ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان نے الگ الگ کام شروع کیا۔ پھر یہ ہوا کہ فاروق ستار نے کراچی پریس کلب ہی میں سید مصطفی کمال کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور مل کر چلنے کا عندیہ دینے کی کوشش بیک فائر کرگئی تو ایم کیو ایم پاکستان کی صفوں میں انتشار پیدا ہوا جو خوب پنپنے کے بعد دو ماہ قبل سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر بم کی طرح پھٹا۔ کامران ٹیسوری کے معاملے پر ایم کیو ایم میں اختلافات نے شدت اختیار کی اور یہ دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ ایم کیو ایم پاکستان (پی آئی بی کالونی) اور ایم کیو ایم پاکستان (بہادر آباد) کی شکل میں ایم کیو ایم کے کارکن اب تک منقسم ہیں۔ تقسیم بڑھی ہے تو تذبذب بھی بڑھا ہے۔
ایم کیو ایم چونکہ کراچی کے مینڈیٹ کی حامل اور سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر رہی ہے اس لیے اُس کی شکست و ریخت نے شہر میں دیگر جماعتوں کو زیادہ منظم انداز سے ابھرنے کی تحریک دی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ میدان میں آئی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کراچی میں خاصی دبنگ انٹری دی ہے۔ فیڈرل کیپٹل ایریا (لیاقت آباد) کے ٹنکی گراؤنڈ میں بلاول بھٹو نے جلسہ کیا تو ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے خوابِ غفلت سے جاگے۔ جاگنا ہی تھا کیونکہ اب بھی نہ جاگے تو بچا کھچا مینڈیٹ بھی کھڈے لین لگ جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے خوب کہا کہ ایم کیو ایم اب پیپلز پارٹی کی نقّالی کر رہی ہے۔ ٹنکی گراؤنڈ میں پی پی پی کے جلسے کے بعد جلسے کا خیال آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کی حالات پر نظر نہیں اور وہ ''فالو اپ‘‘ کے مقام پر کھڑے ہیں۔
فاروق ستار نے ایم کیو ایم پاکستان (بہادر آباد) کے مرکز جاکر مشترکہ جلسے کا اعلان کرکے پی پی پی کی لگائی ہوئی آگ بجھانے کی تھوڑی بہت کوشش کی ہے۔ یہ کوشش کہاں تک کامیاب رہتی ہے یہ جاننے کے لیے آپ کو محض ایک دن کا انتظار کرنا ہے۔ خالد مقبول صدیقی، عامر خان، فیصل سبزواری اور دیگر رہنماؤں سے بات چیت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں فاروق ستار نے کہا کہ اب خوش خبریاں ملیں گی۔ اور یہ کہ مہاجروں کو رسوا نہیں ہونے دیں گے۔
مہاجروں کو رسوائی سے بچانے کی صورت کیا ہے؟ سیدھی سی بات ہے، مہاجروں کو اپنے مسائل کا حل چاہیے۔ اُن کے مسائل کون حل کر رہا ہے؟ جواب سیدھا سا ہے، کوئی بھی نہیں۔ اس وقت کراچی عملاً انتظامی سطح پر ایم کیو ایم کے ہاتھ میں ہے۔ بلدیاتی انتخابات نے ایم کیو ایم کو اہلِ کراچی کی خدمت کا آخری موقع فراہم کیا تاکہ وہ بہتر کارکردگی کے ذریعے ووٹ بینک کو انٹیکٹ رکھنے کی اپنی سی کوشش کرلے۔ ایسا لگتا ہے ایم کیو ایم کو اب تک ووٹ بینک مستحکم رکھنے کی کچھ زیادہ فکر لاحق نہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو دوبارہ منظم اور مستحکم رکھنے کے لیے لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، مسائل حل کیے جائیں۔
کراچی میں ایک طرف بجلی کی بندش کے ساتھ پانی کا بحران ہے اور دوسری طرف صفائی ستھرائی کا نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ شہر میں جا بجا کچرا اڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے باعث مٹی اور دُھول کا معاملہ الگ ہے۔ ایسے میں کے ایم سی کو اپنی پوری توانائی شہر کا حلیہ تبدیل کرنے پر صرف کردینی چاہیے تھی۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ اور اب عالم یہ ہے کہ شہر بھر میں صفائی کا نظام ابتر حالت میں ہے۔ میڈیا کے ذریعے کئی بار متوجہ کیے جانے پر بھی خاطر خواہ حد تک مچھر مار اسپرے نہیں کیا گیا۔
پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو متحرک دیکھ کر ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہونے کا خیال آیا ہے۔ یہ مجبوری کا سَودا ہے۔ معاملات کو مجبوری کا نام شکریہ کی منزل سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو اپنا مینڈیٹ برقرار رکھنا ہے تو اُسے زمینی حقائق پر نظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ کسی ابھرتی ہوئی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایک پیج پر آنے کی اہمیت زیادہ نہیں۔ صورتِ حال تبدیل ہوتے ہی معاملات تبدیل ہونے لگتے ہیں اور پرنالے پھر وہیں بہنے لگتے ہیں۔
کراچی کو حقیقی نمائندوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حقائق پر نظر رکھنا بھی لازم ہے۔ جن کے ہاتھ میں کراچی کا مینڈیٹ رہا ہے اُنہیں اس صورتِ حال میں زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جن کا سنجیدہ ہونا لازم ہے اُنہیں سنجیدہ ہونے سے دلچسپی ہے یا نہیں۔ ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے انتخابی سیاست کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں اِس کا اندازہ لوگوں کو چند ہی دنوں میں ہو جائے گا۔
کراچی کی صورتِ حال اس امر کی متقاضی ہے کہ اس کا مینڈیٹ تقسیم نہ ہو۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ جنہیں مینڈیٹ ملے وہ سب سے زیادہ اہل ہوں اور عوام کے مسائل حل کرنے پر بھرپور توجہ دیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کراچی کا مینڈیٹ جن لوگوں کو ملتا رہا وہ کماحقہ ڈلیور کرنے میں بہت حد تک ناکام رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام اب تک تذبذب میں مبتلا ہیں کہ جن پر بھروسہ کرتے آئے ہیں اُن پر بھروسہ کریں یا نہ کریں۔ اور اِس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب تک جن پر بھروسہ کرتے آئے ہیں اگر اُنہیں درخورِ اعتناء نہ سمجھیں تو پھر کسے ووٹ دیں! بہر کیف، معاملہ ووٹرز کے ہاتھ میں ہیں۔ اُنہیں مجبوری کا سَودا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر بہتر امیدوار دکھائی دے تو اُسے آزمانے میں کوئی ہرج نہیں۔