تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     05-05-2018

پاکستانی سوچ کی لامحدود وُسعتیں

جن کے وسائل نہیں ہیں اُن کی تو بات چھوڑئیے، کسی گنتی قطار میں نہیں آتے‘ لیکن مملکتِ خداداد میں جن پہ آسمانوں کی خاص مہربانیاں ہیں وہ دو تین کاموں پہ ہی اپنا پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔ جہاں دیکھو یا تو شادی ہال یا ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہو رہی ہیں۔ میرے اپنے شہر چکوال میں ہر اہم سڑک پہ مہنگے سے مہنگے شادی ہال تعمیر ہو چکے ہیں یا تعمیر کے مراحل میں ہیں ۔ سوچتا ہوں کہ اِس قوم کو فضول کاموں پہ پیسے خرچ کرنے کے علاوہ بھی کچھ آتا ہے ۔ شادی بیاہ تو عام سی تقریب ہونی چاہیے ۔ تھوڑے سے لوگ ہوں اور خرچا جائز ہو ۔ لیکن یہاں پہ ساری کی ساری کمائی اس ایک تقریب پہ لٹائی جاتی ہے اور روکنے والا کوئی نہیں۔
چپے چپے پہ مساجد موجود ہیں ۔ بات تو تب ہے کہ وہاں کے امام صحیح موضوعات پہ درس دیں جن کا تعلق عام زندگی سے ہو۔ فضول خرچی پہ کچھ بیان کیا جائے ۔ ہر اطراف میں جو گندگی بکھری پڑی ہے مولانا حضرات اس پر کوئی گفتگو فرمائیں۔ معاشرے میں کچھ اصلاح پیدا ہو اور ہم جیسے گناہگار بھی کہہ سکیں کہ منبر و تبلیغ کا کچھ فائدہ ہو رہا ہے۔ آخرت سنورے یا اُس میں کچھ اُلجھاؤ پیدا ہو یہ تو اپنی اپنی تقدیر کی بات ہے۔ لیکن آخرت سے پہلے حال کا تو کچھ سوچ لیں ۔ یہ بھی سوچا جائے کہ اگر ہر اطراف گندگی ہے اور پیسہ فضول خرچیوں میں لگانا ہے تو وہ کون سی آخرت ہے جو اِن حرکات سے سنور جائے گی؟
روز اخبار کھولتا ہوں تو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لمبے لمبے اشتہار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قیمت اور لاگت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیشتر ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں رہائش کی سہولیات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ یہ تگڑے لوگ ہی ہیں جو اِن مہنگی کالونیوں میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ جو اربوں روپے ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں جا رہے ہیں ، پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی کا اُس سے کوئی تعلق نہیں ۔ یعنی جس مخلوق پہ آسمان کی مہربانیاں ہیں اُسی کیلئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے ۔ کوئی تو روکنے اور بتانے والا ہو۔ شہروں کے گرد وسیع زرعی رقبے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ہاتھوں برباد ہو رہے ہیں اور اِس کی کسی کو پروا نہیں ۔ اَبھی ہمیں احساس ہوا ہے کہ پاکستان جلد پانی کے بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔ شہروں میں پانی کی سطح گر رہی ہے‘ پھر بھی وقتی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مزید ٹیوب ویل لگائے جاتے ہیں ۔ درکار پانی نہ اسلام آباد میں مہیا ہے نہ لاہور اور کراچی میں ۔ یہ تو پانی کا حال ہے۔ جلد ہی احساس پیدا ہو گا کہ شہروں کی پھیلائو کی وجہ سے زرعی زمین تباہ ہو رہی ہے۔ پھر ہم کہیں گے کہ ہم زمین کے بحران سے دوچار ہیں۔ 
کوئی اور ملک ہوتا جس کی ڈھنگ کی قیادت ہوتی تو شادی ہالوں پہ ایسے ٹیکس لگائے جاتے کہ کسی سیٹھ کی ہمت نہ پڑتی کہ وہ اس فضول خرچی میں اپنا سرمایہ لگائے ۔ عوام کو ترغیب دی جاتی کہ شادی بیاہ سادہ طریقوں سے کرنی چاہیے۔ ایک بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ شادیاں مساجد میں کیوں نہیں ہوتیں۔ اس لحاظ سے تو ہمارے عیسائی بہن بھائی ہم سے اچھے ہیں ۔ شادی ہوتی ہے تو گرجا گھروں میں اور بعد میں ایک آدھ دعوت کا اہتمام ہو جاتا ہے ۔ ہماری شادیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔
روس میں کمیونسٹوں کے زمانے میں یوں ہوتا تھا کہ زیر سرکار شادی ہال میں دولہا دلہن گئے۔ شادی چھٹی کے دن ہوتی تھی ، ہفتہ یا اتوار ۔ متوقع جوڑوں کی لمبی لائن قطار بنائے کھڑی ہوتی۔ آپ کی باری آتی تو ساؤنڈ سسٹم میں قدرے دھیمی موسیقی بجتی ۔ دو منٹ میں نکا ح ہو جاتا۔ جوڑا باہر کے دروازے کی طرف جاتا تو قدرے رنگین میوزک کی دُھن فضا میں اُٹھتی۔ باہر کرائے کی ٹیکسی کھڑی ہوتی ۔ بہت سے جوڑے شادی کے بعد سیدھا ریڈ سکوائر جاتے اور لینن کی قبر پہ حاضری دیتے ۔ اُس کے بعد ماسکو ہلز جو ماسکو کا سب سے بلند مقام ہے اورجس کے پیچھے ماسکو یونیورسٹی ہے وہاں گئے اورنیچے کی طرف پھول پھینکے۔ شام کو کسی ریستوران میں زیادہ سے زیادہ بیس تیس لوگ جمع ہوئے اورخوب محفل سجتی ۔ جام بھی بھرے جاتے اورناچ گانا بھی ہوتا۔ ماسکو کے تمام ریستوران گیارہ بجے بند ہوجاتے ۔ محفل ختم ہوئی تو آپ اپنے گھر گئے ۔ سوموار کے روز میاں بیوی نے اپنے کاموں پہ حاضری دی ۔ 
دُنیا کے بڑے شہروں میں جائیں تو شام کو اتنا کچھ کرنے کو ملتاہے کہ اخبارات میں اشتہارات پڑھیں تو آدمی سر پکڑ لیتاہے کہ کہاں جائیں۔ لندن جیسے شہرمیں بیشمار تھیٹر ہیں‘نائٹ کلب ہیں۔ میخانوں سے شہر بھرا پڑاہے ۔ جیب میں کچھ ہو اورآپ نے فیصلہ کرنا ہو کہ شام کیسے گزارنی ہے تواچھی خاصی مشکل پیش آتی ہے ۔ ہر ہفتے مجھے کام کے سلسلے میں لاہور جانا ہوتاہے ۔ یہ نہیں کہ لاہور آج کا بڑا شہر ہے ۔ تقسیم ہند سے پہلے شمالی ہندوستان کا ثقافتی دارالخلافہ لاہور تھا نہ کہ دہلی ۔لاہور پہلے سے کہیں زیادہ پھیل چکاہے ۔ تقسیم سے پہلے کے لاہور کا محدود رقبہ تھا۔ اب ہرطرف اتنا پھیلا ؤ ہے کہ گاڑی چلاتے وقت انسان تھک جاتاہے ۔ لیکن کرنے کو کچھ نہیں ۔ چند تھیٹرز ضرورہیں اوراُن میں خاص قسم کے ڈرامے منعقد ہوتے ہیں ۔یہ بھی اچھی چیز ہے ، کم ازکم کچھ تو ہے ۔ لیکن ان ڈراموں کے آگے ایک خلاہے ۔جو کچھ لاہور میں ہوتاہے ، اورہوتا بہت کچھ ہے ، سارے کا سارا زیر زمین ہے ۔ یعنی شام کے سامان موجود ضرورہیں لیکن نقاب اورپردے کے پیچھے ۔ واقفانِ حال ہی اُن تک پہنچ سکتے ہیں ۔ جیبیں بھی بھاری ہونی چاہئیں۔ مملکت ِخداداد میں سامانِ شام سستے داموں مہیانہیں۔ ہوٹل وغیرہ کے اخراجات ملائے جائیں تواتنے پیسوں میں انسان دوبئی گھوم آئے ۔ 
ایک زمانہ تھا ، اوریہ 1977ء کے پُرآشوب دور سے پہلے کی بات ہے ، لاہور اوردیگر شہروں میں آسانیاں زیادہ تھیں ۔اہلِ دل کو بہلانے کیلئے چیزیں بھی قدرے کم داموں پہ مہیا ہوجاتی تھیں ۔ منافقت کا سیلاب کیا آیا کہ سب کچھ بہا کے لے گیا ۔ اَب توحالات ایسے ہیں کہ یا تو دل پہ تالے لگا دئیے جائیں یا جائز وناجائز طریقے سے جیبیں بھری جائیں ۔ بغیر بھاری جیبوں کے آسائشِ شام دسترس سے باہر جا چکی ہیں ۔ 
ایامِ کپتانی میں پلٹن کی کینٹین کے پٹھان ٹھیکیدار سے دوتین سو روپے اُدھار لیتے ،شہر کی طرف آتے اورشام کاکام چل جاتا۔ اَب یاتو آپ پلاٹوں کی فائلیں بیچنے کے کاروبار میں ہوں یا کسی اور منافع بخش دھندے میں ،تب ہی لاہور کی رنگینیاں آپ کے ہاتھ آسکتی ہیں۔ یعنی آپ میں اُس پیمانے کا ہنر نہ سہی جس کا مظاہرہ حسین نواز وغیرہ کرسکتے ہیں کہ فلاں جگہ کاروبار شروع کیا اورالحمدللہ بہت منافع ہوا لیکن کچھ نہ کچھ تو ہاتھ کی صفائی دکھاسکتے ہوں،تبھی گزارا ہوسکتاہے ۔ 
میخانے تو چھوڑئیے ، ہم تو اہلِ ایمان ٹھہرے اورہمارا ان چیزوں سے کیا لینا دینا۔ لاہور مال سے آپ گزر رہے ہوں اورآپ نے کسی اسلوب کی چائے کی پیالی پینی ہو تو جی پی او سے لے کر ائیر پورٹ تک ایک بھی مناسب قسم کا چائے خانہ نہیں ۔ حیران کرنے والی بات ہے لیکن ایسا ہی ہے۔ دو تین بڑے ہوٹل ہیں یا آپ اُن میں جائیے ۔ چائے وہاں کی تھرڈ کلاس پیسے البتہ وافر دینے پڑتے ہیں۔ایک وقت تھا جب مال عمدہ چائے خانوں سے آباد تھا ۔ شام کے وقت ہم جیسے نالائق اورشرفا بھی فٹ پاتھوں پہ چہل قدمی کرتے اورحسبِ توفیق جیب کی گہرائی کے مطابق کہیں بیٹھ کے چائے پی لیتے ۔ اَب جوتے خریدنے ہوں تو آپ مال پہ چلے جائیں ۔نہ پارساؤں کے لئے چائے خانے رہے نہ گناہگاروں کے لئے میخانے۔ جس قوم نے اپنی ایسی حالت بنا لی ہو اُس نے اور شعبوں میں کیا کرناہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved