پاکستانی سیاست بدستور بے لگام ہے۔ اہل ِ سیاست اس طرح ایک دوسرے سے اُلجھے ہوئے ہیں اور وہ وہ الزام ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں کہ الحفیظ والامان۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مُلک میں کئی مُلک آباد ہو گئے ہیں، اور ان کی فوجیں آپس میں نبرد آزما ہیں۔ ہم وطنی کا جو رشتہ ہم سب کو باندھے ہوئے ہے، اور جس کی بدولت ہم اپنی ایک اجتماعی شناخت کا دعویٰ رکھتے ہیں، اُس کو کمزور سے کمزور تر کیا جا رہا ہے۔ دشمن ممالک کے رہنے والے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آتے جس طرح کہ ہم ایک دوسرے سے حساب چکا رہے ہیں یا یہ کہیے کہ وہ قرض اتار رہے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ ایک طرف شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے صدور مل رہے ہیں۔ ہاتھ ملانے کے بعد دِل ملانے کی تیاریوں میں ہیں۔ جنگ ِ عظیم کے لگائے ہوئے زخم مندمل کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں، اور دو مختلف سانچوںمیں رکھّے ہوئے لوگ یک وطنی کے خواب کی تعبیر ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما ایک دوسرے کو دھمکانے اور صلواتیں سنوانے کے بعد ملاقات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ امریکی صدر نے بڑے فخر سے ٹویٹ کیا ہے کہ عنقریب شمالی کوریا سے مصافحہ ہو گا۔ اس کے قائد سے ملاقات طے ہو چکی، تاریخ اور مقام کے لیے انتظار فرمایئے۔دوسری طرف اسرائیل کے بارے میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا لہجہ یکسر بدل گیا ہے۔ وہ فلسطینیوں کو موقع سے فائدہ اٹھا کر مسئلہ حل کرنے کی تلقین کر رہے ہیں، اور اِس بات پر برہم ہیں کہ ماضی میں فلسطینی قیادت فراست سے کام نہیں لے سکی۔ اُس نے مختلف مواقع پر پیدا ہونے والے امکانات سے استفادہ نہیں کیا۔سعودی عرب کے نوجوان لیڈر ماضی کی ''کوتاہیوں‘‘ کا ازالہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اور ''وہابیت‘‘ کا چولہ اُتارنے کے لیے نہیں تو کم از کم بدلنے یا ڈھیلا کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ درس دے رہے ہیں کہ پرانی دشمنیوں کو پالنا ان کے ملک کے، بلکہ عالم اسلام کے مفاد میں نہیں ہے... اس بدلتی دُنیا میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنوبی ایشیا میں بھی مفاہمت کی نئی تحریک اٹھائی جاتی۔بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ مل کر ماضی کی فرو گزاشتوں کا ازالہ کیا جاتا، اور یہاں تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی جاتی، لیکن پاکستان کے اہل ِ سیاست اپنے ہی ملک میں تقسیم اور تفریق کی لکیریں کھینچنے میں لگے ہیں۔ پاکستان کے اپنے ادارے ہٹ لسٹ پر ہیں، اور ان کو مضبوط کرنے کے نام پر انہیں کمزور کیا جا رہا ہے۔خود ادارے بھی اس کا ادراک نہیں کر پا رہے، دانا دشمنوں کے ساتھ ساتھ جن نادان دوستوں سے ان کا پالا پڑا ہوا ہے، وہ زمین تنگ کرتے جا رہے ہیں ؎
موت ہی انسان کی دشمن نہیں
زندگی بھی جان لے کر جائے گی
دُنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اور ہم صدیوں پہلے کی عصبیتں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی توہین عدالت کے مقدمات چل رہے، اور ان کی پاداش میں تاحیات نااہلیاں ہو رہی ہیں۔عمران خان کا الزام ہے کہ 2013ء کا انتخاب نواز شریف فوج کی مدد سے جیتے تھے۔ ایک بریگیڈیئر نے یہ سارا آپریشن پلان کیا تھا، فوج کے پہرے میں عدالتی آر اوز(ریٹرننگ آفیسرز) نے ٹھکا ٹھک مہریں لگائی تھیں۔ آصف علی زرداری بھی اپنی شکست کو جسٹس افتخار چودھری کے نائبین کا کرشمہ قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔حالانکہ ان انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کی شکایات کا جائزہ لینے والے عدالتی کمیشن کے سامنے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے،نہ ہی اس نے اس طرح کے کسی الزام کی تصدیق کی، اس کے باوجود فوج اور عدالت دونوں نشانے پر ہیں... نواز شریف کو آنے والے انتخابات میں ''خلائی مخلوق‘‘ نظر آ رہی ہے۔ ان کا پُر زور اصرار ہے کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے ہے نہ زرداری سے۔ ''خلائی مخلوق‘‘ ان کے مقابل ہے۔
میڈیا کے حلقے بھی نالہ کناں ہیں کہ ان کو اپنا کردار ادا نہیں کرنے دیا جا رہا۔دستور نے دفعہ19 کے تحت انہیں آزادیٔ اظہار کا جو دائرہ فراہم کیا ہے، اُسے تنگ کیا جا رہا ہے۔یہ درست ہے کہ توہین عدالت اور مسلح افواج کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، لیکن تنقید اور توہین میں فرق روا رکھنا بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ قومی ادارے پوری قوم کی متاع ہوتے ہیں، انہیں تنازعات میں اُلجھانا کسی کے مفاد میں نہیں۔ یہ گزارش بے جا نہ ہو گی کہ ایسے بیانات اور تبصرہ جات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے،جن میں ان پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔الزامات کی چھان بین اور تحقیق و تفتیش کے بغیر گدلے پن کو دور نہیں کیا جا سکے گا۔عدالتی اور دفاعی اداروں پر لازم ہے کہ اپنے قومی کردار کی حفاظت کریں کہ اُنہیں فریق بنانے کی کوشش (خواہ کسی بھی طرف سے ہو) اجتماعی مفاد میں نہیں۔خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہنے سے تماشہ لگانے والوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اس لیے گفتار اور کردار کا حساب دینے اور لینے کی تیاری سب پر لازم ہے۔ دِل اور جگر کام نہ کر رہے ہوں تو جسد ِ خاکی کو منوں مٹی کے نیچے دبانا پڑتا ہے۔
وضو اور نماز کے طبی فوائد
پاکستان کے ممتاز سائنس دان اور ماہر تعلیم ڈاکٹر جمیل انور چودھری کی ایک حالیہ تحریر کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو۔ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ ہزاروں روپے ماہوار ورزش خانوں میں جا کر خرچ کرنے والوں کو سامنے کی اس حقیقت پر بھی تو ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔
''آج کل غیر مسلم ماہرین طب بھی اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک مسلمان جب دن میں پانچ وقت وضو کر کے نماز ادا کرتا ہے تو وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔بہت ساری بیماریوں کے جراثیم وضو کرتے وقت ہاتھ اور منہ سے دھل جاتے ہیں اور ناک اور گلے سے بھی نکل جاتے ہیں۔پائوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ جسم کا یہ حصہ عموماً توجہ سے محروم رہتا ہے اور ہوا نہ لگنے کے باعث یہاں جراثیم پرورش پا سکتے ہیں۔آج کل فضائی آلودگی بھی بہت ساری بیماریوں کا باعث بننی ہے۔ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ دن میں پانچ مرتبہ صحیح طور پر وضو کرنے سے انسان گلے اور ناک میں در آنے والی فضائی آلودگی سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے۔ایک وضو میں تین مرتبہ چہرہ دھونے سے آنکھوں کی خودبخود صفائی ہو جاتی ہے اور آنکھیں بہت ساری کثافتوں سے پاک ہو جاتی ہیں۔نماز میں قیام کے دوران جب انسان مناسب حد تک پائوں پھیلا کر سیدھا کھڑا ہوتا ہے تو اس کی ریڑھ کی ہڈی سے نکلنے والی نسیں پورے جسم میں یکساں طور پر خون پہنچاتی ہیں۔ خصوصاً جب آپ کا سر اور کمر ایک ہی سطح پر واقع ہوں تو دماغ کو اضافی خون اور آکسیجن ملتی ہے،جس سے انسان تھکاوٹ میں کمی اور ترو تازگی محسوس کرتا ہے۔نماز کی ادائیگی میں ایک مسلمان اپنا زیادہ تر وقت اسی حالت،یعنی قیام میں گزارتا ہے، قیام کے بعد رکوع کی حالت میں بھی سر کا پچھلا حصہ اور ریڑھ کی ہڈی تقریباً ایک ہی بلندی پر ہوتے ہیں جبکہ ہاتھ گھٹنوں پر اور ٹانگیں سیدھی ہوتی ہیں۔اس عمل سے بھی ریڑھ کی ہڈی کے نچلے مہرے مضبوط ہوتے ہیں۔ٹانگوں اور رانوں میں تنائو کے باعث خون کی گردش تیز ہوتی ہے اور پٹھے کھچائو برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔اس پوزیشن میں انسانی معدے پر بھی ہلکا سا دبائو پڑتا ہے جو خوراک کے ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے۔نماز ادا کرتے وقت سجدہ ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان نہ صرف روحانی طور پر اپنے آپ کو اللہ کے نزدیک محسوس کرتا ہے، بلکہ اس کے جسم کے لیے بھی ایک بہترین ایکسر سائز ہے۔سجدہ وہ واحد پوزیشن ہے جس میں دماغ اس کے دِل سے نیچے چلا جاتا ہے جس سے دماغ کو وافر مقدار میں مصفا خون ملتا ہے،جس میں موجود تازہ آکسیجن ملنے سے انسانی دماغ کی کارکردگی بہتر اور اس کی یادداشت قائم رہتی ہے۔اس کے برعکس دماغ کو اگر چند سیکنڈ کے لئے بھی آکسیجن نہ ملے تو دماغ کے خلیے مردہ ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹروں کی متفقہ رائے ہے کہ پانچ وقت وضو کے بعد نماز ادا کرنے والے لوگ ذہنی طور پر چاق و چوبند اور جسمانی طور پر تندرست رہتے ہیں۔‘‘
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)