''مائیکرو فکشن کو ہم اردو میں ایک ایسا متن دیکھتے ہیں جو 300 سے 500 الفاظ پر مشتمل ہو (ایک متفقہ طے حد بعد از مکالمہ) ایک ایسا متن جس کی ہر سطر سے کہانی پھوٹے لیکن جو آ کر بنیادی کہانی سے ہی جڑت کرے، جو بیک وقت داستان کا لطف، افسانے کا فسوں، علامت کا رنگ اور نظم کا آہنگ لئے ہو۔۔،ایک ایسا متن جو ہزار داستان لئے ہو۔ جو مائیکروف ہو لیکن اس کا وژن میکرو ہو۔ اور یہ ایک ایسا متن ہو جو Aporia ''تعطل‘‘ ''معما‘‘ کا عمدہ نمونہ ہو ۔ افتراک و التوااس متن کی ساخت پر مسلط ہو کہ فکشن تشکیکی حالتوں سے دوچار ہوتا اپنے SignifierاورSignified میں ثنویت کا حامل ہو۔ بیک وقت کئی کہانیوں کو چھوتا ہوا ایسا متن جو ہر سطر کے متن کو جذب کرتا ہوا اس کی تقلیب بھی کرے اور مجموعی حیثیت میں یہ متن پیراڈائم کی عمدہ مثال ہو لیکن جو کہا جائے فکشن کے بیتر کہا جائے‘‘۔(سید تحسین گیلانی، کتابی سلسلہ انہماک 1 )
اس کا لب لباب اور سارا معاملہ اختصار کی طرف جاتا ہے اور یہی اس کی وجہ تسمیہ بھی ہے کیونکہ خود قاری اختصار طلب ہے اور انتہائی مصروف زندگی میں ادب پڑھنے کیلئے اس کے پاس وقت ہی بہت کم ہے، یہی وجہ ہے کہ فکشن میں ہم کتھا سے ناول، ناول سے ناولٹ اور ناولٹ سے مختصر افسانے کی طرف آئے، اگرچہ ناول اب بھی لکھا جا رہا ہے لیکن مختصر افسانے کی نسبت بہت کم۔ اگرچہ اس کے اشارے مختصر افسانے کے حوالے سے پہلے ہی سے موجود رہے ہیں مثلاً مختصر ترین افسانہ اسے کہا گیا کہ سر راہ ایک آدمی سے دوسرے نے پوچھا: تم نے کبھی بھوت دیکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں، تو اتنے میں سوال کرنے والا غائب ہو گیا۔ اسی کہانی کو ایک لطیفے میں بھی اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک خاتون ایک پرانے قلعے کی سیر سے فارغ ہوئی تو اس نے گائیڈ سے کہا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس قلعے میں بھوتوں کا بسیرا بھی ہے، تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘
''میں نے تو یہاں کبھی بھول نہیں دیکھا ‘‘ گائیڈ نے جواب دیا،
''تم یہاں کتنے عرصے سے تعینات ہو ؟ ‘‘خاتون نے پوچھا:
''یہی کوئی تین سو سال سے ‘‘ گائیڈ نے جواب دیا۔
سو‘ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، کے مصداق ، شاعری میں بھی ہم مثنوی سے طویل نظم، طویل نظم سے طویل مختصر نظم اور پھر مختصر نظم کی طرف آئے جو سکۂ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، البتہ اس میں محنت اور ذہانت دونوں ہی زیادہ درکار ہیں۔ اس ضمن میں ایک مثال یہ بھی کہ مولانا محمد علی جوہر نے ایک دفعہ اپنے رسالے کا اداریہ خلاف معمول بہت طویل لکھ دیا، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو مولانا بولے کہ مختصر لکھنے کیلئے میرے پاس وقت نہیں تھا چنانچہ یہ مختصر نویسی اردو نظم میں بھی در آئی۔ غالباً رئیس فروغ کی یہ نظم دیکھیے:
دروازہ
مجھے نہ کھولو
مرے اندھیرے میں ایک لڑکی
لباس تبدیل کر رہی ہے
اسی طرح بغیر عنوان کے فرخ یار کی یہ نظم:
میں نے اسے اتنا دیکھا ہے
جتنا دو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
لیکن آخر دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا ہے
اسی طرح منیر نیازی کی بعض نظموں کی بھی مثال دی جاتی ہے۔
دراصل میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر جو کہ غزل سے ہٹ کر بھی ایک آزاد حیثیت رکھتا ہے، بجائے خود مائیکرو پوئٹری کی ذیل میں آتا ہے کیونکہ ہر شعر ایک مکمل نظم کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس سے بھی شاعری کی حد تک ،وہ سارے مطالبات پورے کئے جا سکتے ہیں جو مائیکرو فکشن کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں جبکہ غزل کے شعر سے بڑھ کر مختصر نویسی کی شاعری میں کوئی مثال نہیں ہے۔ چنانچہ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ مختصر نویسی اگر قاری کی ضرورت بن چکی ہے تو اس لحاظ سے بھی غزل ایک روشن مستقبل کا دعویٰ کرتی نظر آتی ہے کیونکہ یہ قاری کیلئے اپنے اندر زیادہ دلکشی کا سامان رکھتی ہے اور ''دشمنوں‘‘ کی تابڑ توڑ کوششوں کے باوجود اگر غزل مر نہیں سکی بلکہ زندہ و توانا ہے بلکہ ایک شاندار مستقبل بھی رکھتی ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہ ہوگی۔
چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ مائیکرو فکشن کے ساتھ ساتھ غزل کے شعر کو بھی مائیکرو پوئٹری کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، اگرچہ غزل کو اس کی پروا اور ضرورت نہیں ہے کیونکہ اپنی انہی خوبیوں کی بناء پر یہ صرف اپنے پائوں پر کھڑی ہے اور مستقبل میں بھی اپنی حیثیت اور خوبیوں کو برقرار رکھے گی، چنانچہ یہ پہلے ہی مائیکرو پوئٹری کے طور پر اگر موجود ہے تو اسے شناختی نشان کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
اور اب حسب معمول آج کی تازہ غزل:
جو وہاں ہے یہاں سے دور ہے کیوں
یہ زمیں آسماں سے دور ہے کیوں
تیرا ہونا ترا نہیں ہونا
میرے وہم و گماں سے دور ہے کیوں
جس جگہ تک مری رسائی ہے
اور بھی تو وہاں سے دور ہے کیوں
اس کی جاگیر ہے، اسی کی رہے
مہر اس مہرباں سے دور ہے کیوں
رنگ اطراف میں بکھرتے ہیں
کام یہ درمیاں سے دور ہے کیوں
کام ہوتے ہیں سب اشاروں سے
بے زبانی زباں سے دور ہے کیوں
سب کہیں اور رہتے ہیں جا کر
جو مکیں ہے مکاں سے دور ہے کیوں
کھل کے میں بول کیوں نہیں سکتا
بات میرے بیاں سے دور ہے کیوں
اس کی تعبیر ہے کہیں تو‘ ظفر
میرے خواب ِرواں سے دور ہے کیوں
آج کا مطلع
جب دوسری طرف کا نظارا قریب تھا
ڈوبے وہاں جہاں سے کنارا قریب تھا