تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-05-2018

ایک جذبے کی حکمرانی سے بچئے

آپ نے زندگی میں ایسے لوگ دیکھے ہوں گے، جو انتقام کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں ۔ اپنے دشمن کو تباہ کرنا ان کی واحد ترجیح ہوتی ہے ۔ اس کے لیے اگر انہیں سالہا سال تک تکلیفوں سے بھی گزرنا پڑے تو بھی وہ برداشت کرتے ہیں ؛حتیٰ کہ ان کی پوری زندگی اس انتقام کی نذر ہوجاتی ہے ۔ وہ اپنی زندگی میں ترقی و خوشحالی کے امکانات کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک دفعہ میں نے اخبار میں پڑھا۔ ایک لڑکی نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی۔ اپنے شوہر کے ساتھ وہ کسی دوسرے شہر چلی گئی ۔ اس کی اولادیں بھی جوان ہو گئیں۔ اس کے خاندان والے اسے ڈھونڈتے رہے ۔ آخری تیس پینتیس سال بعد اس سے ان کا رابطہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۔ اب ہمارے پاس واپس آجائو۔ ایک دفعہ ہمیں اپنے نواسے نواسیوں سے ملنے دو۔ انہیں سینے سے لگانے دو۔ آخر جب اس کا ڈر ختم ہوا تو وہ اپنے خاندان سے ملنے واپس آئی ۔ بھائیوں اور باپ نے پہلے بہت تواضع کی۔ اس کے بعد موقع ملتے ہی کلاشنکوف کے برسٹ سے ان سب کو بھون کر رکھ دیا۔ 
آپ ذرا اس واقعے پر غور کریں ۔ بیٹی کو یہ یقین دلانے کے لیے جذباتی اداکاری کہ ہم سب کچھ بھول چکے ہیں ۔ تیس پینتیس سال میں انتقام کی یہ آگ بجھی نہیں ۔ اپنی بیٹی اور نواسوں کو قتل کرنے کے نتیجے میں باقی زندگی جیل میں ۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا، جس نے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ کر دی اور زندگی کے باقی ماندہ ایام جیل کی تکلیفوں میں گزریں گے ۔ یہ سب قبول تھالیکن انتقام بھولنا قبول نہیں ۔ یوں ایک کیفیت ، ایک جذبہ جب دماغ پر قبضہ پا لیتاہے تو وہ انسان کی اوّلین ترجیح بن جاتاہے ۔ باقی سب کچھ معاملات اس کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں ۔ انسان اپنی زندگی کو دائو پر لگا دیتاہے ۔ لوگ فخر سے یہ با ت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی یا بہن سے قطع تعلقی کی تو دس سال تک اس سے بات نہیں کی ؛حالانکہ یہ شرم اور افسوس سے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ انسان اپنی جبلت پر فخر کرے ۔ قطع رحمی کرنے والے کو خدا اس کا رسولؐ کس درجے میں رکھتے ہیں ، یہ ہم سب کو معلوم ہے۔ 
خیر کہنے کی بات یہ ہے کہ انسان کا دماغ اس طرح سے فیصلہ سازی کرتاہے کہ کوئی ایک جذبہ یا جبلت غالب ہوجاتی ہے ، Dominateکر جاتی ہے ۔ جن لوگوں کو کسی سے عشق ہو جاتاہے ، جو کہ ایک بہت مثبت جذبہ ہے ، ان کی زندگی بھی مکمل طور پر اس کی نذر ہوجاتی ہے ۔ زندگی سے ، اپنی بقا سے محبت سب سے بنیادی جبلت ہے لیکن جب خاندان کسی لڑکی سے اس کے عشق کو مسترد کرتاہے تو انسان زہر تک پی لیتا ہے ۔یہاں ضد اور دوسروں کے خلاف ردّعمل کے جذبات بھی محبت کے جذبے کے ساتھ تعامل کر جاتے ہیں ۔ یوں انسان اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کر ڈالتاہے ۔ 
یوں آپ نوٹ کریں گے کہ جو جذبہ بھی زیادہ شدت کے ساتھ بروئے کار آتا ہے ، وہ باقی ضرورتوں ، جذبوں اور خواہشات پر غلبہ پا لیتاہے ۔ انسان پھر صرف اور صرف اسی جذبے کے تحت فیصلے کرتاہے ۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ سیاستدانوں میں انتقام اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی خواہش بہت بڑھ جاتی ہے ۔ یہی حال مارننگ شو کرنے والوں کا ہوتاہے یا باقی میڈیا کے لوگوں کا، جن میں ، میں بھی شامل ہوں ۔ ہمارے لیے ریٹنگ کی دوڑ اور دوسروں سے زیادہ readershipاور viewershipواحد اہم چیز رہ جاتی ہے ۔ باقی سب چیزیں بے معنی ہو جاتی ہیں ۔ 
آپ عبد الستار ایدھی کی زندگی دیکھیے ۔ اس میں ایک مثبت جذبہ ، دوسرے انسانوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا جذبہ باقی تمام جذبات پر غلبہ پا گیا۔ 88برس کی عمر تک ، جب تک ان کے لیے حرکت کرنا ممکن رہا ، وہ اسی کام میں جتے رہے ۔ ویسے ایسا ہوتا شاذ و نادر ہی ہے کہ انسان دوسروں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دے ۔ اس لیے کہ نفس میں شدید خودغرضی رکھی گئی ہے ۔ یہ یا تو اپنی ترقی و خوشحالی کے بارے میں سوچتا ہے یا پھر اپنی اولاد کے بارے میں ۔ اس سے آگے اس کی سوچ عموماً جاتی نہیں ہے ۔ اگر جائے بھی تو اس کی اولاد ہی کہنے لگتی ہے کہ آپ کیا ساری انسانیت کے ٹھیکے دار بنے پھرتے ہیں ۔ بس اپنا دستِ شفقت ہمی پر رکھا رہنے دیجیے ۔
یہی حال جنسِ مخالف سے محبت کا ہے ۔ جب انسان اس کا شکار ہو جاتاہے تو پھر اس کی 90فیصد توجہ اسی پر فوکس رہتی ہے ۔ ہمیشہ سے انسان اس کے ہاتھوں مارا جاتا رہا ہے ۔ آپ امریکہ کے صدر بل کلنٹن کو دیکھ لیں ۔ سی آئی اے کے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو دیکھ لیں ، جن کی نوکری اس وجہ سے ختم ہو ئی ۔ 
ہم ہر پانچ منٹ کے بعد فیس بک کھول کر کیوں دیکھتے ہیں ۔ یہی جذبات ہیں ، جو کہ Dominateکر گئے ہیں ۔ اوّل تو میری بات کو لوگ لائک کریں یعنی حبِ جاہ۔جتنے زیادہ لوگ لائک اور شئیر کریں گے، حبِ جاہ والی جبلت اور اپنی ذات سے محبت کی جبلت کو اتنی ہی تسکین ملے گی ۔ پھر یہ کہ ان لائک کرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہوں یعنی جنسِ مخالف کی محبت ۔ پھر یہ کہ میں اپنی مخالفت کرنے والوں کی ایسی تیسی پھیر دوں ، یعنی دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کی جبلت ۔ ان میں سے ایک ایک جبلت ایسی ہے ، جو کہ انسان کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ایک انسان انتقام اور جنسِ مخالف کی محبت ، ان دو جبلتوں کے تحت فیصلے کر رہا ہے تو ان میں سے Dominateکون سی کرے گی ؟
دماغ جب خواہش سے نکلتاہے تو اس کا فوکس بڑھ جاتاہے ۔ اس میں نور پیدا ہوجاتاہے اور پردے چھٹنے لگتے ہیں ۔ انسان میں بصیرت پیدا ہوتی ہے ۔ وہ وقتی فائدے کے لیے ہر بات پر فوراً reactionوالی نفسیات سے نکل جاتاہے ۔ جب انسان خواہش کی پیروی کرتاہے تو اس کے الٹ ہوتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لالچ اور گناہ کی خواہش میں اکثر بہت ذہین لوگ بھی بڑی بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں ۔ جہاں ایک عام دماغ بھی دیکھ سکتاہے کہ اگر ایسا کیا تو میں مارا جائوں گا ۔
یہی حال دولت میں اضافے کی خواہش کا ہے ۔ دوسری خواہشات کی طرح ، یہ بھی انسان پر مکمل غلبہ پا لیتی ہے اور پھر باقی سب مثبت جذبے دب کے رہ جاتے ہیں ۔ جب میری دکان کے سامنے کوئی اپنی دکان کھول کر بیٹھ جائے تو نفس فوراً حسد کے جذبے تلے دب جاتاہے ۔ اس وقت اس کی پوری خواہش سامنے والی دکان والے کو تباہ کرنا ہوتاہے ۔ اسی پر مکمل توجہ مبذول رہتی ہے ۔زیادہ دیر تک کاروبار کرنے والوں میں لالچ غلبہ پا لیتاہے ۔ پھر انسان ہر چیز کو مالی فائدے اور نقصان کے ترازو میں تول کر دیکھنے لگتاہے ۔ ہاں ، البتہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں ، جو کہ خدا کی راہ میں تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔ 
اس ساری کہانی کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو کوشش کر کے اپنے آپ کو کسی مثبت جذبے کے سپرد کرنا چاہیے لیکن ایک اعتدال کے ساتھ ور نہ دوسرے آپ کا استحصال (Exploit)بھی کر سکتے ہیں !بہرحال انسان کو ایک جذبے کی حکمرانی تلے دب کر خودغرضی کی زندگی نہیں گزارنی چاہیے ۔ اعتدال اختیار کرنا چاہیے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved