تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-05-2018

جیسی روح ویسے فرشتے

فلک سے جواب آیا: جیسے اعمال‘ ویسے عمّال۔ جیسی روح ویسے فرشتے۔ لیڈر نہیں قومیں سرفراز ہوتی ہیں۔ مردہ قوموں کو زندہ لیڈر عطا نہیں کیے جاتے۔ 
کراچی میں ایک لیڈر موجود ہے۔ مصطفی کمال اس کا نام ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد صدیقی سمیت باقی سب کے سب روبوٹ سے ہیں۔ چیخ چیخ کر خالد صدیقی نے کہا کہ فاروق ستار نے اب مہاجر خواتین کی طرف میلی نگاہ سے دیکھا تو ان کی آنکھیں نکال دی جائیں گی۔ وسیم اختر پہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الزام لگایا کہ ایک سال میں پونے چھ ارب ہڑپ کر گئے۔ 
آنے والا کل کیا لائے گا‘ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے‘ جس کی کتاب میں لکھا ہے ''تِلکَ اَلاَیّامُ نُداوِلُہا بَینَ اَلنّاس‘‘ یہ دن ہیں‘ جنہیں ہم انسانوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ تغیّر ہی دائمی قانون ہے۔
جو تھا نہیں ہے‘ جو ہے نہ ہو گا‘ یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی‘ اسی کا مشتاق ہے زمانہ
آدمی نہیں‘ لیڈر نہیں‘ پارٹیاں گروہ اور قبیلے نہیں‘ حالات کا رخ فیصلہ صادر کرتا ہے۔ اسی کو ہم زمانہ کہتے ہیں۔ اسی کے بارے میں فرمان یہ ہے: زمانے کو برا نہ کہو‘ میں ہی زمانہ ہوں۔ 
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
خالد صدیقی اور فاروق ستار‘ لیڈر بہرحال نہیں بن سکتے۔ ٹینکی گرائونڈ میں مشترک جلسۂ عام ووٹروں کے دبائو کا نتیجہ تھا۔ ان دونوں سے وہ نالاں ہیں۔ سوتنوں کی طرح ایک دوسرے کے بال نوچتے ہیں۔ اب بھی جن کے جلسوں میں... اور ہفتے کا اجتماع ان میں شامل ہے‘ الطاف حسین کے نعرے گونجتے ہیں۔ بچے بڑے ہو گئے‘ لیکن پائوں پر کھڑا ہونا سیکھ نہیں سکے۔ اپنے بل پر فیصلہ کرنے کی استعداد پیدا نہیں کر سکے۔ الطاف حسین نے بھی ابھی تک عاق نہیں کیا ہے۔ دشنام وہ مصطفی کمال کو دیتے ہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ایک سے زیادہ ٹیمیں‘ انہیں قتل کرنے کے لیے بھیج چکے۔ 
کچھ کمزوریاں مصطفی کمال میں بھی پائی جاتی ہیں۔ بے چین ہو جاتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ بہرحال وہی ہیں جو الفاظ سے زیادہ عمل کے آدمی ہیں۔ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کے وہ وطن لوٹے تھے۔ ارادہ نئی پارٹی تشکیل دینے کا نہیں تھا‘ بلکہ صرف ماضی کا بوجھ اتار پھینکنے کا۔ الطاف حسین کا سورج نصف النہار پہ چمک رہا تھا۔ ان کی دشمنی مول لینا‘ دریا میں مگر مچھ سے بیر رکھنے کے مترادف تھا۔ ایسی دلاوری کی توفیق کم ہی کسی کو عطا ہوتی ہے۔ ہو جائے تو بند دروازے کھلنے لگتے ہیں اور کھلتے چلے جاتے ہیں۔
وہی تو در ہے جو صحرا کی سمت کھلتا ہے
وہی تو سر ہے جسے زانوئے جہاں نہ ملے
ایم کیو ایم پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے‘ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہے اور زرداری کی حامی بھی۔ ان کے خلاف بلاول بھٹو چیخے چلّائے ضرور‘ اس عجیب لہجے میں جس پہ لوگ ہنستے ہیں‘ ان کی مذمت ضرور کی۔ الیکشن کے بعد لیکن ضرورت پڑی تو یک جان و دو قالب ہو جائیں گے۔ 
تاویل کا پھندا گر کوئی صیّاد لگا دے
شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
پہاڑ جیسی غلطی کا ارتکاب پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ حالات کے تیور سے خوف زدہ‘ اپنے انجام سے خوف زدہ‘ جس شجاعت کے وہ مرتکب ہیں‘ ایک بار پھر لسانی فساد کی آگ وہ بھڑکا سکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے بھی کوئی کسر چھوڑی نہیں۔ شہر بھر میں ''جاگ مہاجر جاگ‘‘ کے بینر لگا دیئے ہیں۔ ہفتے کو تقاریر کا اسلوب بھی یہی تھا۔ شہلا رضا اور سعید غنی کو معقول لوگ مانا جاتا ہے۔ خوف میں گندھا ہیجان مگر ایسی چیز ہے کہ اچھے بھلوں کو عاقبت نااندیش بنا دیتا ہے۔ 
دونوں گروپوں نے پورے صوبے سے سامعین جمع کرنے کی کوشش کی‘ دونوں ناکام رہے۔ یوں تو تمام لیڈر ہی ووٹروں کو احمق سمجھتے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی استثنیٰ کیوں بنتے۔ ہر ایک سے پیمان‘ ہر ایک سے فریب دہی۔
معشوقِ ما بہ شیوۂِ ہر کس موافق است
با ما شراب خورد و با زاہد نماز کرد
میرے محبوب کا شیوہ عجیب ہے۔ ہر ایک سے ایک جیسا تعلق۔ میرے ساتھ بادہ نوشی اور زاہد کے ساتھ نماز۔ قوم کا حال بھی پتلا ہے۔ فریب پہ فریب کھاتی ہے۔ اس لیے کہ علمی اور سیاسی تربیت کا ڈول ہی کبھی ڈالا نہ گیا۔ قائد اعظمؒ آخری مدبّر تھے‘ ایک باپ کی طرح‘ اپنے بچوں کے بارے میں جو فکرمند ہو۔ سکھانے پڑھانے کی انہوں نے کوشش کی۔ تلقین و ارشاد سے لوگ کم سیکھتے ہیں۔ ایک ہزار واعظ اور ایک ہزار کتاب اتنی اثر انداز نہیں ہو سکتی جتنی سچے عمل کی ایک واضح شہادت۔ مدینہ منورہ کی خاتون کا قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ سرکارؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ گزارش کی کہ اس کا فرزند شیرینی کو لپکتا ہے‘ نصیحت اسے کیجئے۔ اگلے دن آنے کو کہا‘ اور تلقین کی۔ حیرت سے اس نے کہا: یا رسولؐ اللہ‘ کل ہی ارشاد فرما دیا ہوتا۔ فرمایا: کل خود میں نے شیرینی کھائی تھی۔ 
تیرہ صدیاں ہوتی ہیں یہی گرما کا موسم تھا‘ افریقی ممالک کے اموی گورنر موسیٰ بن نصیر نے جواں سال طارق بن زیاد کو سپین کے ساحل پر اترنے کا حکم دیا۔ بارہ ہزار سپاہ تھی۔ بیشتر بربر‘ تھوڑے سے عرب۔ خود طارق بھی بربر تھا‘ آزاد کردہ غلام۔ مقابلے میں راڈرک کی فوج ایک لاکھ سے کم نہ تھی۔ زندگی دائو پہ لگتی ہے تو حسّیات جاگ اٹھتی ہیں۔ انسانی جبلتوں کا جیسا تعامل (Interaction) میدان جنگ میں اترتے ہوئے برپا ہوتا ہے‘ زندگی میں اور کہیں نہیں۔ جنگ اصل میں سپاہی کے اندر لڑی جاتی ہے۔ حکمت عملی تو خیر‘ خود سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ جنگ دھوکا ہے۔ سپاہی کو فیصلہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے اپنے مقصد کی فتح زیادہ عزیز ہے یا جان کی حفاظت۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے ''تمام زندگیوں کو ہم نے بخلِ جان پہ جمع کیا ہے‘‘ زندہ رہنے کی آرزو شدید بہت ہوتی ہے‘ اکثر غالب رہتی ہے۔ ایسا بھی مگر ہوتا ہے کہ مقصود پہ جان نچھاور کرنے کا ولولہ جاگ اٹھے۔ جاگ اٹھے تو پہاڑ بھی پگھل سکتے ہیں‘ صحرا بھی سمٹ سکتے ہیں۔ طارق نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی تو مشعل فروزاں ہو گئی۔ دیے سے جلا۔ اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ۔ سات سو برس تک ہسپانیہ میں چراغاں رہا۔ تاریخ کے طالب علم کہتے ہیں کہ یورپ سویا پڑا رہتا‘ طارق نے اگر اذان نہ دی ہوتی۔ گیارہ سو برس بیت چکے تھے اقبالؔ جب غرناطہ گئے۔ ان اذانوں کی گونج ابھی باقی تھی۔ شاعر نے اس نور کو الفاظ میں تصویر کر دیا۔
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں
ہر چیز بدل سکتی ہے۔ قدرت کے دائمی قوانین کبھی نہیں بدلتے۔ ظفر مندی اس قبیلے اور قوم کے لیے ہوتی ہے‘ جن کے قلوب علم سے روشن ہوں۔ آدمی اپنا گریباں چاک کر دے‘ اورنج ٹرین کے لیے‘ 260 ارب روپے۔ تین شہروں میں میٹرو بسوں کے لیے سو‘ ڈیڑھ سو ارب روپے۔ گیارہ کروڑ کی آبادی میں تعلیم کے لیے چالیس ارب۔ عمارتیں خستہ‘ استاد نا تراشیدہ اور حکمران بے نیاز۔ اقبالؔ نے کہا تھا
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
فلک سے جواب آیا: جیسے اعمال‘ ویسے عمّال۔ جیسی روح ویسے فرشتے۔ لیڈر نہیں قومیں سرفراز ہوتی ہیں۔ مردہ قوموں کو زندہ لیڈر عطا نہیں کیے جاتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved