جن دنوں نااہل شریف سیاست میں نازل ہوئے تب سکائی لیب کا بڑا شور تھا۔ یہ خلا میں گھومنے والی ایک آوارہ گرد لیبارٹری تھی‘ جو ناہنجاری اور لامحدود طاقت کے نشے کی ماری اپنے تخلیق کاروں کے ہاتھوں سے نکل کر مادر پِدر آزاد ہو گئی تھی۔ سکائی لیب خلا کے لیے بنی تھی لہٰذا اسے خلائی لیب کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس سکائی لیب کے جانکار کئی مہینے تک ساری دنیا کا خون جلاتے رہے۔ کبھی کہتے: یہ لاس اینجلس والوں پر جلد گرے گی‘ پھر کہیں سے نئی دہلی کو یہی خوشخبری دی جاتی۔ جاپان کا تو شاید ہی کوئی ایسا شہر بچا ہو جس پر سکائی لیب گرنے کی پیش گوئی نہ ہوئی۔ باقی دنیا خوش بخت تھی سو بچ گئی۔ لیکن مارشلائی لیب میں راہنمائی کی ہوائی ٹریننگ کے گملے میں کمائی مخلوق تیار کی گئی۔ اس کمائی مخلوق کا کاروباری چیف آسمانِ فراغت سے پاکستان کے صحنِ سیاست میں آن ٹپکا۔ اس کا پورا وجود زعمِ پارسائی کے چوغے میں لپٹا ہوا تھا۔ یوں لگا جیسے عرب شیخوں کا پالتو شکرا ہو۔
کمائی مخلوق نے خلائی مخلوق کی دہائی اب دی ہے۔ اس سے پہلے یہی جتھہ اپنے تخلیق کاروں کے خلاف غلیل والے، خفیہ ہاتھ، اوپر والے، ریاست میں ریاست، اصلی حکومت، طاقتور اسٹیبلشمنٹ، کندھے پر شولڈر بیج کی جگہ ہاتھ لگا کر 'خاکی‘ جیسے الفاظ استعمال کرکے اور بہت سے دوسرے نام لے کر چھوٹی انگلی اور انگوٹھے کو پھیلا کر ترازو کا نشان بناتے ہوئے‘ اب خلائی مخلوق تک پہنچے ہیں۔ اس کا پہلا نشانہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے۔ پچھلے 4 ہفتے سندھ سے سردار واحد بخش بھایئو اور بلوچستان سے سردار یار محمد رند کے علاوہ فاٹا‘ کے پی کے اور پنجاب سمیت حلقہ بندی کے متعدد کیسوں میں الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوا۔ جس محنت اور توجہ سے کمیشن کے فاضل ارکان نے بے جگری کے ساتھ صبح سے شام تک پورا پورا دن دے کر اعتراضات سُنے‘ اپنے ویک اینڈ اور چھٹیاں تک قربان کر دیں‘ اس پر میں نے الیکشن کمیشن کے فاضل ارکان کو اس بے لوث قومی خدمت پر روسٹرم پر آن ریکارڈ خراج تحسین پیش کیا اور شاباش دی۔ اس دن رات کی جانفشانی کا مقصد آئین کے آرٹیکل 218 کے تقاضے پورے کرنا تھا۔ آرٹیکل کی کمانڈ یہ ہے:
''It shall be the duty of the Election Commission to organize and conduct the election and to make such arrangements as are necessary to ensure that the election is conducted honestly, justly, fairly and in accordance with law, and that corrupt practices are guarded against''
ایک طرف الیکشن کمیشن کے فاضل ارکان بروئے قانون الیکشن کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے دن رات ایک کر رہے تھے‘ دوسری جانب اسی آئین کے تحت حلف اُٹھانے والا نااہل شریف اور اس کی وفاداری میں ویسا ہی حلف اُٹھانے والا ''جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ کا بطلِ حریت‘‘ الیکشن کو خلائی مخلوق سے منسوب کر رہا تھا‘ جس کے جواب میںالیکشن کمیشن کے ترجمان نے درست ردِعمل دیا۔ لیکن یہ کافی نہیں‘ پی ایم کو کٹہرے میں بلا کر ان کے بیان کی سچائی اور خلائی مخلوق کا مطلب پوچھنا از حد ضروری ہے۔ اس لیے کہ یہ ان کی دوسری واردات ہے۔ پہلی واردات میں انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں کھلے عام دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ اس بابت پی ٹی آئی کی پٹیشن الیکشن کمیشن میں زیرِ التوا ہے۔ عام آدمی کے زبانی بیان اور انٹیلی جنس اداروں کے چیف ایگزیکٹیو کے بیان میں زمین آسمان جتنا فرق ہے۔
کمائی مخلوق کا خلائی مخلوق پر حملے کا دوسرا پہلو بھی بہت اہم ہے۔ عدلیہ‘ جو سر ہتھیلی پر رکھ کر ملک بھر میں کرائم سنڈیکیٹ، جرائم مافیاز اور کرپشن کینگز پر ہاتھ ڈال رہی ہے‘ کے خلاف روزانہ جلسے، تقریریں، ٹویٹ، بلاگز، سیمینارز، دھمکیوں اور مظاہروں کی سیریز چل رہی ہے۔ اس کی جانب سے نظامِ چور بازاری کے خلاف گستاخی یہ ہے کہ100 روپے کے سیل فون ری چارج پر 40 روپے کے ٹیکس چارج کرنے کی وجہ پوچھتی ہے۔ یہ جاننا چاہتی ہے کہ کسانوں کو کرشنگ سیزن میں گنے کا سرکاری ریٹ کیوں نہیں ملا‘ میڈیکل کالجز مستقبل کے ڈاکٹروں سے ملین کے حساب سے فیس کیوں لے رہے ہیں۔ اسے اس بات کا غم کھائے جاتا ہے کہ آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر ریڈ زون کی طرف جانے والے صحافتی مزدوروں پر لاٹھیاں کیوں برسائی گئیں۔ جو جاننا چاہتی ہے کہ ہسپتال کے ایک بستر پر زچگی میں مبتلا 4 مائیں کیسے لٹا دی جاتی ہیں۔ کمائی مخلوق کے ماتمی دستے کا تیسرا غم بھی قابلِ توجہ ہے۔ یہ کہ جس فوج کے جرنیل، بریگیڈیئر، کرنیل، لیفٹیننٹ کرنل، میجر، کپتان، لیفٹیننٹ، صوبیدار، حوالدار، نائیک، لانس نائیک، سپاہی حتیٰ کہ کیڈٹ بھی ہر روز شہید ہوتے ہیں‘ وہ 36 سال بعد چور ٹبّر کی تیسری نسل کو اقتدار میں لانے کے لیے ہراول دستہ بننے سے کیوں کترا رہی ہے۔
پاکستانی قوم جانتی ہے کہ خلائی مخلوق سے جنگ کی اصل وجہ مگر کچھ اور ہے۔ جسے زعمِ پارسائی کے قافلہ سالار‘ جن کا اپنا قولِ صالح یہ ہے ''الحمدللہ ہمارے بزرگ پاکستان بنانے کے گناہِ کبیرہ میں شریک نہیں تھے‘‘ کے تازہ اقوالِ زریں کے مطابق مینارِ پاکستان پر ہم بتائیں گے جلسہ کیا ہوتا ہے۔ حق تو یہ تھا کہ وہ اپنے حسبِ حال یہ جملہ ارشاد فرماتے کہ پاکستانیو! تمہیں خلائی مخلوق بتائے گی سکائی لیب کیا ہوتا ہے۔ پھر اس کو بھی قوم خوب پہچانتی ہے جس کا کردار نارِ نمرود کے کنارے بیٹھی چھپکلی والا ہے۔ جو نمرود کی جلائی ہوئی آگ کی تپش میں شعلے بھڑکانے کے لیے پھونکیں مارتے ہوئے تاریخ کے ہاتھوں پکڑی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ اس چھپکلی کے سارے انڈے، بچے یہاں ہیں‘ ہمارے ارد گرد۔ کچھ یہاں کا کھاتے ہیں مگر بندے ماترم کا پرچم تھام کر بھارت ماتا کی جے جے کار بلند کرنے کی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ کچھ کماتے یہاں سے ہیں مگر کہیں خلیج عرب اور کہیں خلیج فارس کے گُن گاتے ہیں۔ جیسی تقریریں، خطبے اور فتوے یہاں جاری ہو رہے ہیں‘ جس ڈھب کے آستانے اور جس سائز کے غریب خانے پاک سرزمین پر آباد ہیں‘ ویسا خلیج عرب یا خلیج فارس میں خواب دیکھنے پر بھی پابندی ہے۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا تھا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ادارے غریب ہیں مگر افراد امیر اور امیر ترین بھی۔ اس کی وجہ پہ غور کیا تو پتہ چلا کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں وطن پر ہوائی المعروف زبانی حملہ کرنے کی اجازت نہیں۔کرۂ ارضی کی کسی دوسری قوم کو تحریکِ تحفظ کرپشن، تحریکِ عروجِ بدامنی، تحریکِ فروغِ تفرقہ، تحریکِ دشمنانِ وطن، تحریکِ انہدام ادارہ، تحریکِ خاندانی اقتدار، تحریکِ آگاہیٔ منی لا نڈرنگ، تحریکِ بحالیٔ عزت، تحریکِ نجات از قانون وغیرہ کی اجازت نہیں۔ اپنے ہاں یہ سب تحریکیں ڈنکے کی چوٹ پہ چل رہی ہیں۔ یہ سب مل جل کر بچانا کیا چاہتی ہیں کیا...؟ کمائی۔ وہ بھی ایسی کمائی جس کا ثبوت ہے‘ نہ سورس۔ جس کی منی ٹریل ہے نہ آمدن کا گوشوارہ۔ تاحیات نااہل کہتا ہے: بے پناہ آمدن ہے تو تمہیں کیا؟ ایک بھائی کے ابّا جی غریب مزدور تھے۔ دوسرے بھائی کی صاحبزادی کے بقول دادا جی پاکستان کے امیر ترین آدمی تھے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں: ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ میں کہتا ہوں: ہٹو بچو کے ساتھ وی وی آئی پی پروٹوکول ہے۔ آٹے کا بھائو 3 ہفتے بعد پتہ چلے گا۔ جب اپنے یا اپنے انویسٹروں کے خرچ پر ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ابھی تو ''ترلہ مخلوق‘‘ کی کہانیوں کے منہ پر سرکاری تجوریاں پڑی ہیں۔ اندر کا حال چند دن میں طشت از بام ہو گا۔
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
حال ہے اور قال ہے کچھ اور
وعدے برسوں کے کن نے دیکھے ہیں
دم میں عاشق کا حال ہے کچھ اور
سہل مت بوجھ یہ طلسمِ جہاں
ہر جگہ یاں خیال ہے کچھ اور
تو رگِ جاں سمجھتی ہو گی نسیم !
اُس کے گیسو کا بال ہے کچھ اور
کوز پشتی پہ شیخ کی مت جائو
اُس پہ بھی احتمال ہے کچھ اور
میر تلوار چلتی ہے تو چلے
خوش خراموں کی چال ہے کچھ اور